گلاب لمحوں کا فرد ’’ڈاکٹر شہزاد‘‘
یہ ممکن نہیں کہ کراچی میں تھیٹر اور ناٹک کے دھنی اور آرٹس کونسل کے درو دیوار’’ ڈاکٹر شہزاد‘‘ کو نہ جانتے ہوں۔
معروف بانسری نواز بسم اللہ خان کی بانسری کے دھرپت سْر جب بنارس کے بالا خانے سے چوباروں اور چوبرجیوں سے نکل کر جمنا کنارے اشنان کے دھتیوں میں کارنس گھولتے ہوں یا کبیرا کے مہان اشلوک بنارس کے رہواسیوں میں پوجا پاٹ کے سفر کو چھوڑتے شعور و ادراک کی جانب گامزن ہوجائیں، تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ سر سنگیت کے آہنگوں میں رچا بسا ''شہزاد'' ان کے تخلیقی جوہر سے پرے رہے۔
یہ وہ حقائق ہیں جن سے ڈاکٹر شہزاد سے نا آشنا تو ناواقف ہو سکتے ہیں مگر یہ ممکن نہیں کہ کراچی میں تھیٹر اور ناٹک کے دھنی اور آرٹس کونسل کے درو دیوار'' ڈاکٹر شہزاد'' کو نہ جانتے ہوں۔
میرے وجود کے احساس اب تک اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ آرٹ اور تھیٹر کی دنیا میں ڈاکٹر ایس این ایم شہزاد کی حیثیت میں جایا جاننے والا میرا سنگی ساتھی اور میرے دکھ سکھ کے پریوار کا فرد اب ہماری دنیا کا فرد نہیں رہا، وہ بدیس میں دیس کے سارے ہنگاموں اور شور سے بے نیاز ہوچکا ہے، اس کی جنم بھومی کراچی اس کی مٹی کی تلاش میں سائوتھ افریقہ کے اس قبرستان کو تلاش کررہی ہے جہاں کراچی کا ہونہار سپوت ماں کی آغوش کو سسکتا بلکتا چھوڑ کر خود ابدی نیند سو رہا ہے۔
میں یہ کیسے مان لوں کہ ڈاکٹر شہزاد ایسا حرکی صلاحیتوں سے پر فرد زندگی کو تج کرنے والی قوتوں کے سامنے اتنی آسانی سے ہتھیار ڈال دے گا، وہ ڈاکٹر شہزاد جو دوست اور احباب کو ہمہ وقت اپنی موجودگی کا احساس دلا کر احباب کے مسکان کا سبب بنتا رہے، جو زندگی کی جرأتوں کا نگہبان ہو، جو اپنے اور سماج کے احساس کو اعضا کی شاعری میں ڈھالنے کا دھتی ہو، کراچی آرٹس کونسل میں تھیٹر کی نئی تکنیک ''میوم'' کو روشناس کروانے کا محرک ہو، جس نے دامے درمے سخنے کراچی میں ناٹک اور تھیٹر کے فروغ کی خاطر وقت کی پرواہ نہ کی ہو، وہ شہزاد جس نے انجمن ترقی پسند کے ادب برائے زندگی کے فلسفے کے فروغ کے لیے اپنی تمام تخلیقی کاوشیں دان کر دی ہوں، وہ شہزاد جو دوستوں کے حوصلوں کا ساتھاری بنا رہنے میں خود کو تروتازہ سمجھتا رہے۔
وہ ڈاکٹر شہزاد جو شور ہنگاموں اور ہلچل پیدا کرنے کا متحرک کردار بنا رہتا ہو۔ وہ شہزاد اتنی آسانی سے سائوتھ افریقہ میں دل ہار بیٹھے، خود سے بے نیاز ہو جائے اور سر بکف رہنے والا قلب پکڑ کر اس کے سامنے سر تسلیم خم کر لے۔۔۔؟؟ ایسا کیسے ممکن ہے۔ کیونکر ہوا، کیسے ہوا یہ سب کچھ؟ اب تک کراچی کے احباب کراچی آرٹس کونسل، تھیٹر اور ناٹک کی دنیا کے دوست سکتے میں ہیں۔
گو کراچی آرٹس کونسل کے احمد شاہ نے شدید کرب اور دکھ کا اظہار کیا، ڈاکٹر شہزاد کی آرٹس کونسل کے لیے خدمات کو سراہا اور غم و اندوہ میں رہے مگر آرٹس کونسل کے اس تھیٹر چیئرمین کی خبر اپنے ممبران تک با ضابطہ کیوں نہ دے سکے، یہ سمجھنے سے میں اب تک قاصر ہوں، اپنوں سے شکوہ ہی تو ہمارا اخلاقی وصف ہے جو کیا جانا ضروری ہے، امید ہے کہ آرٹس کونسل میں تھیٹر کے فروغ کے لیے دی جانے والی خدمات کا باقاعدہ شاہ جی کوئی بندوبست کریں گے کہ جس کا یقین دوستوں کو دلایا بھی گیا ہے اور آرٹس کونسل اس ناگہانی سانحے پر افسردہ بھی ہے۔
ابی (والد) اور دوستوں کے لاڈلے ڈاکٹر شہزاد کی جامعہ کراچی میں ترقی پسند DSF کے دوستوں سے وابستگی رہی، اسی دوران شہزاد کی ادب اور تھیٹر سے دلچسپی ترقی پسند تحریک کا ایک اطمینان بخش موڑ ثابت ہوئی، جس میں ڈاکٹر شہزاد کے فن و ثقافت شعبے کو نظریاتی ندرت میسر آئی اور یوں یہ قبیلہ عوام کے سیاسی اور سماجی شعور کا وہ مورچہ بنا جس نے اس شہر خانماں خراب میں ناٹک ، تھیٹر اور ادب کے ترقی پسند نظریے کی جوت جگائی۔
یہ اس نوے کی دہائی کے اوائل کی بات ہے جب ڈاکٹر شہزاد اپنے ترقی پسند رجحانات کی بنا پر انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاس میں آئے اور اجلاس میں شرکت کے بعد انجمن کے پلیٹ فارم سے تھیٹر کے فروغ میں حصہ ڈالنے کی بات کی، میں نے انجمن کے انتظامی امور کے نگراں کے طور پر ان کی اس شعور بھری بات کو اہمیت دی اور یوں انجمن کے پلیٹ فارم سے ''تھیٹر ٹاک'' کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں تھیٹر کی دنیا کے معروف نام یوسف اسماعیل، راحت کاظمی، منصور سعید، ثانیہ سعید، شفیع عقیل اور عمران شیروانی شریک گفتگو ہوئے اور ''تھیٹر ٹاک'' کے اس سیمینار کو تمام قومی پریس نے بھرپور کوریج دی۔
یہ تھیٹر کی دنیا میں اسٹریٹ تھیٹر اور ناٹک کو ازسر نو منظم کرنے کا وہ دور تھا جب طالبان جہاد کو ہماری ریاست اس سماج کا ایک تنزلی پسند انجکشن لگانے میں مصروفِ عمل تھی، مگر ڈاکٹر شہزاد کی فکر اور سوچ نے جہادی ریاست کے بر خلاف انجمن کے ساتھ مل کر علم بغاوت بلند کیا۔
ڈاکٹر شہزاد نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انجمن ترقی پسند خواتین کے عورت حقوق کی جدوجہد میں بھی ''اسٹریٹ تھیٹر'' کی روایت کو سرخرو کرتے ہوئے دن رات کی محنت کے بعد کراچی پریس کلب پر میری بیٹیوں اور کلثوم جمال کی بیٹی اور ایک انگریزی اخبار کی رپورٹر میرا جمال کے ذریعے اسٹریٹ تھیٹر کیا اور اس وقت کی تنگ نظر سوچ کو روشن خیالی اور عورتوں کے حقوق کا ایک نیا زاویہ فراہم کیا۔
مجھے اب تک یاد ہے کہ جب انجمن ترقی پسند مصنفین انڈیا کی کانفرنس کا دعوت نامہ وصول ہوا تو ڈاکٹر شہزاد میرے ساتھ ہر گھڑی ہم رکاب رہا، انڈین سفارتخانے اسلام آباد کے ویزے کے حصول سے لے کر انجمن کے وفد کو اٹاری بارڈر تک پہنچانے اور امرتسر ساتھ چلنے سے لے کر چندی گڑھ کانفرنس میں شرکت تک ڈاکٹر شہزاد میرا روم میٹ رہا اور ہم نے انجمن کے وفد کی شرکت اور کانفرنس میں تقاریر تک کی حکمت عملی ساتھ طے کیں، گو اس مرحلے پر کبھی کبھار ڈاکٹر شہزاد اور پیرزادہ سلمان خوف کی تصویر بھی رہے مگر پھر مل کر حوصلے کی منڈلی بنائی اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ''اجے بھون'' تک کا سفر بغیر خوف کیا۔
اس میں جہاں شہزاد نے تھیٹر کے مسائل پر اپنا نکتہ نظر رکھا وہیں وہ انجمن ترقی پسند کے طے شدہ اصول کا پابند بھی رہا، اسے مکمل میرے وفد کے سربراہ کی حیثیت کا ہر لمحے ادراک رہا اور اس نے امرتا پریتم سے لے کر کشمیری لال ذاکر، اے بی بردھان، شمیم فیضی اور علی جاوید تک کی ملاقات میں حسب مراتب کو ملحوظ خاطر رکھا، گو اس ساری صورتحال میں توقیر چغتائی، نثار حسین اور پیرزادہ سلمان بھی ہمہ وقت تعاون اور شعور کی تصویر بنے رہے، مگر میں آخر وقت تک شہزاد کے خلوص اور محبت کو کیسے بھلائوں، ڈاکٹر شہزاد کی ناگہانی جدائی میرے حواس کو اب تک بے چین و بیقرار کیے ہوئے ہے۔
یہی نہیں بلکہ میں تو ڈاکٹر شہزاد کے اس آدرش اور ترقی پسند خلوص کا بھی گواہ ہوں جو اس نے معروف شاعر و صحافی حسن عابدی کے پہلے مجموعہ کلام ''جریدہ'' کی چھپائی اور اس کی تقریب کے لیے کیے، حسن عابدی سے خلوص کے جذبے میں وہ ان کے خاندان کا مہربان رہا، ڈاکٹر شہزاد نے انجمن ترقی پسند مصنفین اور آرٹس کونسل کے تھیٹر کے فروغ کے لیے نہ دن دیکھا نہ رات۔ مگر جب اس کے کام کی پذیرائی نہ ہوئی تو اس نے تھیٹر کے فروغ کے لیے اپنے مسکن کو تھیٹر کے لیے وقف کر دیا۔
اس نے افشاں اور اپنی ضحی کے ساتھ میرے بچیوں کے ذہنی شعور کی بالیدگی میں بنیادی کردار اور فرض ادا کیا اور خاموشی سے دکھی دل کے ساتھ تمام دوستوں کو آگاہ کیے بغیر سائوتھ افریقہ کا رخت سفر باندھا، سوچتا ہوں کہ آخری سفر کے لیے مل بانٹ کر دکھ سہنے والے ڈاکٹر شہزاد نے کیسے یہ بوجھ اٹھایا ہوگا، شاید وہ تھک گیا تھا، تبھی تو بغیر بتائے کی عادت میں محو ہوکر دوستوں کو بتائے بنا ملک عدم سدھار گیا۔ ڈاکٹر شہزاد ہی نے تو کہا تھا نا کہ!
سبھی قید و بند کی مشکلیں
وہ ہنسی ہنسی میں اڑا گیا
وہ نوشت نے کی عبارتیں
سرِ مقتل گہہ جو رقم ہوئیں
وہ سنا گیا، وہ دکھا گیا
وہ گلاب لمحوں کا فرد تھا۔