قوت خرید بڑھنے سے انحطاط پذیری کیوں

بچت کے بجائے لوگ مقروض ہو رہے ہیں، نیم فاقہ کشی اور مفلوک الحال ہوتے جا رہے ہیں۔


Zuber Rehman June 07, 2021
[email protected]

ایک وفاقی وزیر نے اپنے بیانیے میں کہا ہے کہ ''عوام کی قوت خرید بڑھ گئی ہے۔'' اگر قوت خرید بڑھ گئی ہے تو مستقبل کے لیے عوام دو پیسے کی بچت کرتے۔ مگر نتیجہ اس کے برعکس ہے۔ بچت کے بجائے لوگ مقروض ہو رہے ہیں، نیم فاقہ کشی اور مفلوک الحال ہوتے جا رہے ہیں۔

کل جو ایک کلو سبزی خریدتے تھے یا گوشت، دودھ، چینی، تیل وہ اب ایک کلو کے بجائے ایک پاؤ خریدنے لگے ہیں۔ بلکہ آپ سودا خریدنے جائیں تو جب ٹھیلے والے یا مستقل دکاندار سے پوچھیں کہ کیا بھاؤ ہے تو وہ فوراً بتائے گا کہ بھنڈی 30روپے پاؤ، لوکی 20 روپے پاؤ، کریلا 40 روپے پاؤ، اروی 40 روپے پاؤ وغیرہ۔ وہ آپ کو کبھی بھی یہ نہیں بتائے گا کہ سبزیاں 140,20 یا 160 روپے کلو ہیں۔

اس لیے کہ اسے معلوم ہے کہ یہ خریدار ایک پاؤ لے گا۔ اس لیے کہ اس کی قوت خرید کم ہوگئی ہے۔ یہ سبزی والا ناخواندہ ہے جب کہ وزیر صاحب اپنے آپ کو پڑھا لکھا سمجھتے ہیں اور ان کا بیانیہ ہے کہ عوام کی قوت خرید بڑھ گئی ہے۔ ہاں ان معنوں میں بڑھ گئی ہے کہ 5 روپے دے کر جو سبزی ملتی تھی اب 30 یا40 روپے دینے پڑتے ہیں۔

چونکہ کرنسی نوٹ زیادہ ادا کرتے ہیں اس لیے وزیر صاحب نے سمجھ لیا ہے کہ عوام کی قوت خرید بڑھ گئی ہے۔ درحقیقت یہ افراط زر کی کرشمات ہیں۔ جب زر کی افراط ہوگی یعنی کرنسی نوٹ زیادہ چھپوانے کی ضرورت پڑے گی تو بازار میں زر کی ریل پیل ہوگی۔ دراصل رقم کی ڈی ویلیو یا قیمت کم ہونے سے زیادہ رقوم دے کر سودا لینا ہوتا ہے۔

شاید اس لیے بھی وزیر صاحب نے یہ سمجھ لیا ہے کہ عوام کی قوت خرید بڑھ گئی ہے۔ کرنسی کی قیمت میں اضافے سے کم پیسوں میں زیادہ سودا مل جاتا ہے اور یہ عمل سری لنکا، بنگلہ دیش، فلپائن، تھائی لینڈ اور بھارت میں نظر آئے گا جب کہ پاکستان میں روپے کی قدر کم ہونے سے ڈالر کا بھاؤ بڑھ جاتا ہے اور سونے کی قیمت بھی۔ اسٹاک ایکسچینج سے عوام کا کیا لینا دینا؟ مثال کے طور پر یکم جون 2021 میں اسٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی، 7 حدیں بحال اور 770 پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔

مگر آٹا 72 روپے اور دال 250 روپے کلو ہی رہی۔ اب آپ ہی بتائیں اس اسٹاک ایکسچینج سے لوگوں کو کیا فائدہ ہوا؟ جب ہم دودھ ایک کلو خریدتے تھے تب عوام کی قوت خرید زیادہ تھی یا آج جب ایک پاؤ خریدتے ہیں؟ ہاں وہ جو لاکھوں روپے کماتے ہیں یا بٹورتے ہیں ان کے لیے دودھ دو یا تین کلو خریدنا کوئی مسئلہ نہیں۔ اس لیے کہ وہ پیسوں کا حساب نہیں رکھتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قوت خرید کہتے کس کو ہیں؟ آپ برملا کہیں گے کہ خریدنے کی قوت، سکت یا صلاحیت۔ جب ایک شخص کو 12/15 ہزار روپے تنخواہ یا دھیاڑی ملتی ہے تو وہ گھر کا کرایہ دے گا، دوا دارو کرے گا۔

بچوں کے اسکول کی فیسیں دے گا، ٹرانسپورٹ کا کرایہ دے گا یا پھر باورچی خانے کے اخراجات پورے کرے گا؟ اگر تنخواہ ہی کم ہے تو پھر ہر چیز میں کٹوتی کرنی ہوگی۔ پھر اسے قوت خرید کے اضافے کی بات کرنے کے بجائے نیم فاقہ کشی اور مر مر کے جینے کی بات کرنی ہوگی۔ پھر یہ اناڑی وزرا جو ایم بی اے کیا نہیں اور صحت کے وزیر بنا دیے جاتے ہیں جو مزدور نہیں ہوتے، مزدوروں کے شعبے کے وزیر بنا دیے جاتے ہیں، جن کی تعلیمی اسناد جعلی ہوتی ہیں وہ تعلیم کے وزیر بنا دیے جاتے ہیں۔

پھر انھیں کیونکر یہ پتا ہوگا کہ قوت خرید کس کو کہتے ہیں؟ شاہ فیصل کالونی، الفلاح ہاؤسنگ سوسائٹی میں جہاں میں کرائے پر رہتا ہوں گلی میں 20 گھر ہیں۔ ہر گھر 2 سے 4 منزلہ عمارت پر مشتمل ہے۔ ہر گھر کے سامنے موٹرسائیکلیں اور کاریں موجود ہیں سوائے راقم کے۔ اب میں نے انصار بھائی سے پوچھا کہ بھائی صاحب آپ مہینے میں کتنا کما لیتے ہیں؟ کہنے لگے میاں 60/70 ہزار تو کما ہی لیتے ہوں گے۔ ان کے ہاتھ میں شاپر تھا جس میں بہ مشکل 2/3 کلو کا سودا ہوگا۔

میں نے پوچھا یہ کیا لا رہے ہیں؟ کہنے لگے میاں کیا بتائیں کل ڈبل روٹی60 روپے کی تھی آج 65 روپے کی ہوگئی، ٹماٹر 10 روپے پاؤ لایا تھا، آج 20 روپے کے ملے، انڈے، دو دن قبل 65 روپے کے آدھا درجن لیے تھے اور آج 80 روپے کے ملے۔

سب ملا کر 300 روپے کا سودا 450 روپے میں لینا پڑا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی تنخواہ تو اچھی ہے۔ کہنے لگے میاں بچوں کی فیس، گھر والوں کے مطالبات، نائی، دھوبی کے اخراجات اور پھر پانی کی خریداری کے بعد کہاں پیسے بچتے ہیں۔ میں نے کہا کہ کل ایک وزیر صاحب نے کہا کہ عوام کی قوت خرید بڑھ گئی ہے۔جواب دیتے ہوئے کہنے لگے کہ ان سے کہیں میرے ساتھ ایک روز سودا لینے نکلیں پھر پتا چلے گا دال چاول کا بھاؤ۔ یہ لوگ گھر بیٹھے جو مرضی بول دیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ لکھے پڑھے لوگ ہیں اور تجزیہ کرکے بتاتے ہیں، تو کہنے لگے کہ تجزیہ ہی کرتے رہتے ہیں۔

کبھی سودا لینے تو نکلیں۔ جو بڑے مالز اور شاپنگ سینٹرز سے آن لائن یا ملازمین کے ساتھ لمبی گاڑی میں سودا لیتے ہیں انھیں ہمارے گلی کوچوں کے حالات کا کیا پتا؟ وہ تو لاکھوں کا سودا لاتے ہیں۔ میں ان سے کہنے لگا کہ لاکھوں میں تو نہیں ہوگا۔ جواب میں بولے میاں کوئی سامان اپنے ملک کا تو ہوتا نہیں۔ صابن، مکھن، تیل، کپڑے، جوتے سب باہر کے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے لاکھ روپے تو کوئی چیز ہی نہیں۔ پھر تو وہ درست کہہ رہے ہیں کہ لوگوں کی خرید میں اضافہ ہوا ہے۔ یعنی وہ خاص نہیں بلکہ اپنے آپ کو لوگوں میں سمجھتے ہیں۔

جب پاکستان کی اکثریت غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرتی ہے، روزانہ لوگ خودکشیاں کرتے ہیں۔ صرف کراچی میں لگ بھگ 5 لاکھ گداگر ہیں اور تقریباً اتنی ہی عصمت فروشی کرنے والیاں بھی۔ بے روزگاری اور قوت خرید نہ ہونے کی وجہ سے چھینا جھپٹی، چوری چکاری اور نت نئے جرائم کی ایجادات کرتے ہیں۔ یہ سارے محنت کش اور غریب لوگ جو اخلاقی مجرم ہوتے ہیں، ان سب کی روز کی لوٹ مار میں جتنی رقم یہ بٹورتے ہیں اس سے کہیں زیادہ خاص لوگ، نوکر شاہی (وردی بے وردی) ایک گھنٹے میں قلم کی ہیراپھیری سے رشوت خوری کرتے ہیں۔

صرف چند برسوں میں نوکر شاہی، سیاستدانوں، سرمایہ داراور جاگیردار کھربوں روپے کے اخلاقی جرائم کرچکے ہیں۔ یہ کوئی الزام نہیں بلکہ پاکستان کے معتبر ادارے نے ان پر 70 ارب روپے، 60 ارب روپے،20 ارب روپے اور 10 ارب روپے کے سیکڑوں مقدمات قائم کیے۔جن کا میڈیا پر تذکرہ بھی ہوا۔ ان میں بہت سے لوگ اربوں روپے لے کر ملک سے فرار ہوگئے اور باقی ماندہ ملک کے اندر ہی آزاد پھر رہے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ بھوک سے نڈھال پتیلی چور جیل میں ہیں اور اربوں روپے لوٹنے والے رہنما ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔

ذراغور تو کریں ایک شخص کے پاس ہزاروں ایکڑ زمینیں ہیں تو دوسری جانب ساڑھے چار کروڑ بے زمین کسان ہیں۔ ایک شخص کے گھر 12 ملازمین ہیں، ہزاروں گز پر رہائش ہے تو دوسری طرف رہنے کو گھر نہیں۔ اس صورتحال میں قوت خرید کیوں کر بڑھے گی بلکہ قوت خرید ہی نہیں رہے گی تبھی تو روز بروز گداگروں اور چوروں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس کے علاوہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے کہ وہ امریکا اور یورپ سے واپسی پر لاکھوں کروڑوں کا سامان خریدکر لاتا ہے تو دوسری طرف علاج کے لیے رقم نہ ہونے کی صورت میں دم کروا کر پانی پینے پر گزارا کرتاہے۔ درحقیقت جب یہ طبقاتی نظام کا خاتمہ ہوگا، کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر پھر قوت خرید کی کمی و بیشی کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ یعنی ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوں گے۔ قوت خرید اور فروخت کا دھندا بھی ختم ہو جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں