ریلوے کا ہر حادثہ سابقہ حکومت ذمے دار ہے
حکومت کےلیے انتہائی آسان ہے کہ ہر الزام سابقہ حکومت کی گردن میں ڈال دیا جائے۔ چاہے اس کو بعد میں ثابت نہ کیا جاسکے
حادثات کا تعلق نااہلی اور غیر سنجیدگی سے ہے۔ (فوٹو: فائل)
کل ایک اندوہناک حادثہ ہوا، جس میں گھوٹکی کے علاقے میں ایک ٹرین کی 6 بوگیاں ٹریک سے اتر گئیں۔ دوسری جانب سے ایک ٹرین اور آرہی تھی اور پھر تصادم کی وجہ سے 40 سے زائد افراد جاں بحق جبکہ سو سے زائد زخمی ہوگئے۔
ہمارے ملک کا سسٹم بھی عجیب ہی ہے۔ ادھر حادثہ ہوتا ہے اور میڈیا کی اسکرینیں سج جاتی ہیں۔ حادثہ کیوں اور کیسے ہوا کے ساتھ حکومت اور اپوزیشن وہ گردن تلاشتے نظر آتے ہیں جس کے گلے میں یہ طوق فٹ کیا جاسکے۔ اب تو حکومت کےلیے انتہائی آسان ہے کہ ہر الزام سابقہ حکومت کی گردن میں ڈال دیا جائے۔ بھلے اس کو بعد میں ثابت نہ کیا جاسکے، لیکن ہر الزام سابقہ حکومت کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
مجھے حیرانگی سابق ریلوے وزیر شیخ رشید کے ٹی وی پر بیان بازی سے زیادہ ان کی ڈھٹائی پر ہورہی تھی، جیسے وہ جائے حادثہ پر دیگر قومی اداروں کے پہنچنے کا کریڈٹ لینے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیے۔ شیخ رشید تو خود ریلوے کے سابق وزیر رہے ہیں۔ کوئی ان سے یہ سوال تو پوچھے کہ حضور آپ کے دور میں تو ریلوے میں آئے دن حادثے ہوتے تھے، آپ نے ان کو روکنے کےلیے کیا سنجیدہ کوششیں کی تھیں؟ آپ نے ابتدائی دنوں میں بیوروکریسی کو کسنا شروع کیا۔ کبھی کسی آفیسر کو اٹھا کر سندھ پھینکنا اور کسی کو بلوچستان پھینک دینا اور جب کسی آفیسر نے جواب دینا تو اس کو او ایس ڈی بنا دینا۔ اس کے علاوہ آپ نے کیا کیا ہے؟ ایک آفیسر جس نے آپ کو یو ٹو شٹ اپ کہہ کر منہ بند کروانے کی رسم کی داغ بیل ڈالی تھی اور آپ نے انتقام میں آ کر اس کو او ایس ڈی بنایا تھا، وہ آج کل کراچی میں ریلوے کی کروڑوں روپے مالیت کی مقبوضہ زمینیں چھڑوانے میں مصروف ہے۔ جی، جی! میں حنیف گل کا ہی ذکر کر رہا ہوں۔ یہ ایک افسر نہیں ہے جو کہ آپ کی انا اور عتاب کا شکار ہوا ہے، ایسے کئی ایک ہیں۔ اب آپ بتائیے کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟
کوئی شیخ رشید سے یہ بھی پوچھ لے کہ جناب آپ تین سال ریلوے کے بلا شرکت غیرے وزیر رہے ہیں، آپ نے کاغذوں کو یہاں وہاں کرنے کے علاوہ کیا کیا ہے؟ ابھی تک ریلوے میں ایسا سسٹم کیوں نہیں ہے جو فوری طور پر ملک بھر کی ریلوے میں ٹرین کے ڈی ٹریک ہونے پر الرٹ جاری کرسکے، تاکہ اس کے بعد جن ٹریکس پر مسئلہ ہو، وہاں محفوظ فاصلے پر آمدورفت کو روک دیا جائے۔ لیکن شیخ صاحب کی توجہ تھی کہاں؟ ان کے دور کے پہلے سال میں ریلوے کا خسارہ 32 ارب 76 کروڑ، دوسرے سال میں بڑھ کر 50 ارب 15 کروڑ اور پھر تیسرے سال 36 ارب 28 کروڑ روپے، یعنی کل میزان ایک کھرب سے زائد تھا۔ یعنی نہ صنم ملا اور نہ وصال صنم، نہ ہی ریلوے کا خسارہ کم ہوا اور نہ ہی سسٹم ٹھیک ہوا۔ اور اس اعلیٰ کارکردگی پر وزیراعظم نے شیخ رشید سے ایک وزارت لے کر ان کو دوسری اہم وزارت سونپ دی تھی۔ مطلب، کمال ہے!
گزشتہ دور حکومت میں اگر ریلوے کا حادثہ ہوتا تھا تو کم ازکم وزیر ریلوے استعفیٰ دیتا تھا، جبکہ اس دور حکومت میں اگر ریلوے میں حادثہ ہوجائے تو سابق حکومت کے وزرا ذمے دار ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیونکہ محض الزام ہی تو لگانا ہے، اس کو ثابت تھوڑی کرنا ہے۔ ابھی بھی وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کمال بے نیازی سے سعد رفیق کی گردن میں اس حادثے کو فٹ کردیا ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ فواد چوہدری اس کو مدلل ثابت نہیں کرسکیں گے لیکن انہوں نے بیان بازی کرنی تھی، وہ کردی ہے اور شاید یہی ان کی جاب بھی ہے۔
دوسرا کام جو حادثات کے فوری بعد کیا جاتا ہے کہ فوری طور پر لواحقین کو معاوضے کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ کیا ان اعلانات سے حکومت کی ذمے داری ختم ہوجاتی ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ شاید یہ ایس او پیز طے کیے بیٹھے ہیں کہ جیسے ہی حادثہ ہوجائے تو فوری طور پر اندازہ لگا کر زر تلافی کا اعلان کیا جائے اور اس کے بعد ذمے داری سابقہ حکومتوں پر ڈال دی جائے۔ ان کا کام ختم، اللہ اللہ خیر صلا۔ باقی جنگ ان کے سوشل میڈیا واریئرز لڑ لیں گے اور یہ کسی اور جانب چل دیں گے۔
وفاقی وزیر برائے ریلوے اعظم سواتی نے کہا ہے کہ ٹرین حادثے میں ہلاکتوں پر دل انتہائی رنجیدہ ہے، وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر واقعے کی خود مانیٹرنگ کروں گا، ٹرین حادثے پر نوٹس لیتے ہوئے 24 گھنٹوں میں انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ میں ان پر ابھی کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔ میں ان کی بات پر فی الوقت یقین کرلیتا ہوں کہ وہ جو کہہ رہے ہیں، وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ یہ 24 گھنٹے میں انکوائری بھی کروائیں گے، ذمہ داران کا تعین بھی کریں گے اور پھر ان کے خلاف محکمانہ اور قانونی کارروائی بھی کریں گے۔ اگرچہ جس وقت آپ یہ پڑھ رہے ہیں، اس وقت تک شاید ایسا کچھ بھی نہ ہو۔
سب سے اہم سوال یہی ہے کہ ٹرین حادثے کیسے رک سکتے ہیں؟ اس کےلیے کچھ کرنے کی نیت چاہیے۔ ریلوے بیوروکریسی کچھ کرنا چاہتی ہے، وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھی ہوئی ہے۔ اس نے اگر غلام بلور کے دور میں ریلوے کو تالا لگنے نہیں دیا تھا جبکہ سب کی بھرپور کوشش یہی تھی کہ ریلوے کو تالا لگ جائے تو وہ اب بھی ریلوے کو بچانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ خسارہ کم کرتے ہوئے خسارہ ختم کرنے اور اس کو منافع بخش ادارہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
سابقہ حکومت کے اعدادوشمار اٹھا کر دیکھیں تو کام کم از کم ہوتا ہوا نظر آتا تھا۔ معاملات بہتر ہورہے تھے، حادثے کم ہوچکے تھے، غیر سنجیدگی نہیں تھی، سسٹم بھی اپ گریڈ کیا جارہا تھا اور سب ایک ٹیم کی طرح سے کام کررہے تھے۔ پھر اس ملک پر تبدیلی مسلط کردی گئی اور اب اگر اس حکومت کا دعویٰ بھی ٹھیک مان لیں اور تمام فیکٹس اٹھا کر سائیڈ پر پھینک دیں تو بھی تین سال میں کم از کم 6336 ورکنگ گھنٹے بنتے ہیں. یہ چاہتے تو اس میں بہت کچھ ہوسکتا تھا. لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ لہٰذا حادثات کا تعلق کل سے ہرگز نہیں ہے، حادثات کا تعلق آج سے ہے۔ حادثات کا تعلق نااہلی اور غیر سنجیدگی سے ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔