ظلم کی انتہا

کئی بااثر مسلمانوں کو بغیر کسی جرم کے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔


عثمان دموہی June 06, 2021
[email protected]

ابھی ایک سال قبل مودی گلگت بلتستان پر قبضہ کرنے کا سنہری خواب دیکھ رہا تھا مگر آج لداخ میں سیکڑوں کلو میٹر اندر چینی فوج کے گھس آنے پر آنسو بہا رہا ہے چین نے مودی کی دیش بھگتی کو للکارا ہے مگر وہ کچھ نہیں کر پا رہا ہے۔

مودی لداخ سے چینی فوجوں کو ہٹانے کے لیے چین کے پیر بھی پکڑ چکا ہے مگر چین لداخ کی ایک انچ زمین سے بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے اس لیے کہ اس کا دعویٰ ہے کہ یہ اس کی اپنی زمین ہے۔ اس وقت سیاچن تک بھارتی رسد کے پہنچنے کا واحد راستہ دولت بیگ اولڈی ہے مگر اس کے قریب ہی پہاڑیوں پر چینی فوجیں براجمان ہیں وہ جب چاہیں بھارت کی سیاچن تک رسائی کو روک سکتی ہیں۔ حالانکہ اس اسٹریٹجک علاقے سے بھارت کے لیے چینی فوجوں کا ہٹانا انتہائی ضروری ہے مگر وہ بے بس ہے۔

اس سلسلے میں اس کے فوجی کمانڈروں کی چینی کمانڈروں سے گیارہ میٹنگس ہو چکی ہیں مگر وہ تمام رائیگاں گئی ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ بھارت کے چین کے آگے بے بس ہونے کے باوجود امریکا کا بھارت سے یہ امید لگانا کہ وہ وقت آنے پر چین سے امریکا کے لیے لڑے گا یہ امریکی سوچ سراسر مضحکہ خیز ہی لگتی ہے۔ حالانکہ لداخ میں چینی فوجوں کے داخل ہونے سے بھارت کو اندرون اور بیرون ملک سخت خفت کا سامنا ہے مگر مودی کا چین سے خوف کا یہ عالم ہے کہ اس نے اب تک اپنی کسی تقریر میں چین کا نام لے کر اس کی تنقید نہیں کی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکا بھارتی فوجوں سے اچھی طرح واقف ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہیں مگر وہ اس کے باوجود بھارت کی ہمت افزائی کرنے پر مجبور ہے کیونکہ وہ بھارت کی سوا ارب کی منڈی سے فائدہ اٹھانا جاری رکھنا چاہتا ہے ادھر بھارت بھی جانتا ہے کہ امریکا اس کے ساتھ کتنا وفادار ہے مگر وہ محض کشمیر ایشو پر امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہے۔

امریکا اور کچھ یورپی ممالک ضرور کشمیر کے مسئلے پر مصلحتاً بھارت کا دم بھر رہے ہیں مگر اکثر ممالک کیا خود اقوام متحدہ کے ارباب اختیار کشمیر پر بھارتی دعوے کو غلط مانتے ہیں۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر مسٹر وولکن بوزکر نے پاکستان کا تین روزہ دورہ کیا ہے۔ انھوں نے کھل کر بھارت کی مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کی کوشش اور وہاں کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی مذمت کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ تنازعہ جموں کشمیر کا حل ضروری ہے۔ بھارت حقائق کو تبدیل نہ کرے۔

پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس دیرینہ مسئلے کو اقوام متحدہ میں مضبوطی سے پیش کرے۔ انھوں نے مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کو ایک جیسا قرار دیا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دونوں مقبوضہ علاقوں کے لوگ حق خود اختیاری کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ بوزکر کے حق و انصاف پر مبنی اس بیان پر بھارتی حکمران تلملا اٹھے ہیں۔ بوزکر عالمی ادارے کے صدر کی حیثیت سے ہر ملک کے لیے قابل احترام ہیں مگر بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بوزکر کے لیے انتہائی غیر سفارتی زبان استعمال کی ہے اور سفارتی اخلاقی تقاضے بھی فراموش کر دیے ہیں۔

ترجمان نے بوزکر کے بیان کو گمراہ کن اور ان کے رویے کو شرم ناک قرار دیا ہے۔ بوزکر کو اس شرمناک حرکت کا نوٹس لے کر اس کے خلاف تادیبی کارروائی کرنی چاہیے۔ بھارت یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے اس جارحانہ اور شرم ناک رویے کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو دبا سکتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ یہ مسئلہ گزشتہ ستر برسوں سے سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے جسے بھارت اپنی لاکھ کوششوں کے بعد بھی وہاں سے نہیں ہٹا سکا ہے۔ یہ مسئلہ دراصل بھارتی حکمرانوں کے گلے کی پھانس بن چکا ہے جسے انھیں بہرحال حل کرنا ہوگا اور کشمیریوں کو حق خود ارادی دینا ہوگا۔

ابھی تک تو بھارتی حکومت کشمیر، خالصتان، آسام اور ناگا لینڈ میں انسانی حقوق کی پامالی کے مسئلوں میں الجھی ہوئی تھی کہ اب لکشدیپ میں انسانی حقوق کی پامالی کا مسئلہ اس کے لیے نیا درد سر بن گیا ہے۔ یہ جزائر بھارت کی ریاست کیرالہ سے چار سو میل دور مغرب میں واقع ہیں۔ یہ جزائر تعداد میں تو 36 ہیں مگر صرف آٹھ جزائر آباد ہیں۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی 47 فیصد ہے۔

ان جزائر کی تاریخی حیثیت ہے۔ یہاں انسانوں کی آبادی کے آثار 15 ویں صدی قبل مسیح سے ملتے ہیں۔ ان جزائر کا ذکر بودھ مذہب کی کتابوں میں بھی موجود ہے ان جزائر پر کنور خاندان کی ایک عرصے تک حکومت قائم رہی اس کے بعد یہ ٹیپو سلطان کی عمل داری میں بھی رہے۔ پھر انگریزوں کے کنٹرول میں چلے گئے۔ انگریزوں کو برصغیر سے جاتے وقت انھیں پاکستان کے حوالے کرنا تھا کیونکہ یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے انڈمان نکھ بار جزائر پر بھارت کے قبضے کے بعد لکشدیپ جزائر کو پاکستان کا حصہ بنانے کے لیے پیش رفت کی تھی مگر چونکہ یہ جزائر پاکستان سے سیکڑوں میل دور واقع ہیں اور بھارت ان پر پہلے ہی قبضہ کر چکا تھا چنانچہ جنگ و جدل سے اجتناب کرتے ہوئے ان پر حملہ کرنے سے روک دیا تھا۔ ان جزائر پر بھارت نے قبضہ تو ضرور کرلیا تھا مگر ان کی ترقی پر کوئی توجہ نہیں دی۔ حالانکہ ان جزائر سے کچھ ہی دور مالدیپ کے جزائر واقع ہیں جہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہے۔

یہ جزائر سیاحوں کی جنت کے نام سے مشہور ہیں۔ وہاں ترقیاتی کاموں کے ذریعے عوام کو ہر قسم کی سہولت مہیا کی گئی ہے جب کہ لکشدیپ جزائر اگرچہ قدرتی حسن سے مالا مال ہیں مگر وہاں کی ترقی پر بھارتی حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔ برسوں سے یہاں لوگ مشکل زندگی بسر کر رہے ہیں اب یہاں کے مسلمانوں پر مودی نے ایک نئی آفت ڈھا دی ہے۔

کانگریس کے زور سے بھارتی صدر یہاں کے لیے ایڈمنسٹریٹر مقرر کرتے ہیں کیونکہ یہ جزائر یونین ٹریٹری میں شامل ہیں۔ کچھ عرصہ قبل یہاں کے ایڈمنسٹریٹر کے انتقال کے بعد مودی نے اپنے پالتو بدنام زمانہ غنڈے پرفل کھوڑا بھائی پٹیل کو بھارتی صدر کو دباؤ میں لے کر ان جزائر کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا ہے۔ پرفل پٹیل قاتل، جعلساز اور آر ایس ایس کا دہشت گرد ہے۔

یہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام میں پیش پیش تھا۔ اس نے یہاں آ کر آر ایس ایس کے مسلم کش ایجنڈے کو لاگو کردیا ہے۔ اس نے گائے کے گوشت پر پابندی لگا دی اور شراب سے پابندی ہٹا دی ہے۔ غنڈہ ایکٹ متعارف کرا دیا ہے جس کے تحت کسی بھی شخص کو بغیر وجہ بتائے گرفتار کیا جاسکتا ہے اور اسے ایک سال تک جیل میں رکھا جاسکتا ہے۔ دو بچوں سے زیادہ اولاد والے لوگ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔

پرفل نے اس ایجنڈے کو نافذ کرکے اس پر عمل درآمد شروع کردیا ہے۔ کئی بااثر مسلمانوں کو بغیر کسی جرم کے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ کئی گھروں کو مسمار کردیا گیا ہے اور مچھیروں کی کشتیوں اور جالوں کو تباہ کردیا گیا ہے۔

یہاں کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر پرفل کچھ عرصہ اور یہاں رہ گیا تو انھیں ان جزائر کو خیرباد کہنا ہوگا اور دراصل مودی چاہتا بھی یہی ہے کہ ان جزائر کو مسلمانوں سے خالی کرا کے انھیں امبانی، اڈانی اور دوسرے چہیتے سرمایہ کاروں کے حوالے کردیا جائے۔ مگر مودی اپنے اس مذموم منصوبے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا اس لیے کہ ریاست کیرالہ کی اسمبلی نے لکشدیپ سے پرفل کو ہٹانے کے لیے ایک متفقہ قرارداد پاس کرکے بھارتی صدر کو آگاہ کردیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں