قصہ ایک سفر کا
ریلوے کے معزز وزیر! آپ سے التماس ہے کہ خدارا جو وعدے آپ نے کیے ہیں لوگ آپ کی حمایت میں لکھتے ہیں۔۔۔
SADIQABAD:
پچھلے دنوں ملتان جانے کا ارادہ کیا، گھر والوں کا خیال تھا کہ بس میں سفرکیاجائے، سفر آرام دہ رہے گا مگر ہمارا خیال تھا کہ خواجہ سعد رفیق کے آنے سے ریلوے کا بگڑا ہوا نظام درست ٹریک پر آچکا ہے پھر یہ بھی سنا تھا کہ کرائے کم ہوگئے ہیں، ٹرینیں وقت پر آرہی ہیں اور جارہی ہیں۔کچھ درست ہوا ہو یا نہیں مگر ریلوے درست ہوگئی ہے۔ یہ ساری باتیں سوچ کر ہم نے باقی گھر والوں کو بھی اپنا ہم نوا بنالیا۔ ویسے بھی ٹرین کا سفر اپنے اندر بڑی رومانیت رکھتا ہے۔ ٹرین کی چھک چھک سے وہ موسیقیت جنم لیتی ہے جو صرف ٹرین میں بیٹھنے والا ہی محسوس کرسکتا ہے، ہر اسٹیشن پر اترنے، چڑھنے کا منظر، اسٹیشن کی عمارت، لوگ، زبان ایک الگ کہانی سناتے نظر آتے ہیں،کسی اسٹیشن پر لوگوں کی بھیڑ بھاڑ عمارت کی کشادگی، مختلف اسٹالوں پر رش طبیعت میں جوش وخروش پیدا کرتا ہے تو کسی اسٹیشن پر ایک یا دو افراد۔ دھول مٹی دیکھ کر اداسی دامن پکڑ لیتی ہے اسی طرح ٹرین کے ذریعے سفر میں مختلف سوغاتیں انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہیں، حیدرآباد کی چوڑیاں ہوں یا روہڑی کی چائے کہ جس کے لیے انسان رات بارہ بجے بھی مجبور ہوجاتا ہے کہ اترے اور چائے پی لے، خان پور کے پیڑے ہوں یا بہاولپور کی اڑتی گرد سب میں الگ مزا ہے ایک ایسی الف لیلیٰ ہے جس کے رنگ ہر منٹ کے بعد بدلتے ہیں۔
تو جناب یہی ساری باتیں سوچ کر ہم نے بہائو الدین زکریا ایکسپریس سے ملتان کی بکنگ کروالی، پہلا دھچکا تو ہمیں یہ پہنچا کہ ٹکٹ 800کے بجائے 900کے آئے یعنی کرایہ میں کمی نہیں اضافہ ہوا، ٹرین کا رائٹ ٹائم 5:30 تھا ہم گھر والوں کو مجبور کرکے 4:30 پر ہی سٹی اسٹیشن پہنچ گئے، حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ پانچ بجے ٹرین پٹری پر لگ گئی، ہم نے سامان وغیرہ رکھا، اپنی برتھ وغیرہ دیکھ کر بیٹھنے کا انتظام کیا اور 5:30 پر سیٹی کی آواز نے ہمیں حیران و پریشان کردیا۔ یا الٰہی یہ ہمارے ملک کی ہی ٹرین ہے ناں؟ اپنے بھانجے سے کہا جو کہ ہمارے ہمراہ شریک سفر تھے کہ ذرا ہمارے چٹکی کاٹے کہیں ہم بے ہوش ہی نہ ہوجائیں۔ اس نے بھی جانے کون سا بدلہ لیا کہ ہماری فرمائش پر لبیک کہتے ہوئے ایسی چٹکی کاٹی جیسے طالبان کسی کا گلا کاٹتے ہیں مگر خوشی کی اس کیفیت میں ہم نے برداشت کرلیا، لیجیے جناب خراماں خراماں ٹرین چلی کینٹ آیا، ڈرگ روڈ گزرا، لانڈھی کی باری آئی، جمعہ گوٹھ گزرا۔ ہم نے محسوس کیا کہ ٹرین کچھ زیادہ ہی خراماں خراماں چل رہی ہے۔
ہمارے بھانجے اسامہ بولے کہ میں تو سوچ رہا ہوں اس ٹرین سے ریس لگا لوں تو میں جیت جائوںگا، مگر ہم نے ڈانٹ کر خاموش کردیا کہ حق کی آواز کو ایسے ہی دبایا جا سکتا ہے کوئی کہہ رہا تھا کہ ٹرین کی CNGختم ہورہی ہے، کسی کا ارشاد تھا کہ دیکھو! پٹرول تو پورا بھروا لیا ہے یا نہیں، کسی دل جلے کا کہنا تھا سردی سے کانپ رہی ہے، کوئی دور کی کوڑی لایا، ٹرین کا من خراب ہے، دل نہیں چاہ رہا جانے کو، غرض یہ سب سنتے ہوئے رن پٹھانی پر گاڑی احتجاجاً رک گئی اور منہ موڑ کر کہنے لگی تمہیں اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں۔ پتہ چلا کہ انجن خراب ہوگیا تھا، مگر ریلوے والوں نے اﷲ کے بھروسے پر بھیج دیا تھا اب کوشش کررہے ہیں مگر موت آئی نہ نیند آئی یعنی انجن نے صفا چٹ انکار کردیا کہ ہم نے نہیں جانا کرلو جو کرنا ہے۔ اس تمام عرصے میں مسافر خوف و ہراس کی کیفیت میں مبتلا ہوگئے۔ دور دور تک جنگل کا سناٹا، رات کا وقت، آدم نہ آدم زاد۔ اسی لیے ڈر کے مارے تمام کھڑکیاں دروازے بند کردیے گئے کہ کہیں ڈاکو نہ آجائیں کہ بلی کے بھانگوں چھینکا ٹوٹا۔ آخر کراچی فون کیا گیا اور وہاں سے انجن منگوایا اور اللہ اللہ کرکے 5 گھنٹے کے بعد ٹرین نے چلنے کی حامی بھری۔ رات ایک بجے حیدرآباد پہنچے، روہڑی پہنچتے پہنچتے صبح ہوگئی، ملتان صبح پہنچنا تھا مگر دن کے 3بجے کے قریب پہنچے، اس طرح ریلوے کے بہترین نظام نے ہمیں اور ہمارے ساتھ سفر کرکے سیکڑوں مسافروں اور ان میزبانوں کو بھی خجل خوار کردیا جو کہ اسٹیشن پر موجود تھے، اس دوران ہم اتنے بیزار ہوچکے تھے کہ بات کرنے کو بھی من نہیں کر رہا تھا۔ خیر یہ داستان تو جانے کی ہے۔
اب آنے کی کہانی سنیے! واپسی میں پھر اہل خانہ کا ارادہ ہوا کہ بہت ہوگیا بس سے چلتے ہیں مگر ہم پھر آڑے آئے اور کہا ایسا نہیں ہے اب بھی ٹرین سے ہی چلتے ہیں۔ کیوںکہ ضروری نہیں جیسا کچھ آتے ہوئے ہوا تھا وہ ہی واپسی میں بھی پیش آئے۔ ٹرین سے ہی چلتے ہیں۔ (اصل میں ہم نے بہت سے کالم پڑھ رکھے تھے جو کہ ریلوے اور وزیر ریلوے کی تعریفوں سے مزین تھے) 26 دسمبر کو ہم ملتان، خانیوال روڈ سے چلے، زیارتوں پر ہوتے ہوئے ساڑھے تین بجے اسٹیشن پہنچے، جاتے ہی قلی نے آ دبوچا اس کو دلاسہ دیا کہ ابھی ٹھہرو پہلے ٹکٹ تو لے لیں۔ انکوائری سے پوچھا تو جناب اخلاق کے اعلیٰ درجوں پر تھے اسی لیے کوئی جواب نہیں دیا۔ ہم نے اپنا مدعا پھر دہرایا تو ان کی نیند میں خلل پڑنے سے وہ ڈسٹرب ہوئے۔ اس نے نہایت فصیح و بلیغ بے ہودہ زبان میں ہماری مدح سرائی کی ۔ یہ بھی خیال نہیں کیا کہ خواتین کا احترام کیاجاتاہے۔ خواجہ سعد رفیق صاحب! ذرا توجہ اس طرف بھی کہ ملتان اسٹیشن پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ٹکٹ گھر پہنچے تو انھوں نے اعلان کردیا کہ ٹکٹ ختم ہوچکے ہیں مگر ہمیں اپنا سمجھتے ہوئے خاموشی سے راز کھولا کہ گارڈ کے پاس جائو بلیک میں ٹکٹ مل جائیںگے۔
ہم گارڈ صاحب کے پاس پہنچے تو انھوں نے کمال ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 800کا ٹکٹ 1200 میں عنایت کیا۔ کھلے عام یہ سب کچھ ہو رہا ہے ٹکٹ گھر سے اعلان کردیا جاتا ہے کہ ٹکٹ ختم ہوگئے ہیں مگر ٹی ٹی، گارڈ، قلی ایک دوسرے کی ملی بھگت سے مسافروں کو لوٹ رہے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ بے چارے مسافر سرد موسم پر اسٹیشن پر ان لوگوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اس لیے جائے رفتن نہ پائے رفتن۔ ان کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ سیٹیں خالی ہوتی ہیں یہ لوگ ظاہر یہ کرتے ہیں کہ ٹکٹ ختم ہوگئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سیٹ نہیں ہے تو زیادہ رقم دے کر کس طرح سیٹ مل جاتی ہے اس کے علاوہ برتھ کے 100روپے الگ سے لیے جارہے ہیں، اس طرح جو مسافر یہ ادائیگی نہیں کرسکتے وہ موسم کی شدت برداشت کرتے ہوئے سفر کرتے ہیں۔ جب ہمیں اس طرح کے حالات سے دو چار ہونا پڑا تو ہزاروں، لاکھوں مسافر جو روزانہ سفر کرتے ہیں تو انھیں کتنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔
ریلوے کے معزز وزیر! آپ سے التماس ہے کہ خدارا جو وعدے آپ نے کیے ہیں لوگ آپ کی حمایت میں لکھتے ہیں اس سے اندازہ تھا کہ آپ اپنے کام سے مخلص ہیں اس لیے عرض ہے کہ ان بے رحم ریلوے ملازمین کی درستگی کے لیے سخت اقدامات کریں جو مسافروں کو کھلے عام لوٹ رہے ہیں۔ 26دسمبر کو بہائو الدین زکریا ایکسپریس کا سارا ریکارڈ آپ کو مل جائے گا کہ کون کون اس دوران ڈیوٹی پر تھا۔ ایسے لوگوں کو کڑی سزا دے کر عبرت کا نشان بنائیں، ایسے لوگوں کا بھی ٹرائل ہو جوکہ عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ آئین کی کسی دفعہ کے تحت تو ایسے تمام لوگ بھی گرفت میں آتے ہوںگے۔ عوام کو مشرف کے ٹرائل سے نہیں ایسے لوگوں کے خلاف مقدمے بنائے جانے میں زیادہ دلچسپی ہے جو عوام کے ساتھ زیادتیاں کررہے ہیں، سعد رفیق کرنے اور کہنے میں بہت فرق ہوتاہے۔ درست سمت میں کیے گئے اقدامات نظر آجاتے ہیں اس لیے اگر اﷲ نے آپ کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ آپ دوسروں کی خدمت کریں تو اس کو ضایع مت کریں بلکہ خود بھیس بدل کر ایک سفر ٹرین سے کرلیں تو لگ پتا چل جائے گا کہ ریلوے ملازمین کس طرح اس ادارے کو نیست و نابود کرنے میں پیش پیش ہیں۔