بڑھاپے کے راز افشا کرتے سائنسی کھوجی

بڑھاپا روکنے کی سعی میں مصروف ِعمل مغربی سائنس دانوں کی تحقیق کا ہوشربا احوال


بڑھاپا روکنے کی سعی میں مصروف ِعمل مغربی سائنس دانوں کی تحقیق کا ہوشربا احوال

دس سال پہلے کی بات ہے، امریکی ماہر عصبیات ڈاکٹر تھامس رینڈو نے ایک انوکھا تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا۔وہ سٹانفورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتا بھی تھا۔

بنیادی خلیے(stem cells)اور بڑھاپے کے عجوبے میں تخصص رکھتا۔بنیادی خلیے خصوصی سیلز ہیںجو جاندار میں نئے خلیے پیدا کرتے ہیں۔ڈاکٹر تھامس نے اپنی تحقیق سے یہ نظریہ وضع کیا تھا کہ ایک جاندار اِس لیے بھی بوڑھا ہوتا ہے کہ اُس کے بنیادی خلیے نئے خلیے پیدا نہیں کر پاتے۔یہ خرابی یوں جنم لیتی ہے کہ جو پروٹین سالمات (molecules)بنیادی خلیوں کو نئے خلیے بنانے کا سگنل دیتے ہیں،وہ بوڑھوں کے خون سے ختم ہو جاتے ہیں۔ تھامس اب ایک تجربہ کر کے اپنے نظریے کو آزمانا چاہتا تھا۔

لیبارٹری میں اس نے نوجوان چوہوں کا خون بوڑھے چوہوں کے جسم میں داخل کر دیا۔چند ہی دن میں بوڑھے چوہوں کے کٹے پھٹے عضلات پہلے کی طرح صحت مند ہو گئے۔گویا ڈاکٹر تھامس کا نظریہ درست ثابت ہوا۔نوجوان چوہوں کے خون میں موجود سالمات نے بوڑھے چوہوں کے بنیادی خلیوں کو اشارہ دیا کہ وہ نئے خلیے پیدا کریں۔چناں چہ نئے خلیوں نے ان کے کٹے پھٹے عضلات درست کر دئیے۔(بنیادی خلیے سب سے پہلے عضلات کے خلیے بناتے ہیں)یہ ایک حیران کن دریافت تھی جس نے ڈاکٹر تھامس کو پُرجوش بنا دیا۔



اب اگلا مرحلہ یہ تحقیق کرنا تھا کہ نوجوان چوہوں کے خون میں وہ کون سے سالمات اور مادے ہیں جنھوں نے بوڑھے چوہوں کے عضلات میں حیرت انگیز تبدیلی پیدا کی اور انھیں ایک طرح سے جوان بنا دیا۔مگر یہ تحقیق سائنس داں ہی کر سکتے تھے۔چناں چہ ڈاکٹر تھامس نے یہ ذمے داری اپنے دو شاگردوں، ٹونی ویس کورے(Tony Wyss-Coray) اور شول ویلادا (Saul Villeda)کے سپرد کر دی۔دونوں عصبی سائنس کے طالب علم تھے۔وہ اپنے کام پہ جت گئے۔کام لیکن بڑا مشکل تھا کیونکہ خون میں ہزارہا قسم کے پروٹین پائے جاتے ہیں۔کچھ شکر،کچھ لیپڈز اور باقی دیگر مادوں کے ہوتے ہیں۔لہذا ان میں سے مطلوبہ پروٹین ڈھونڈ نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔بہرحال دونوں نوجوان ماہرین چوہوں پہ مزید تحقیق وتجربات کرنے لگے۔

حیران کن نتائج

نئے تجربوں سے بھی حیران کن نتائج سامنے آئے۔مثلاً جن بوڑھے چوہوں کو نوجوان خون ملا،ان کے دماغ میں نئے نیورون(دماغی خلیے)پیدا ہو گئے۔ان میں چستی وپھرتی بھی بڑھ گئی۔وہ زیادہ متحرک ہو گئے اور جوان دکھائی دینے لگے۔جب 2011ء میں ٹونی ویس کورے اور شول ویلادا یہ نتائج سامنے لائے تو دنیا بھر کے سائنسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی۔

عام لوگوں کو علم ہوا تو کئی بوڑھے مردوزن نے ماہرین سے مطالبہ کیا کہ انھیں بھی نوجوانوں کا خون دیا جائے تاکہ وہ جوان ہو سکیں۔امریکا ویورپ میں امیر بوڑھے غریب نوجوانوں کو منہ مانگی رقم دے کر خون لینے لگے۔تبھی ٹونی ویس کورے اور شول ویلدا نے مغربی عوام کو بتایا کہ ابھی صرف چوہوں پہ تجربے ہوئے ہیں۔لہذا کچھ معلوم نہیں کہ انسانوں پر یہ تجربہ کرنے سے کیسے نتائج ملیں گے۔

اسی دوران انھیں ایک انوکھی خبر ملی۔ہوایہ کہ ہانگ کانگ کا ارب پتی، شن دن ہوا (Chen Din-hwa) بستر ِمرگ پہ تھا۔ایک طبی خلل دور کرنے کی خاطر اسے خون دیا گیا جو اتفاق سے کسی نوجوان کا تھا۔دن ہوا کا نواسہ،ونسنٹ بتاتا ہے کہ خون لینے کے بعد نانا اچانک چست و چالاک ہو گئے۔انھوں نے پھر اہل خانہ سے خوب باتیں کیں،ان کو قیمتی مشورے دئیے اور آخر چل بسے۔گویا نوجوان کے خون نے بوڑھے آدمی کو متحرک و سرگرم کر دیا جیسا کہ ضعیف چوہوں میں یہ عجوبہ دیکھنے کو ملا تھا۔دلچسپ بات یہ کہ ونسنٹ بھی ماہر سالماتی حیاتیات تھا۔

جب اسے ٹونی ویس کورے اور شول ویلادا کی تحقیق کا علم ہوا تو اس نے دونوں سے رابطہ کر لیا۔ ونسنٹ نے انھیں پیشکش دی کہ وہ ان کو ایک کمپنی کھولنے کے لیے کثیر سرمایہ دینے کو تیار ہے۔ مقصد یہ تھا کہ کمپنی میں ماہرین نوجوانوں اور بوڑھوں کے انسانی خون پر بھی وسیع پیمانے پہ تجربات کر سکیں۔ یوں 2014ء میںکمپنی ''الکہیسٹ'' (Alkahest) وجود میں آئی۔



پروٹین کی دریافت

پچھلے سات برس سے الکہیسٹ میں ٹونی ویس کورے اور شول ویلادا دیگر ماہرین کی معیت میں انسانی خون پہ تجربات کر رہے ہیں۔ممکن ہے کہ بوڑھے رضاکاروں کو نوجوانوں کا خون دیا گیا ہو۔مگر نتیجہ کیا نکلا، ماہرین اسے سامنے نہیں لائے۔البتہ وہ یہ ضرور بتا چکے کہ انھوں نے نوجوانوں کے خون میں بھی ایسے پروٹین دریافت کر لیے ہیں جو بوڑھوں میں بڑھاپے کو مضر اثرات دور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یاد رہے،جاندار کے جسم میں پروٹین ہی ہڈیاں ،جلد،عضلات اور دماغی خلیے بناتے ہیں۔انہی خصوصی سالمات سے ہارمون بھی بنتے ہیں۔انسان جب بوڑھا ہو جائے تو کئی جسمانی پروٹین اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

الکہیسٹ میں اب ماہرین انسانی خون میں بڑھاپا روک دینے کی اہلیت رکھنے والے دریافت شدہ پروٹین کی بنیاد پر ادویہ بنانے میں مصروف تحقیق ہیں۔لیکن ٹونی ویس کورے اور شول ویلادا نے دنیا بھر کے لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ بوڑھے مرد وخواتین ازخود نوجوانوں کا خون اپنے جسم میں داخل نہ کریں۔ وجہ یہ ہے کہ کوئی خبر نہیں، انفرادی طور پہ یہ عمل انجام دینے سے کیا نتیجہ نکلے گا۔ممکن ہے کہ بعض بوڑھوں میں مثبت اثرات جنم لیں اور وہ بہتری محسوس کریں۔مگر بقیہ کوئی طبی خلل جنم لینے سے وہ اللہ کو پیارے بھی ہو سکتے ہیں۔ لہذا خون کی یہ منتقلی رسک رکھتی ہے۔ ماہرین کو پہلے تحقیق و تجربات مکمل کر لینے دیں،پھر متعین نتائج سامنے آئیں گے۔

جوان رہنے کی تمنا بے تاب

نوجوان اور بوڑھے انسانوں میں خون کا تبادلہ محض ایک ایسا طریق کار ہے جس کے ذریعے سائنس بڑھاپے پہ قابو پانا چاہتی ہے۔امریکا و کینیڈا جیسے امیر ممالک ہوں یا افغانستان ومالی جیسے غریب دیس، ہر جگہ بہت سے مردوزن بڑھاپا روکنے کی خاطر کئی جتن کرتے ہیں تاکہ بدستور جوان ،حسین اور دلکش نظر آ سکیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ انسان بوڑھا ہو کر اپنی کشش کھو بیٹھتا ہے۔حالانکہ بعض لوگ بڑھاپے میں زیادہ خوبصورت ہو جاتے ہیں۔اپنی اپنی نظر کی بات ہے!بہرحال بڑھاپے کو ناپسند کرنے والے مرد وخواتین میں کوئی بالوں سے جھلکتی چاندی چھپانے کے لیے رنگ کرتا تو کوئی نت نئی کریموں سے چہرے کی جھریاں چھپاتا ہے۔

اب تو چہرے اور دیگر جسمانی اعضا کی سرجری کرانے کا بھی رواج ہو چکا تاکہ انسان جوان دکھائی دے۔ویسے بڑھاپے کی اپنی خوبیاں ہیں ۔مثلاً انسان دانشمند نہ بھی ہو تو سفید بال اسے اچھا خاصا مدبر بنا ڈالتے ہیں۔نجانے لوگ بوڑھا ہونے سے کیوں خوفزدہ رہتے ہیں!موت تو ایک نہ ایک دن آنی ہے۔آب حیات صرف حضرت خضرؑ نے نوش کر رکھا ہے۔کہتے ہیں، اسکندراعظم بھی چشمہ ِحیات تک پہنچ گیا تھا مگر لافانی بنا دینے والا یہ پانی پی نہ سکا۔



دنیائے مغرب میں اب سائنس انسان کو لافانی بنانے کے چکر میں ہے۔پچھلے چند سو برس میں سائنس وٹکنالوجی محیر العقول کارنامے انجام دے چکی۔بعید نہیں کہ وہ انسان کو عمر ِخضر عطا کر دے۔ابھی چاند پہ پہلے قدم کے مترادف امریکا میں ماہرین طب اس جستجو میں ہیں کہ انسان کو تادیر جوان رکھنے کا بندوبست کیا جائے۔ایک وجہ تو عیاں ہے کہ یوں انسان مزید برس جوانی کے مزے لے سکے گا۔دوسری اہم وجہ یہ کہ کسی کمپنی نے بوڑھے کو جوان بنانے کا عمل دریافت کر لیا تو اس کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں گی۔وہ یہ عمل بیچ کر سالانہ کروڑوں بلکہ اربوں روپے کما سکے گی۔آخر دنیا میں کروڑوں مردوں اور عورتوں کی دلی تمنا ہے کہ وہ تادیر جوان دکھائی دیں۔

''گیروسائنس''

بڑھاپے کے خلاف سائنس داں 2011ء میں سرگرم عمل ہوئے جب ٹونی ویس کورے اور شول ویلادا نے یہ دھماکہ خیز انکشاف کیا کہ نوجوانوں کے خون میں ایسی جادوئی تاثیر ہے کہ وہ بوڑھے جسم میں پہنچ کر بڑھاپے کی علامات دور کر دے۔گویا کوئی بوڑھا نوجوان خون لے تو وہ دوبارہ جوان ہو سکتاہے۔حال ہی میں ان کی قائم کردہ کمپنی، الکہیسٹ اسپین کے ادارے،گریفولس(Grifols)نے 146 ملین ڈالر کے زرکثیر سے خریدلی ہے۔

فی الوقت یہی ہسپانوی کمپنی سائنس وٹکنالوجی کے ایک نئے شعبے ''گیروسائنس'' (Geroscience) میں سب سے زیادہ سرگرم ہے۔ گیروسائنس کے ماہرین انسان اور حیوان میں خلیوں اور سالمات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ خلویاتی اور سالماتی سطح پہ جنم لینے والے ان پُراسرار قدرتی اعمال کو سمجھا جا سکے جن سے بڑھاپا جنم لیتا ہے۔نیز بہت سے امراض مثلاً الزائمر اور پارکنسن انسان کو چمٹ جاتے ہیں۔پہلا مرض بھلکڑ پن اور دوسرا ہاتھ پیروں میں رعشہ پیدا کرتا ہے۔



پچھلے چھ برس میں الکہیسٹ کے ماہرین نے بذریعہ تحقیق و تجربات نوجوان انسانوں کے خون میں ایسے ''آٹھ ہزار''پروٹین دریافت کیے ہیں جو بڑھاپا روکنے میں کام آ سکتے ہیں۔ پروٹینی مادوں پہ مزید تحقیق جاری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے،بڑھاپے سے وابستہ ہر بیماری کا علاج ڈھونڈنے کے بجائے ہماری سعی ہے کہ انسان میں بڑھاپا روک دیا جائے۔جب انسان بوڑھا نہیں ہو گا تو اسے بڑھاپے سے منسلک بیماریاں بھی نہیں چمٹیں گی مثلاً ہڈیاں کمزور ہونا،جوڑوں میں درد،چلنے پھرنے میں تکلیف،یادداشت میں کمی وغیرہ۔گویا ماہرین گیروسائنس کی منزل مقصود یہ ہے کہ وہ بڑھاپا منجمند کر دینے والا کوئی عمل دریافت کر لیں۔یوں انسان خودبخود بڑھاپے سے متعلق عوارض اور خرابیوں کا نشانہ بننے سے بچ جائے گا۔

بڑھاپے کی آمد

ماہرین طب نے صدیوں قبل یہ جان لیا تھا کہ بڑھاپا آتے ہی انسان کئی امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔نئی بات یہ ہے کہ اب ماہرین گیروسائنس کو یقین ہے،تحقیق وتجربوں سے آنے والے برسوں میں وہ انسان میں بڑھاپا منجمند کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ڈاکٹر فلپی سیریا امریکی سرکاری ادارے،نیشنل انسٹی ٹیوٹ آن ایجنگ کی ذیلی تنظیم ، ڈویژن آف ایجنگ کے ڈائرکٹر ہیں۔

کہتے ہیں:''ڈاکٹروں کی اکثریت اب بھی سمجھتی ہے کہ بڑھاپے کا کوئی علاج نہیں۔طب کی کتب بھی یہی دعوی کرتی ہیں۔چناں چہ یہ بات سّکہ رائج الوقت بن چکی۔لہذا بڑھاپا امراض قلب کو جنم دینے والا سب سے اہم عنصر ہے...لیکن ڈاکٹر کہتے ہیں کہ کولسیٹرول اور موٹاپے سے دل کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔الزائمر مرض بوڑھوں کو ہی چمٹتا ہے مگر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ دماغ میں مخصوص پروٹین جم جانے سے جنم لیتا ہے۔اب آہستہ آہستہ یہ ذہنیت بدل رہی ہے۔''

گریفولس اور دیگر امریکی ویورپی کمپنیوں میں ماہرین گیروسائنس بذریعہ تحقیق یہ جاننے کی کھوج میں ہیں کہ آخر انسانی جسم میں بڑھاپا کیونکر جنم لیتا اور رفتہ رفتہ کیسے بڑھتا چلا جاتا ہے؟ان کمپنیوں کو سرمایہ کاروں کی طرف سے کروڑوں ڈالر مل چکے تاکہ وہ اپنا کام بخوبی انجام دیں۔کمپنیوں سے منسلک ماہرین پُراعتماد ہیں کہ آنے والے برسوں میں وہ بڑھاپا روکنے کی جسمانی چابی تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔شعبہ گیرو سائنس سے وابستہ ماہرین بڑھاپا منجمند کرنے کی خاطر مختلف طریقوں پر تحقیق وتجربے کر رہے ہیں۔

بعض ماہرین مردہ خلیے اور دیگر استحالی (میٹابولک )ٰفضلہ صاف کرنے والی ادویہ بنا رہے ہیں۔انسان کی زندگی کے دوران جنم لینے والے مردہ خلیے اور دیگر نامیاتی کوڑا کرکٹ اگر جسم میں جمع ہو جائے تو وہ مختلف خرابیاں پیدا کرتا ہے۔دیگر ماہرین کا ٹارگٹ وہ ہارمون اور سالمے وغیرہ ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ماہرین ادویہ بنا کر ان ہارمونوں اور سالمات کو دوبارہ متحرک وسرگرم کرنا چاہتے ہیں تاکہ بڑھاپے کا عمل تھم سکے۔بنیادی خلیے بھی زیر تحقیق ہیں جو جانداروں میں نئے خلیے پیدا کرتے ہیں۔امریکا میں کچھ عرصہ قبل حکومت نے گیروسائنس کی کمپنیوں کو 100ملین ڈالر کی خطیر رقم دی ہے تاکہ وہ خلویاتی تحقیق کا دائرکار وسیع کر سکیں۔



عمرانی و معاشرتی سوال

درج بالا بیشتر کمپنیوں میں ماہرین کی تحقیق ابتدائی مراحل میں ہے۔مگر بعض بڑھاپا روک ادویہ اور طریق ہائے علاج اگلے چند برسوں میں دستیاب ہو سکتے ہیں۔اس اثنا میں گیروسائنس سے منسلک کچھ دانشور اہم عمرانی و معاشرتی سوال سامنے لا رہے ہیں۔مثلاً یہ کہ کیا غریب نوجوانوں کو پیسے کا لالچ دیا جائے گا تاکہ وہ بوڑھے ارب پتیوں کو خون دے سکیں؟اور یہ کہ ''فیس لفٹس''،''ہئیر پلگس'' اور بوٹوکس انجکشنوں کی طرح بڑھاپا روک ادویہ کھانا اور علاج کرانا طبقہ امرا کا فیشن بن جائے گا؟معنی یہ کہ امیر تو رقم خرچ کر کے پھر جوان بن جائیں گے، نچلے اور متوسط طبقوں کے لوگ انھیں حسرت و یاس سے تکتے دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔

بوڑھا ہونے کا عمل انسان کے لیے خوشگوار تجربہ نہیں ہوتا کیونکہ اس دوران وہ کئی بیماریوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔پچھلے ڈیرھ دو سو برس میں طبی سائنس کی بے پناہ ترقی سے انسانی عمر میں اضافہ ہو چکا۔مگر وہ اب بھی انسان کو بڑھاپے کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رکھ سکی۔

اس امر کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ماہرین طب ابھی تک نہیں جان سکے،بڑھاپے کا نظام کیسے جنم لیتا ہے۔تاہم اسے سمجھنے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔انسان جب بوڑھا ہونے لگے تو سب سے پہلے اس کا مامون نظام (immune system)ہی کمزور پڑتا ہے کیونکہ وہی اسے امراض سے بچاتا ہے۔تب جسم میں مستقل سوزش رہنے لگتی ہے۔یہی سوزش جوڑوں اور دیگر اعضائے جسم میں درد واینٹھن پیدا کرتی ہے۔کوئی بھی دوا یہ سوزش ختم نہیں کر پاتی۔گویا طبی سائنس کی ترقی سے انسان کی عمر تو بڑھ گئی مگر آج بھی وہ بڑھاپا تکلیف دہ حالت ہی میں گزارتا ہے۔جدید ادویہ بھی اسے بڑھاپے کے مصائب سے نجات نہیں دلوا پاتیں۔

جسمانی و دماغی شکست ریخت

انسانی خلیوں میں مائٹوچونڈریا(mitochondria)نامی علاقے میں غذا کو توانائی میں بدلا جاتا ہے۔مامون نظام کمزور ہونے سے یہ علاقہ بھی متاثر ہوتا ہے۔اب خلیوں کے مائٹوچونڈریا کم غذا کو ہی توانائی میں بدل پاتے ہیں۔یہی وجہ ہے، موزوں توانائی نہ ملنے سے بوڑھوں پہ عموماً غنودگی طاری رہتی ہے اور وہ سست ہو جاتے ہیں۔جب دماغ کو مطلوبہ توانائی نہ ملے تو وہ بھی چست و چالاک نہیں رہتا۔اسی باعث بوڑھے کسی بات کا جلد ادراک کرنے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔انھیں تفصیل سے بات سمجھانا پڑتی ہے۔



نیز ان کی یادداشت بھی متاثر ہوتی ہے۔ مامون نظام اور مائٹوچونڈریا کی خرابی کے بعد انسانی بنیادی خلیوں کی باری آتی ہے۔انسان میں یہ خلیے عضلات بھی بناتے ہیں۔بڑھاپے کی آمد سے یہ خصوصی خلیے بھی بتدریج اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے،رفتہ رفتہ بوڑھوں کے عضلات سکڑ جاتے ہیں۔وہ پہلے کی نسبت چھوٹے دکھائی دیتے ہیں۔ہڈیاں بھی کمزور ہو جاتی ہیں۔گویا جب انسان پہ بڑھاپا مکمل طور پر چھا جائے تو اس کی جسمانی و دماغی شکست ریخت ہونے لگتی ہے۔

نئے انقلاب کی طرح

بڑھاپے کا نہایت پیچیدہ اور پُراسرار عمل سمجھنے کی خاطر بیسویں صدی میں ماہرین سرگرم عمل ہوئے۔انیس سو اسّی کے عشرے میں جڑواں بچوں پر تحقیق سے یہ انکشاف سامنے آیا کہ انسانوں میں طوالت ِعمر یا جلد موت آنے کا ''30فیصد''تعلق ہمارے جین(gene)سے بھی ہے۔مگر بیشتر سائنس داں سمجھتے تھے کہ بڑھاپا کا عمل بہت گنجلک ہے۔لہذا چند جین میں ردوبدل کرنے یا کوئی دوا لینے سے اس میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آ سکتی۔

1994ء میں مگر امریکی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ،سان فرانسسکو سے منسلک ایک حیاتیات دان،سنتھیا کینیون(Cynthia Kenyon) نے ماہرین طب کا درج بالا نظریہ غلط کر دکھایا اور ایک نئے انقلاب کی طرح ڈال دی۔سنتھیا نے ایک کیچوے کے صرف ایک جین میں ردوبدل کر کے اس کی طبعی عمر تین ہفتے سے بڑھا کر چھ ہفتے کر دی۔یوں ثابت ہو گیا کہ محض ایک جین میں تبدیلی کر کے بھی جانداوں کی عمر بڑھانا ممکن ہے۔اس تجربے سے یہ سچائی بھی نمایاں ہوئی کہ جاندار میں بڑھاپے کا عمل روکا جا سکتا ہے۔

کم حراروں والی غذا

اسی زمانے میں لاس اینجلس کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے ماہر گیروسائنس،رائے ولفورڈ نے بھی ایک انوکھا تجربہ کیا۔وہ لیبارٹر ی میں چوہوں کے ایک گروہ کو طویل عرصہ کم حراروں والی غذا دیتا رہا۔اس تجربے کا حیران کن نتیجہ یہ نکلا کہ ان چوہوں کی عمر میں اچھا خاصا اضافہ ہو گیا۔گویا تجربے نے افشا کیا کہ اگر جاندار کم غذا کھائے تو اس کی عمر بڑھ جاتی ہے۔چناں چہ رائے ونفورڈ نے یہ مہم شروع کر دی کہ انسانوں کو بھی کم خوراک کھانا چاہیے تاکہ وہ زیادہ عرصے زندہ رہ سکیں۔

رائے خود بھی روزانہ صرف 1600حراروں والی غذا کھانے لگا۔(عام انسان کی غذا دو ڈھائی ہزار حراروں پہ مشتمل ہوتی ہے۔)اس نے اپنی بقیہ عمر کے تیس سال یہی معمول اپنائے رکھا۔کم کھانے کی مہم مقبول بنانے کے لیے اس نے کتابیں لکھیں جو امریکا میں بیسٹ سیلر قرار پائیں۔آج بھی رائے کے پیروکار مغربی ممالک میں مل جاتے ہیں جو ناپ تول کر کھانا کھاتے اور اپنی روزانہ غذا سولہ سو حراروں سے بڑھنے نہیں دیتے۔

انسولین اور اس کا ساتھی

یہ حقیقت ہے کہ غذائیت بخش مگر کم غذا کھانے سے انسانی عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔اس عجوبے کا تعلق ہمارے جسم کے دو ہارمونوں سے ہے۔انسان میں انسولین ہارمون خلیوں کو یہ سگنل دیتا ہے کہ گلوکوز(غذا سے حاصل شدہ شکر) سے توانائی بنانے کا وقت آ پہنچا۔ مزید براں انسولین اپنے قریبی ساتھی،آئی ایل جی ایف1 (Insulin like-Growth Factor 1 ) ہارمون کے ساتھ مل کر کئی خلویاتی اعمال انجام دیتا ہے۔ مثال کے طور پہ یہ کہ خلیوں کی تقسیم کس حد تک ہونی ہے۔

(یعنی خلیے اپنے کتنے بچے پیدا کریں گے) یہ عمل بڑھاپے سے براہ راست تعلق رکھتا ہے۔ انسان یا حیوان جب بھوکے ہوں تو انسولین اور اس کے ساتھی کی مقدار جسم میں خاصی گھٹ جاتی ہے۔وہ پھر اپنے عمل انجام نہیں دے پاتے۔(دور جدید میں جینیاتی طریقوں سے بھی دونوں ہارمونوں کو ناکارہ بنانا ممکن ہو چکا۔)تب انسانی جسم میں خلیوں کی مرمت و درستی کرنے والے ایسے قدرتی نظام فعال ہو جاتے ہیں جو ابھی تک غیر فعال(اسٹینڈ بائی)حالت میں تھے۔انسان میں ادلہ بدلی کے اس نظام نے لاکھوں برس کے ارتقا کی بدولت جنم لیا۔

کم اور زیادہ خوراک

قدیم زمانے میں انسان خوراک کے منضبط نظام سے محروم تھا۔اسی باعث اسے غذا پانے کے لیے کافی تگ ودو کرنا پڑتی۔جب کبھی بارشیں ہوتیں تو انسانوں کو باافراط غذا مل جاتی۔شکار کے لیے زیادہ جانور دستیاب ہوتے۔درختوں پہ پھل بھی زیادہ لگتے۔مگر قحط پڑتا تو خوراک نایاب ہو جاتی۔چونکہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ باآسانی میسّر غذاکب تک ملے گی، اسی لیے انسانی جسم نے ارتقائی مراحل سے گزر کر چربی کا ذخیرہ اور عضلات جلد از جلد بڑھانے کی صلاحیت حاصل کر لی۔

گویا بافراط خوراک کے زمانے میں انسان غپاغپ کھانا کھاتا تو اس کا جسم انسولین اور آئی ایل جی ایف1 خارج کرنے لگتا۔ان دونوں ہارمونوں کا اشارہ ملنے پر خلیے گلوکوز جذب کر لیتے۔کچھ گلوکوز توانائی پیدا کرنے میں کام آتا۔بقیہ چربی کی صورت اختیار کر لیتا۔غذا میں شامل پروٹینی مادے سے عضلات بنتے۔خلیوں کی تقسیم کا عمل بھی شروع ہو جاتا۔غرض جب تک جسم میں دونوں ہارمونوں کی سطح بلند رہتی،یہ سارے عمل انجام پاتے رہتے۔

قدیم انسانوں کو مگر جب غذا کم میسر آتی تو ہمارا بدن انسولین اور آئی ایل جی ایف1کی مقدار بھی کم خارج کرنے لگتا۔دونوں ہارمونوں کی کم ہوتی مقدار خلیوں کے لیے سگنل ہوتی کہ وہ اپنی تقسیم (نئے خلیوں کی پیدائش)کا عمل روک دیں ۔اس کے بجائے توانائی کا رخ ایسے اعمال کی سمت موڑ دیں جو انسان کو بھوک،سردی اور دیگر مصائب سے بچاتے ہیں۔انسان کو جب کم خوراک ملتی اور وہ بھوکا رہنے لگتا تو انسانی جسم بقیہ خلیوں کی حفاظت کے لیے حرکت میں آ جاتا۔ وہ زیادہ خامرے (انزائم) بناتا ہے تاکہ خلیوں کے پروٹین زندہ و محفوظ رہیں۔

اب پوری جسمانی مشینری خلیوں کے خراب ڈی این اے کی مرمت کرتی ہے۔جو خلیے ناکارہ ہو جائیں ، انھیں جسم ٹکرے ٹکرے کر ڈالتا ہے۔بیکار خلیوں کے کچھ حصے صحت مند خلیوں کی غذا بن جاتے ہیں۔اس سارے عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہمارے جسم میں وقت کے ساتھ ساتھ جو خلویاتی فضلہ جمع ہو،وہ نکل جاتا ہے۔یہ کوڑا نہ نکلے تو انسانی جسم میں سوزش پیدا کرتا ہے،خصوصاً جب انسان بوڑھا ہو جائے۔انسان میں جب مختلف وجوہ کہ بنا پر انسولین اور آئی ایل جی ایف1کا قدرتی نظام خراب ہو جائے تبھی ذیابیطس کی بیماری چمٹتی ہے۔یہ انسان پہ بڑھاپا طاری کرنے کا عمل تیز کر دیتی ہے کیونکہ ذیابیطس کا براہ راست اس سے تعلق ہے۔یہی وجہ ہے،بعض ماہرین گیرو سائنس ایسی ادویہ بنانا چاہتے ہیں جو ذیابیطس کی روک تھام کر سکیں۔یوں بھی انسان میں بڑھاپے کا عمل سست رفتار کرنا ممکن ہو گا۔

بیماریوں کی ماں

ماہرین گیروسائنس کی اکثریت کا فوکس مگر خود بڑھاپا ہے۔وجہ یہی کہ ان کے نزدیک یہ سبھی بیماریوں کی ماں ہے۔لہذا ماہرین بڑھاپا منجمند کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو انسان تمام بیماریوں سے بچ سکے گا۔فی الحال امریکا کے محکمہ صحت(ایف ڈی اے)نے ایسی کوئی دوا منظور نہیں کی جو بڑھاپا روک سکے تاہم کئی کمپنیوں کے ماہرین انھیں ایجاد کرنے کی کوششیں ضرور کر رہے ہیں۔

مثال کے طور پہ ماہرین گیروسائنس کو انسانی جسم میں ایسے جین کی کھوج ہے جو عمر میں اضافہ کرتے ہیں۔مقصد یہ کہ ان میں تبدیلی لا کر انسانی عمر میں اضافہ کیا جا سکے۔لیبارٹریوں میں ہوئے تجربات میں پھل مکھیوں (fruit flies)اور کیچووں کے اجسام میں ایسے جین دریافت ہو چکے ۔جب ان جین میں مطلوبہ تبدیلیاں کر دی گئیں تو پھل مکھیوں اور کیچووں کی عمر دگنا بڑھ گئی۔

ماہرین گیرو سائنس نے کچھ عرصہ قبل انسانی جسم میں بھی ''ایم تور'' (mTOR) نامی ایک جین تلاش کیا ہے۔ خیال ہے کہ یہ جین انسانی عمر بڑھانے میں کردار ادا کرتا ہے۔چناں چہ ماہرین''رپامائسین'' (rapamycin)نامی دوا تیار کر رہے ہیں جو اس جین کو ٹارگٹ کر سکے۔مطلب یہ کہ دوا جین میں مطلوبہ تبدیلی لا کر اسے اس قابل بنا دے گی کہ وہ انسانی عمر میں اضافہ کر دے۔

خامرے کی دریافت

ایک اور طریق کار میں ماہرین انسانی جسم میں پائے جانے والے مختلف ہارمونوں،سالمات،خامروں (enzymes) اور پروٹین پہ تحقیق و تجربے کر رہے ہیں۔یہ سبھی قدرتی مادے متفرق اہم جسمانی افعال انجام دیتے ہیں:نئے خلیے بنانا،خراب خلیوں کی مرمت،خلیوں کی حفاظت کرنا،ان کی کارکردگی بہترین بنانا وغیرہ۔مگر جوں جوں انسان بوڑھا ہو، جسم میں ان ہارمونوں ،سالمات اور پروٹین کی مقدار گھٹ جاتی ہے۔یہ تبدیلی بھی بڑھاپے کی رفتار تیزتر کرتی ہے۔ ماہرین گیروسائنس نے ایک خامرے ''AMP-Kinase'' کا پتا چلایا ہے۔

جب انسان کو باافراط غذا میسّر ہو تو یہ خامرہ خلیوں کی افزائش کرنے اور انھیں تندرست رکھنے میں اہم کردار نبھاتا ہے۔لہذا ماہرین ایسی دوا بنانے کی کوشش میں ہیں جو انسانی جسم میں پہنچ کر اس خامرے کی مقدا ر بڑھا دے۔یوں خلیوں کی زیادہ افزائش ہونے اور صحت مندی بڑھنے سے بڑھاپا روکنے میں مدد ملے گی۔

ہائلورونک تیزاب

ڈاکٹر ویرا گوربوا نیویارک کی یونیورسٹی آف روچسیٹر کے ادارے،روچیسٹر ایجنگ ریسرچ سینٹر کی سربراہ ہیں۔پچھلے سال انھوں نے کترنے والے جانوروں(rodent)کی مختلف اقسام پہ یہ تجربہ کیا کہ کون سی قسم طویل ترین عمر پاتی ہے اور کیوں؟ان میں اودبلاؤ،چھچھوندر،گلہری ،ہیمسٹر اور چوہے کی اقسام شامل تھیں۔ تحقیق سے پتا چلا کہ مشرقی افریقا کا برہنہ چھچھوندر (naked mole rat) سب سے لمبا عرصہ جیتا ہے یعنی تیس سال۔ وجہ یہ کہ اس کی جلد میں ہائلورونک تیزاب (hyaluronic acid) بہت زیادہ ملتا ہے۔

یہ تیزاب خلیوں کا خراب ڈی این اے درست کرنے میں کام آتا ہے۔اسی کی بہتات نے برہنہ چھچھوندر کو طویل عمر عطا کر دی۔انسان کی جلد میں بھی ہائلورونک تیزاب ملتا ہے مگر کم مقدار میں۔ماہرین کے مطابق یہ تیزاب جسم سے ناکارہ خلیے باہر نکالنے میں مدد دیتا اور سوزش ختم کرتا ہے۔گویا یہ جاندار کی تندرستی کا اہم ضامن ہے۔اب ماہرین ہائلورونک تیزاب پہ مبنی دوا تیار کرنا چاہتے ہیںتاکہ انسانی جلد میں اس کی مقدار بڑھائی جا سکے۔یوں بڑھاپا روکنے میں مدد ملے گی۔

آخر میں ماہرین کا یہ انتباہ پھر پیش ہے کہ گھر بیٹھے بڑھاپا ختم کرنے کے طریقے اختیار نہ کریں اور نہ ہی غیر معروف طبی کمپنیوں کی تیار کردہ ادویہ لیں کیونکہ وہ نقصان پہنچا سکتی ہیں۔بڑھاپے پہ قابو پانے کی خاطر فی الوقت آزمودہ نسخے اپنائیے یعنی باقاعدگی سے ورزش کیجیے،اچھی غذا کھائیے اور پوری نیند لیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں