عالمی سرمایہ داری بے نقاب ہو چکی
عالمی سطح پر روزگار کی بحالی 2023 سے پہلے ممکن نہیں ہے۔
پہلے تو ہر جگہ اور ہر موقع پر بورژوا (سرمایہ دارانہ) ماہر معیشت سرمایہ داری کا دفاع کرتے تھے اور مہنگائی و بے روزگاری کو وقتی رکاوٹ گردانتے تھے۔ اب وہ بھی سرمایہ داری کے تاریک مستقبل کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ حال ہی میں عالمی ادارہ محنت نے (جوکہ سرمایہ دارانہ نظام کا ہی ادارہ ہے) کہا ہے کہ عالمی سطح پر روزگار کی بحالی 2023 سے پہلے ممکن نہیں ہے۔
آئی ایل او (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) کی ملازمت کی صورتحال اور سماجی خاکے سے متعلق 2021 کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں لوگوں کے روزگار کو کورونا وائرس کی وبا سے ہونے والے نقصانات کی مناسب بحالی کم ازکم 2023 تک ممکن نہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقتصادی بحالی کے اشاروں کے باوجود روزگار میں اضافے کے تخمینے سے پتا چلتا ہے کہ 2021 میں 22 کروڑ مستقل ملازمین جب کہ 2022 میں 20 کروڑ50 لاکھ مستقل ملازمین بے روزگار ہو جائیں گے۔
تاہم یہ دونوں اعداد و شمار 2019 کی تعداد 18 کروڑ70 لاکھ سے زائد ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بے روزگاری کی شرح جلدازجلد بھی 2023 تک ہی کورونا وائرس کی وبا سے قبل کی سطح پر آسکے گی۔ خطوں کے لحاظ سے یورپ، وسطی ایشیا، لاطینی امریکا اور غرب الہند شدید متاثرہ علاقوں میں شامل ہیں۔
آئی ایل او کے ڈائریکٹر جنرل گائے رائنڈر نے کہا کہ ویکسین لگانے کے عمل میں پیش رفت اقتصادی سرگرمیوں میں تیزی لانے والا طاقتور عنصر ہے تاہم ویکسین کی تقسیم منصفانہ نہیں ہے۔ مگر ڈائریکٹر صاحب یہ بتانا بھول گئے یا بتانا نہیں چاہتے تھے کہ کورونا وائرس سے اموات اور معاشی بدحالی سب سے زیادہ دائیں بازو کی بڑی آبادی اور جمہوریت کے علم بردار ممالک امریکا، برازیل، برطانیہ اور بھارت میں ہوئی ہے۔
امریکا کے سابق صدر ٹرمپ تو وائرس سے احتیاط کرنے سے ہی گریزاں تھے اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو فنڈنگ نہ کرنے کا اعلان بھی کردیا تھا اور مودی نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ وبا ہلکی پھلکی بیماری ہے بہت جلد ختم ہو جائے گی۔ ادھر برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن تو وائرس کے وجود سے ہی انکاری ہیں (جب کہ وہ خود اس کا شکار ہوئے تھے) برازیل کے صدر نے برملا اسے نظرانداز کیا جس کے خلاف امریکا، برطانیہ، برازیل اور بھارت میں زبردست مظاہرے بھی ہوئے۔
بے روزگاری کی ایک چھوٹی سی جھلکی ہی پاکستان کے لیے کافی ہے۔ ایک وفاقی سرکاری ادارے میں بھرتی کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگاروں نے صرف 5 روز کے دوران 6 لاکھ درخواستیں جمع کروا دی ہیں۔ واضح رہے کہ اس ادارے کی 1100 آسامیوں کے لیے لاکھوں درخواستیں جمع کروائی جا چکی ہیں جب کہ درخواستیں جمع کروانے کی آخری تاریخ 14جون ہے۔ چند روز قبل اس ادارے میں مختلف اقسام میں گریڈ 1 سے 15 تک کے لیے 11 سو 40 آسامیوں کی بھرتی کا شیڈول جاری ہوا ہے۔
ابھی بجٹ کی آمد آمد ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بجٹ کا کل حجم 8000 ارب روپے ہوگا جس میں غیر ملکی قرضہ جات اور سود کی ادائیگی کا بجٹ 3080 ارب روپے اور دفاعی بجٹ 1400 ارب روپے ہوں گے یعنی قرض اور سود کی ادائیگی اور دفاع کے بجٹ کو ملا لیں تو 4480 ارب روپے بنتے ہیں۔ جو کل بجٹ 8000 ارب میں سے اگر نکال دیں تو 3520 ارب روپے بنتے ہیں باقی ماندہ عوام پر خرچ ہوں گے۔ اس میں سے بھی کمیشن، کک بیک، پرسنٹ اور رشوت کے نت نئے نسخوں کو ادا کرتے کرتے عوام تک بہ مشکل 10/5 فیصد ہی بچے گا۔
ادھر حکومت 4000 ارب روپے ٹیکس وصول کرنے کا بڑا کارنامہ انجام دینے کا اعلان کرچکی ہے۔ جب کہ ٹیکس کا 80 فیصد باالواسطہ وصول کیا جاتا ہے اور بلاواسطہ ٹیکس 20 فیصد سے بھی کم وصول ہوتا ہے۔ جاگیرداروں، بڑے سرمایہ داروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں سے دولت ٹیکس اور ان کے منافع پر ٹیکس نہیں وصولا جاتا۔ بلکہ عوام کی ہر ضرورت اور خورونوش کی اشیا پر ٹیکس عائد کردیا جاتا ہے۔
جب اشیا ضرورت کی فیکٹریوں کی پیداوار پر ٹیکس لگے گا تو فیکٹری مالکان اشیا کی قیمت بڑھا دیں گے۔ پھر ہول سیلرز بھی اس کی قیمت بڑھائے گا اور پرچون فروش بھی قیمت میں اضافہ کرے گا۔ آخر کار ان ٹیکسوں کا تمام تر بوجھ عوام کے کاندھوں پر آن پڑے گا۔ اس طرح سے حکومت کا یہ کہنا کہ عوام کے استعمال کی اشیا پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جا رہا ہے۔ جی ہاں! عوام کے استعمال کی اشیا پر ٹیکس لگانے کا اعلان نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ چیزیں جہاں سے بن کے آئی ہیں مثلاً تیل، دوا، ماچس، گھی، سیمنٹ ان سب کی پیداوار پر ٹیکس لگایا جائے گا۔ کیا یہ باالواسطہ ٹیکس کا بوجھ عوام کے کاندھوں پر نہیں پڑے گا؟