آخری موقعہ

ضمیر کی آواز ہمیں اخلاقی آلودگی سے بچانے کے لیے دل کے کانوں میں گونجتی ہے۔


MJ Gohar June 11, 2021

معروف صوفی دانشور واصف علی واصف اپنی کتاب ''حرف حرف حکایت'' میں لکھتے ہیں کہ ضمیر کی آواز نہ ظاہری زبان سے دی جاتی ہے اور نہ ہی کانوں سے سنائی دیتی ہے۔ ضمیر کی آواز ہمیں اخلاقی آلودگی سے بچانے کے لیے دل کے کانوں میں گونجتی ہے۔

یہ آواز درحقیقت ناقوس وقت ہے، بانگ درا ہے، ایک طرح کی تنبیہہ ہے کہ اے لوگو! حق سے زیادہ نہ لو۔ تم اپنے بچوں کو مالِ حرام کھلاتے ہو یا انھیں آگ کا لقمہ دیتے ہو۔ تم استحقاق کی بات تو کرتے ہو لیکن فرائض کا ذکر کیوں نہیں۔ واصف علی واصف کے بقول یہ ملک لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر حاصل کیا گیا تھا، لیکن افسوس کہ چند ہوس پرست جونکوں کی طرح اس کا خون چوس رہے ہیں۔

بلاشبہ یہ ایک ایسی دردناک حقیقت ہے کہ اس کا ایک ایک منظر خون کے آنسو رلاتا ہے۔ سندھ ڈہرکی کے قریب ریلوے کی دو ٹرینوں سرسید ایکسپریس اور ملت ایکسپریس کے حادثے میں 60 سے زائد افراد کی ہلاکت نے پوری قوم کو افسردہ کردیا۔ 100 سے زائد افراد اس سانحے میں زخمی ہوئے۔

غفلت اور لاپرواہی کا تعین کرنے والوں کا کھوج لگانے اور انھیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے بجائے حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ اپوزیشن وزیر اعظم عمران خان کو ان کے وہ اقوال زریں یاد دلا رہی ہے کہ جب وہ اپوزیشن میں تھے تو ایک ٹرین حادثے کے موقع پر کہا کرتے تھے کہ باہر ممالک میں جب اس طرح کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو متعلقہ وزیر مستعفی ہو جاتا ہے لہٰذا ریلوے کے موجودہ وزیر کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پی ٹی آئی کے دور میں جو ٹرین کے حادثات ہوئے ان کے متعلقہ وزیروں اور خود وزیر اعظم عمران خان کو بھی مستعفی ہوجانا چاہیے۔ جب کہ حکومت کی طرف سے ٹرین حادثات کا ذمے دار ماضی کی پی پی پی اور (ن) لیگ کی حکومتوں کو ٹھہرایا جا رہا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے دور حکومت میں دہائیوں سے چلنے والے ریلوے ٹریکس کو تبدیل کرنے کے بارے میں کبھی کوئی سنجیدہ عملی اقدامات نہیں اٹھائے۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں اب تقریباً آٹھ ٹرینوں کے حادثات رونما ہو چکے ہیں۔

ہر حادثے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے ضمیر زندہ ہو کر ایک جھرجھری لیتے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کچھ دنوں تک حادثے کا ماتم برپا رہتا ہے۔ پھر کسی نئے سانحے کے پس منظر میں سارا دردناک منظر دھندلا جاتا ہے۔ ارباب اقتدار کا ضمیر ''انکوائری'' کی بین بجا کر لمبی تان کے سو جاتا ہے، لواحقین کو چند لاکھ روپے بطور معاوضہ ادا کرکے ارباب اختیار اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرلیتے ہیں۔ آخر یہ غیر انسانی رویے کب تک بے گناہ اور معصوم لوگوں کا خون پیتے رہیں گے۔ کب وہ دن آئے گا کہ قومی اداروں کی اصلاح کا بیڑا پار لگے گا۔

ہم نے ستر سال پہلے لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر یہ ملک اس لیے حاصل کیا تھا کہ ہماری آنے والی نسلیں ایک پرسکون اور خوش حال زندگی بسر کرسکیں۔ ہمارے اہل سیاست اور اس ملک خداداد کے سیاہ و سفید کے مالک بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں کہ وطن عزیز کو قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر بنائیں گے۔

عوام کی جان، مال، عزت، آبرو کا تحفظ یقینی بنائیں گے، انھیں روزگار، رہائش، تعلیم، انصاف اور صحت کی سہولتیں مہیا کریں گے لیکن سات دہائیاں گزرنے کے بعد آج بھی عوام کا یہ حال ہے لوگ غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آ کر نہ صرف خودکشیاں کر رہے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ آئے دن اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوتی رہتی ہیں کہ کہیں باپ نے حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر بچوں کو نہر میں پھینک دیا اور کہیں بے بس و لاچار ماں نے غربت و فاقوں سے تنگ آکر اپنے بچوں کو زہریلی چیز کھلا کر ہمیشہ کی نیند سلا دیا۔

یعنی عوام الناس کے حالات زندگی آج تک نہیں بدلے۔ بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں، ہاں اگر کچھ بدلا ہے تو ارباب اختیار کے حالات زیست یکسر بدل گئے ہیں۔ سائیکل اور موٹرسائیکل پر سفر کرنے والے جونہی اقتدار کی راہداریوں میں داخل ہوئے تو واپسی کا سفر لینڈ کروزر کے ذریعے طے کرتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں علاج کروانے والے بیرون ملک جا کے علاج کراتے ہیں۔ سال میں ایک دو مرتبہ نئے کپڑے خریدنے والے اب روزانہ قیمتی پوشاک زیب تن کرتے ہیں۔

ڈھابے سے نان چنے کھانے والے اب پنج ستارہ ہوٹلوں میں عشائیے کرتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے والوں کے بچے اب لندن اور امریکا کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔غرض ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے والے ہوس پرستوں نے اس ملک کے خزانوں کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھر لیں اور بیرون ملک جائیدادیں خرید لیں اپنے اہل خانہ کو من پسند ممالک میں مستقل آباد کردیا اور عوام آج بھی اپنی زندگی میں تبدیلی کی آس و امید لیے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے انتخابات سے قبل قوم سے ملک کی تقدیر بدلنے، حقیقی تبدیلی لانے اور عام آدمی کے حالات زندگی میں خوشحالی لانے کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے۔

کڑے احتساب کا نعرہ لگایا تھا، ملکی دولت لوٹنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے، قومی دولت واپس ملکی خزانے میں جمع کرانے کے وعدے کیے تھے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے نہ لینے اور قومی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور پاکستان کو ایک عظیم ملک بنانے کے بلند آہنگ دعوے کیے تھے، لیکن گزشتہ تین سالوں کے دوران ان کی حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشانات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ، تین وزیر خزانہ تبدیل ہوچکے لیکن معیشت کا پہیہ آج بھی جام ہے۔ غربت، مہنگائی، بے روزگاری کا گراف مسلسل اوپر جا رہا ہے، غریب آدمی غریب تر ہوتا جا رہا ہے، لیکن کہیں کوئی احساس نہیں۔

وائے ناکامیٔ متاع کاررواں جاتا رہا

اور کاررواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

ادھر اپوزیشن کا حال دیکھ لیں تو کف افسوس کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں۔ پی ڈی ایم کا شور و غل بڑے طمطراق سے اٹھا، پھر پی پی پی اور اے این پی کے نکلنے سے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔اسمبلیوں سے استعفیٰ، لانگ مارچ اور دھرنے کا خواب چکنا چور ہو گیا، عمران حکومت کو گرانے کا شوق طاق نسیاں کی زینت بن گیا۔ اب حکومت کو پانچ سال تک کام کرنے کا موقعہ فراہم کرنے کی باتیں ان کی مجبوری بن گئی ہے۔

وزیر اعظم عمران اور پی ٹی آئی کے پاس اب صرف دو سال کا عرصہ ہے۔ انھیں اب اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اب انھیں اپنی پوری توجہ عوام کے مسائل حل کرنے پر دینی چاہیے۔ ان کے پاس یہ آخری موقعہ ہے۔ ورنہ 2023 میں پی ٹی آئی کو شکست کا ذائقہ چکھنا پڑے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں