بات ہو جائے کچھ خاک نشینوں کی
ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ اکثر انکساری کے طور پر اپنے آپ کو خاکسار، ناچیز اور خاک نشین کہہ کر تعارف کرواتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ اکثر انکساری کے طور پر اپنے آپ کو خاکسار، ناچیز اور خاک نشین کہہ کر تعارف کرواتے ہیں۔ درحقیقت یہ انکساری نہیں بلکہ نام و نمود کو بڑھاوا دینے کے لیے ان القابات و آداب کے الفاظ کو استعمال کیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک کے حقیقی خاک نشین بھٹے کے مزدور، پاور لومز کے مزدور، ری سائیکلنگ کے لیے شیشے، لوہے، گتے اور پلاسٹک بٹورنے والے مزدور چوٹی کے خاک نشین ہیں۔ ان کے بعد پٹرول پمپوں پر کام کرنے والے مزدور، سیکیورٹی گارڈز، شیشے، صابن اور ٹائر بنانے والے مزدور، خام لوہے کی بھٹی میں کام کرنے والے مزدور، دھیاڑی دار بے زمین کسان، کھیت مزدور، دکانوں پر کام کرنے والے مزدور ہیں۔
پھر ہوزری، دھاگہ بنانے والے مزدور، ٹیکسٹائل کے مزدور اور آخر میں پرولتاریہ بھی مزدور ہوتے ہیں۔ جنھیں کبھی کام مل جاتے ہیں اور کبھی نہیں۔ ہرچند کہ لومپن پرولتاریہ سماج کے ناسور ہوتے ہیں، یہ انقلابی عمل میں ڈانواںڈول ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ سماجی ناانصافیوں اور طبقاتی مظالم کی پیداوار ہیں، اس لیے یہ کم ازکم جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور نوکر شاہی سے بہتر ہیں۔ آنے والے بجٹ میں ان خاک نشینوں کا کیا بنے گا؟ ان کی زندگی بدلے گی یا مزید خرابی، خودکشی، فاقہ کشی، نیم فاقہ کشی اور گداگری میں گزر جائے گی۔
مسائل تو حقیقی معنوں میں انھی کے سب سے زیادہ ہیں۔ آنے والے بجٹ میں سب سے زیادہ بجٹ کا حجم بیرونی قرضوں اور سود کا ہے، پھر ترقیاتی اور غیر پیداواری اخراجات وغیرہ وغیرہ میں چلی جاتی ہے۔ جن کا ہم نے مندرجہ بالا ذکر کیا ان کا تو نمبر آٹے آتے بجٹ کی رقوم ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ اب ذرا بھٹہ مزدوروں کے حال پر نظر ڈالتے ہیں۔ یہ ایسے مزدور ہیں کہ بشمول خاندان بھٹہ مالکان کے تا زندگی غلام بن جاتے ہیں۔
اس لیے بھی کہ مالکان انھیں سال دو سال کے لیے ایک دو لاکھ کا قرضہ دے دیتے ہیں اور مزدور ساری زندگی یہ قرضہ اتار نہیں پاتے، اس لیے ساری زندگی غلام کی طرح کام میں جتے رہتے ہیں۔ بعض مواقعوں پر وہ اس غلامی سے انکاری رہتے ہیں تو انھیں بھٹہ مالکان اپنی نجی جیلوں میں قید کرکے کام لیتے رہتے ہیں۔ اس طرح سے یہ بھٹو مزدور فاقہ کشی اور نیم فاقہ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
پاور لومز کے مزدوروں کا حال ان سے کم نہیں۔ صرف صوبہ سندھ میں ڈیڑھ لاکھ پاور لومز کے مزدور بے دست و پا کولہو کے بیل کی طرح کام کرتے جا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ مالکان کا برتاؤ کچھ یوں ہے کہ کام کی جگہ پر پنکھے، پانی اور کرسی تک نہیں ہوتے، یونین بنانا تو درکنار، انھیں ہفتہ وار یا پندرہ دن کی جو دھیاڑی دی جاتی ہے وہ نہایت ہی نامعقول اور کام کے اوقات کار 12 گھنٹے ہوتے ہیں۔ ہفتے میں کوئی چھٹی نہیں ملتی۔ اگر مزدور بلامعاوضہ ہفتے میں ایک روز کی چھٹی کرلے تو انھیں کام سے فارغ کردیا جاتا ہے۔
لیبر قوانین کا ان پر کوئی اطلاق نہیں ہوتا۔ پلاسٹک، شیشے، گتے اور لوہے بٹورنے والے محنت کش گلی گلی کوچے کوچے کوڑے خانوں سے یہ کچرا بہت ہی نامناسب اور غلیظ حالت میں بٹورتے ہیں۔ اور پھر سارا دن چننے کے بعد جب کباڑیے کے پاس جاتے ہیں تو اس کی قیمت انھیں بہ مشکل 3/4 سو روپے سے بھی کم ملتی ہے۔ مگر انھیں اسی پر گزارا کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ فاقے کے بجائے نیم فاقہ کشی تو غنیمت ہے۔
پٹرول پمپوں پر جو مزدور کام کرتے ہیں انھیں 12 گھنٹے یا پھر 24 گھنٹے کی ڈیوٹی کرنی ہوتی ہے۔ پھر دوسرے دن کی چھوٹی ملتی ہے۔ حساب لگائیں تو آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کرنے کے دس سے بارہ ہزار روپے ملتے ہیں۔ انھیں بھی لیبر قوانین کے تحت کوئی بھی مراعات یا سہولیات میسر نہیں ہیں۔ اگر بلا کہے ڈیوٹی پر نہ آئیں تو ملازمت سے نکال دیا جاتا ہے اربوں روپے کمانے والے پٹرول پمپوں کے مالکان پمپ کے مزدوروں کو کوئی تقرر نامے کا لیٹر نہیں دیتے۔
سیکیورٹی گارڈز کی بھی بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی ہوتی ہے۔ اگر ایک دن کی چھٹی کرتے ہیں تو انھیں بعد میں ڈبل ڈیوٹی کرنی ہوتی ہے۔ اگر سیکیورٹی گارڈز کی تنخواہ سولہ ہزار روپے ہے تو چھ ہزار ٹھیکیدار ہڑپ کر جاتا ہے اور آٹھ ہزار سیکیورٹی گارڈز کو دیا جاتا ہے۔ اس کا کوئی تدارک نہیں، کوئی انکوائری نہیں اور نہ کوئی قانون۔ ٹھیکیدار گھر بیٹھے لاکھوں روپے کماتا ہے جب کہ سیکیورٹی گارڈز رات دن جان پر کھیل کر صرف آٹھ ہزار روپے کے لیے ڈیوٹی کرتا ہے۔
ان گارڈز کو عید، بقر عید، محرم یا کسی تہوار کے موقع پر چھٹیاں نہیں ملتیں۔ ان میں بیشتر گارڈز ریٹائرڈ فوجی ہوتے ہیں۔ شیشے، صابن اور ٹائر بنانے کا عمل انتہائی خطرناک اور بھیانک ہونے کے باوجود حفاظت کے لیے کوئی یونیفارم ہوتا ہے اور نہ ہنگامی علاج کے لیے فرسٹ ایڈ کا انتظام ہوتا ہے۔ ان فیکٹریوں میں کھولتے ہوئے کیمیائی مادوں کو مصنوعات میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
اگر ایک قطرہ بھی جسم پر گر جائے تو وہ ناسور بن جاتا ہے۔ مگر بے روزگاری کے عالم میں مزدور اس صورتحال میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اس خطرناک حالت میں کام کرنا اور اس کا تدارک نہ ہونا صریحاً جرم ہے۔ اس پر بھی حکومت خاموش رہتی ہے اور مزدوروں کے ساتھ کوئی انصاف نہیں ہوتا۔ اور نہ خصوصی معاوضہ دیا جاتا ہے۔ ہوزری، دھاگہ بنانے والے مزدوروں، ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے مزدوروں کی حالت زار ہے۔
لاکھوں کی تعداد میں مزدور اس شعبے میں کام کرتے ہیں۔ ان سے بھی بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی لی جاتی ہے۔ حکومت کی جانب سے بڑھائی گئی تنخواہیں ان پر لاگو ہی نہیںکی جاتیں۔ یہاں مزدور اگر یونین بنانے کی کوشش کریں تو انھیں ملازمت سے ہی فارغ کردیا جاتا ہے۔ جب ملک میں بے روزگاری بڑھے گی تو پھر لوگ غلط راستے اختیار کرتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ حکومت انھیں غلط راستوں پر گامزن ہونے پر مجبور کردیتی ہے۔
جب ساری گلیاں بند کردی جائیں گی اور ایک ہی گلی کھلی رکھی ہوگی جو بدامنی کی ہوگی تو پھر بے روزگار اور بھوکے ننگے لوگ اسی گلی کو ہی استعمال کریں گے۔ اگر سب کو روزگار ملے یا روزگار کے حصول تک بے روزگاری الاؤنس ملے تو پھر غلط راستے استعمال نہیں کریں گے۔ پھر کوئی گداگر، منشیات نوش، عصمت فروش ہوں گے اور نہ چور اچکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس ناسور طبقاتی نظام کو ختم کرکے ایک غیر طبقاتی اور امداد باہمی کا آزاد معاشرہ قائم کرنے میں ہی تمام برائیوں کا خاتمہ ہوگا۔
یہ برائیاں سرمایہ دارانہ نظام کی نہیں بلکہ اس نظام کا ناگزیر نتیجہ ہیں۔ یہ بجٹ کیا متذکرہ بالا مزدوروں کے لیے کوئی بھلائی لائے گا؟ ہرگز نہیں۔ بھلائی ان کی ہوگی جو اسمبلی میں بیٹھے ہیں۔ ان غریبوں کا خون چوس کر ہی یہ ارب پتی بنے ہیں۔ پھر یہ کیونکر مزدوروں کی بھلائی کریں گے۔ ہرچندکہ مسائل کا مکمل حل ایک بے ریاستی سماج کے قیام میں ہی مضمر ہے۔