بجٹ تو پاس ہوگا ہی
بجٹ کا پاس ہونا ہر جمہوری حکومت کے لیے ویسے تو سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔
ہماری اپوزیشن نے عہد کیا ہوا ہے کہ اس بار سالانہ بجٹ کے موقعہ پر وہ حکومت کو ٹف ٹائم دیگی اور کوشش کریگی کہ بجٹ پاس نہ ہونے پائے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین جناب بلاول بھٹو زرداری صاحب اِس سلسلہ میں بہت سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ انھوں نے اِس عزم کا اظہار کرتے ہوئے ٹف ٹائم دینے کی ساری ذمے داری مسلم لیگ نون اور اُس کے صدر جناب شہباز شریف پر ڈال دی ہے۔
اُن کے بقول مسلم لیگ نون کیونکہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی ایک بڑی پارٹی ہے اور شہباز شریف اپوزیشن لیڈر اور قائد حزب اختلاف بھی ہیں تو سارا کام اب انھیں ہی کرنا ہے۔ یہ کہتے ہوئے انھوں نے اپنی جانب سے یہ فراخدلانہ پیشکش بھی کر ڈالی ہے کہ پیپلزپارٹی کے تمام ارکان جناب شہباز شریف کی مدد کے لیے مکمل طور پر حاضر ہوںگے۔
بجٹ کا پاس ہونا ہر جمہوری حکومت کے لیے ویسے تو سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ اِس مشکل کے باوجود کبھی کوئی بجٹ پاس ہونے سے نہیں رہ گیا۔ خراب سے خراب حکومت بھی تمام فائنانس بلز بڑی آسانی سے پاس کروا لیتی ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ اپوزیشن پارلیمنٹ میں شور شرابا تو بہت کرتی ہے اور وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے دوران اپنے اِس شور سے مداخلت بھی بہت کرتی ہے لیکن فائنانس بلز کی منظوری سے پہلے ہی وہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرکے ایوان سے باہر نکل جاتی ہے اور یوں اسپیکر صاحب بجٹ منظوری کے تمام مراحل سکون و اطمینان سے مکمل کرلیتے ہیں۔
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی حکومت کا بجٹ پاس ہونے سے رہ گیا ہو۔ یا اُسے دو بار بجٹ پیش کرنا پڑا ہو۔ ہمیں پورا یقین ہے اِس بار بھی ایسا ہی ہوگا اور اپوزیشن شور شرابے کی اپنی سیاسی اور قومی ذمے داری نبھاتے ہوئے سرخرو بھی ہوجائے گی اور حکومت اپنا بجٹ بھی پاس کروا لے گی۔ اور قوم کو دو چار روز کے لیے دنگل کا سماں دیکھنے کا موقعہ ضرور ملے گا اور الیکٹرانک میڈیا کو اپنے ٹاک شوز کامیابی سے چلانے کے لیے چند روز اچھا خاصہ مواد بھی مل جائے گا۔ ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی ایسا ہی ہوگا اور کچھ بھی مختلف یا انہونہ نہیں ہوگا۔
بجٹ کے حوالے سے یہ بات بڑی اہم ہے کہ ابھی چند ماہ پہلے تک ہماری یہ حکومت GDP کے حوالے سے اپنے منفی شرح کو لے کر بہت پریشان تھی لیکن شوکت ترین کے مشیر خزانہ بنتے ہی حالات یکدم بدل گئے اور ہماری شرح نمو اچانک منفی زون سے نکل مثبت زون میں چار فیصد تک پہنچ گئی۔ اتنی بڑی چھلانگ آج تک دنیا کے کسی ملک نے نہیں لگائی۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسا کرشمہ کبھی نہیں ہوا۔ پاکستان کی اِس اچانک بدلتی معاشی صورتحال سے ملک بھر کے ماہر معاش و اقتصاد حیران و پریشان ہیں بلکہ سکتے کے عالم میں پہنچ گئے ہیں۔ انھیں اپنی آنکھوں اور اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا۔
اِن اعدا و شمار کی صحت و صداقت کا تو آنے والے دنوں میں پتا چل جائے گا لیکن جناب شوکت ترین کے حالیہ بیانوں اور ابھی دو ماہ قبل دیے گئے بیانوں کا جائزہ لیا جائے تو بھی حیرانی و پریشانی کے سوا ہمیں کچھ نہیں حاصل نہیں ہوگا، سمجھ نہیں آ رہا کہ محترم مشیر خزانہ پہلے درست کہہ رہے تھے یا اب۔ ایک نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے جناب شوکت ترین صاحب نے کچھ دنوں پہلے معاشی بدحالی کا سارا ملبہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر ڈال دیا تھا۔ لیکن اچانک یہ کیا ہوا کہ مشیر خزانہ بنتے ہی اُن کی سوچ اور سمجھ بھی یکسر بدل گئی اور وہ موجودہ معاشی بد حالی کی ذمے داری سابقہ حکومت پر ڈالنے لگے۔
معاشی اعدادوشمار کا گورکھ دھندہ ایک ایسا معمہ ہے جو عوام کو کبھی سمجھ میں نہیں آیا۔ گردشی قرضے ، GDP یا شرح نمو اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کیا ہوتا ہے اُسے اِن سے کیا دلچسپی، اُسے تو روزمرہ کی چیزوں کی آسان نرخوں پر دستیابی سے مطلب ہوتا ہے۔ قوم اتنا جانتی ہے کہ 2018 میں اُسے چینی 53روپے کلو عام دکانوں سے مل جایا کرتی تھی لیکن اب اُسے یوٹیلیٹی اسٹور سے 85روپے کلو میں بھی دستیاب نہیں ہے۔ عام دکانوں میں تو یہ اب 100روپے سے بھی زیادہ قیمت پر مل رہی ہے۔ جب کہ اُس کی آمدنی اِن تین سالوں میں چند فیصد بھی نہیں بڑھ پائی ہے۔
ضروری اجناس کی تمام اشیاء کا یہی حال ہے ، ہر چیز کی قیمت دگنی ہوچکی ہے۔ گوشت ، انڈے ،چاول ،دالیں، مصالجات، دودھ ، دہی ، سبزیاں، خوردنی تیل اور گھی سبھی تقریباً پچاس فیصد زیادہ داموں میں مل رہے ہیں۔ غریب اپنا گزارا کرے تو کیسے۔ ایسے میں کسی شخص کو یہ بتایا جائے کہ ملک کی شرح نمو چار فیصد ہوگئی ہے تو وہ یقینا اپنا سر پھوڑے گا یا پھر ہمیں ہی مارے گا۔ اُسے اِس چار فیصد شرح نمو سے کیا حاصل۔ اُس کے لیے تو دو وقت کی روٹی کا حصول بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بے شک کم ہوگیا ہے لیکن اِس کی بڑی وجہ امپورٹ میں کمی کا ہونا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ گزشتہ سال کورونا کی وجہ سے دنیا بھر کی معاشی سرگرمیاں رک سے گئی تھیں اور کوئی ملک بھی پہلے کی طرح تجارت نہیں کر پا رہا تھا۔ پیٹرول مصنوعات کا استعمال نصف سے بھی کم ہوچکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں کے یہاں تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی تھی اور وہ اُسے اونے پونے داموں میں بیچنے پر بھی راضی اور رضامند ہوگئے تھے۔
ہم اچھی طرح جانتے ہیںکہ ہمارا سب سے زیادہ خرچہ پیٹرول کی درآمد پر ہی ہوتا ہے اور جب وہی ختم ہو جائے یا کم ہو جائے تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تو یقینا کم ہونا ہی تھا۔ اور اسی طرح گردشی قرضے بھی انتہائی حدوں کو چھونے لگے کیونکہ ملیں اور کارخانے ، دفاتر اور کاروبار بند ہونے کی وجہ سے بجلی کا استعمال بھی بڑی حد تک کم ہو چکا تھا۔ مگر بجلی بنانے والوں کو ہمیں بجلی پیدا کرنے کا پیسہ تو دینا ہی تھا جو حکومت نے نہیں دیا اور یوں گردشی قرضہ بلند سطح کو چھونے لگے۔
اب اس کا الزام اپوزیشن پر ڈالا جائے کہ انھوں نے غیر منتقی سودے کیے یا پھر معاہدوں پر عمل داری نبھانے کی ذمے داری سے مکمل طور پر انکار کیا جائے۔ حکومت کو اپنا یہ دور احسن طریقے سے پورا کرنا ہے اور اگلا الیکشن بھی اگرجیتناہے تو اِن گردشی قرضوں سے بھی چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔ عوام کو ریلیف بھی دینا ہوگا اور مہنگائی کو کنٹرول بھی کرنا ہوگا۔ اپنی ناکامیوں کا الزام سابقہ حکومتوں پر ڈالنے کا حربہ اب شاید مزید نہیں چل پائے گا۔ عوام اِس مفروضے کو اب قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ کارکردگی کاغذوں سے نکل کر حقیقت میں بھی نظر آنی چاہیے۔
حکومت اطمینان رکھے اُن کا یہ بجٹ بھی سابقہ تمام بجٹوں کی طرح پارلیمنٹ سے یقینا پاس ہوجائے گا۔ اپوزیشن چاہے کتنا زور لگا لے یا کتنا ہی شور شرابا کر لے وہ بجٹ پاس ہونے سے روک نہیں سکتی۔ اپوزیشن کی تو اپنی صفوں میں دراڑیں موجود ہیں۔ وہ ابھی تک کسی معاملے میں متحد و منظم بھی نہ ہو سکی تو بھلا بجٹ پاس ہونے سے کیسے روک سکتی ہے۔
صرف بیان بازی تک وہ حکومت کے خلاف بھرپور سرگرم نظر آتی ہے لیکن عملاً وہ حکومت کو پانچ سال پورے بھی کرنے دینا چاہتی ہے۔ ایک پارٹی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے سے گریزاں ہے تو دوسری پارٹی اجتماعی استعفے دینے سے انکاری۔ خان حکومت خوش قسمت ہے کہ اُسے ایسی اپوزیشن ملی ہے اور ایسا سازگار ماحول ملا ہے جو شاید پہلے کسی اور جمہور ی حکومت کو نہیں ملا۔ مگر وہ اب بھی اگر کارکردگی نہ دکھا پائے تو افسوس کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکے گا۔