ہائے وطن کی محبت کیا ہوتی ہے
وطن عزیز کی تعمیر میں لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔
MANCHESTER:
پاکستان کس طرح وجود میں آیا اور اسے کس طرح پامال کرنے کی کوشش کی گئی یہ کہانی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، وطن عزیز کی تعمیر میں لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا گیا، اس بات کا احساس ان لوگوں کو کس طرح ہو سکتا ہے جنھیں پکا پکایا حلوہ وطن کی شکل میں مل گیا،بغیر محنت کے اور پھر غداری بھی انھی کے ساتھ جنھوں نے اس حلوے کی تیاری میں اپنے ہاتھ جلا لیے۔
''یاد عہد خوں چکاں'' ایک ایسی کتاب ہے جس میں محرومی، جدائی، خون میں لتھڑی لاشیں، بلکتے سسکتے انسانوں کا نوحہ درج کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے شاعر جناب شفیق احمد شفیق ہیں۔ بے شمار خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک، انھوں نے ہر لمحہ ادب کی خدمت کی ہے، مزاج میں سادگی اور تحریر میں سچائی کی روشنی سے گوہر آبدار کی مانند ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور درس و تدریس و صحافت ان کا پیشہ ہے۔ وہ بیک وقت شاعر، ادیب، کالم نگار، ناقد، محقق اور 13 کتابوں کے مصنف ہیں۔
ترتیب و تدوین کے اعتبار سے بھی وقیع کام کیا ہے، فکر و آگہی اور اپنے ہم وطنوں کے دکھوں اور ان پر ٹوٹنے والی آنکھوں دیکھی قیامت کی تباہ کاریوں اور خون ریزی کے نتیجے میں یہ کتاب اشاعت کے مرحلے سے گزری ہے، یہ آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی۔ ہر لفظ خون دل سے لکھا گیا ہے۔
اس کا انتساب پڑھ کر ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ لکھتے ہیں ''ان کے نام، جنھیں پاکستان کے نام پر شہید کیا گیا، زد و کوب کیا گیا، لوٹا گیا، آراستہ و پیراستہ عمارتوں پر قبضہ کرکے دسمبر کی سخت سردی میں قیدی بنا کر موناپاڑہ کے ایک میدان میں کھلے آسمان کے نیچے بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔ ان کے نام جن کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے آج بھی جنیوا کیمپ میں پاکستان آنے کے خوابِ پریشاں کے اسیر ہیں۔''
قابل احترام، عالم گیر شہرت کے حامل جناب محمود شام نے سانحہ مشرقی پاکستان کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ مشرقی پاکستان کے شہیدوں کا لہو روشنائی بن گیا ہے۔
''میں بھی ان دنوں بہت رویا تھا، میرے بچے بھی دل گرفتہ رہتے تھے، یہ صرف پاکستان ہی کا نہیں، عالمِ اسلام کا عظیم المیہ تھا، ایک وطن جو لاکھوں شہیدوں کے خون کا نذرانہ دے کر حاصل ہوا، جس کی سمت سفر کرتے ہوئے ہزاروں مائیں، بہنیں، بزرگ، بچے گولیوں، کرپانوں، تلواروں اور نیزوں کا شکار ہوگئے، جس کی بنیادوں میں میرے، آپ کے، پنجابیوں، سندھیوں، پٹھانوں، بلوچوں، کشمیریوں اور بنگالیوں کے خون کے ساتھ ساتھ ان عظیم آباد و اجداد کا لہو بھی شامل ہے جو مغربی بنگال سے، بہار سے، یوپی سے، راجستھان سے، مشرقی پنجاب سے، دہلی سے، رائے بریلی سے اپنے ہنستے بستے گھر بار چھوڑ کر اس جنت ارضی کی طرف چل پڑے تھے، کون سوچ سکتا تھا کہ یہ جنت دوزخ بنا دی جائے گی، برسوں سے ساتھ ساتھ رہتے، اچانک ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوجائیں گے۔''
سقوط مشرقی پاکستان کے بارے میں انگریزی، اردو میں بہت سی تصنیفات نظر سے گزری ہیں، لیکن شفیق احمد شفیق کی ''یاد عہدِ خوں چکاں'' اس عظیم المیے کو شعری ملبوس میں جس تڑپ سے بیان کر رہی ہے وہ اپنی جگہ منفرد اور متنوع ہے۔''
منفرد لب و لہجے کے شاعر، مدیر، نقاد جناب اکرم کنجاہی نے شفیق احمد شفیق کی کتاب ''یاد عہد خوں چکاں'' کے تناظر میں لکھا ہے ''سقوط ڈھاکا ایسا سانحہ تھا کہ جسے بیان کرتے ہوئے تخلیق کاروں کے داخلی یا ان کے شخصی درد و غم نے اجتماعی قومی المیے کا روپ دھار لیا۔
بہت سے محب وطن شعرا نے جو سقوط ڈھاکا کے وقت مشرقی پاکستان میں تھے اپنی نظم کو ایک اجتماعی ایسے دکھ، کرب، رنج و غم اور یاسیت کے حوالے کردیا، جس کا تعلق ہماری تاریخ کے کرب انگیز، الم ناک اور سیاہ ترین باب سے تھا، ہر شاعر کی طرح شفیق احمد شفیق نے بھی اس جانکاہ حادثے کو احساس کی شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے اور شاعرانہ اظہار کیا، جس کے پیچھے ان کی مکمل دردمند شخصیت موجود ہے، جس نے اپنی جذباتی کیفیت کو آہ کی صورت میں پیش کیا ہے۔
میں بنگلہ دیش کی تصویر اٹھا کے لایا ہوں
میں اپنے شعروں میں سب کچھ سجا کے لایا ہوں
نظر نے دیکھا جو دل نے مرے کیا محسوس
میں اپنی نظم و غزل میں بسا کے لایا ہوں
شفیق صاحب کے کلام کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ انھوں نے اپنی نظموں میں سابق مشرقی پاکستان (جسے بنگلہ دیش لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے) کو اپنا محبوب بنا کر پیش کیا ہے، لہٰذا ان کے اشعار میں وہی سوز و گداز، کرب انگیزی اور تاثیر ہے جو گوشت پوست کے محبوب کی جدائی اور ہجر و فراق میں کہی گئی غزلوں میں ہوتی ہے۔ اس تمام کلام میں ایسے اشعار ہرگز نہیں ہیں جو شاعر کی ذاتی زندگی اور قلبی واردات سے تعلق رکھتے ہوں، انھوں نے قومی سانحے کو جو مشرقی پاکستان میں آباد محب وطن پاکستانیوں پر بجلی بن کر گرا اور انھیں تڑپا کر رکھ دیا۔
''عرضِ حال'' کے عنوان سے ''یاد عہدِ خوں چکاں'' کے شاعر جناب شفیق احمد شفیق نے نہایت دردمندی اور تڑپتے دل کے ساتھ حکمرانوں کی بے حسی، اقتدار سے محبت اور انسانیت کی تذلیل کا نوحہ خونِ جگر سے لکھا ہے۔ انھوں نے اس حقیقت کو بھی آشکار کیا ہے کہ جب ''دہلی معاہدہ'' کے تحت ان بنگالیوں کو جو پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں، ان کو پاکستانی حکومت بنگلہ دیش بھیجے گی اور بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو جن میں اردو بولنے والوں کے علاوہ پنجابی، پٹھان، بلوچی اور کشمیری وغیرہ بھی ہیں پاکستان بلالے، اس واقعہ کا الم نام پہلو یہ ہے کہ جب پاکستانیوں کی نامکمل تعداد پاکستان آئی تو ان کی آمد پر دشمن عناصر احتجاجی جلوس لے کر ایئرپورٹ پہنچ گئے اور اتنا ہنگامہ کیا کہ حکومت نے انھیں بنگلہ دیش واپس بھیج دیا، آج تک ریڈ کراس کے کیمپوں (جیوا کیمپ) میں ڈھائی لاکھ پاکستانی کسمپرسی اور گویا جلاوطنی کی زندگی بغیر کسی قصور کے گزارنے پر مجبور ہیں۔
کتاب میں معروف افسانہ نگار اور مدیر مرحوم ایوب جوہر کے دو خطوط جن میں آرزوؤں کا خون لفظوں میں سما گیا ہے درج ہیں ''میرے بھائی شفیق! آپ وہاں جا رہے ہیں جہاں جانے کی تمنا میں ایک بدنصیب قوم کے بدنصیب افراد عرصے سے مچل رہے ہیں، اس پر مجھے خوشی ہے لیکن آپ کے ساتھ میری زندگی بھی جا رہی ہے، جس کی جدائی کا غم شاید نہ سہار سکوں، غم زدہ ایوب جوہر۔10 مارچ، 74ء ڈھاکا۔ہائے وطن کی محبت بھی کیا چیز ہے، انسان کا چین و سکون غارت کردیتی ہے، زندگی اجیرن ہو جاتی ہے، جیتے جی مار دیتی ہے، ایوب جوہر مرحوم کے دوسرے خط سے دو سطور اور۔ میرے بھائی شفیق صاحب! آپ نے کبھی کسی بچے کو ٹوٹا ہوا کھلونا جوڑتے ہوئے دیکھا ہے؟ نہیں تو یہ دل خراش منظر آکر دیکھ جائیے کہ آپ کا ایوب جوہر کس طرح اپنا ٹوٹا ہوا کھلونا جوڑ رہا ہے۔ خود فریبی کا شکار ہے۔ شفیق صاحب خون آشام شام و سحر کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں:
سرِ بازار بہایا ہے جو معصوم لہو
وہ قصاص اپنا طلب تم سے کرے گا اک دن
آتشِ شوق سے زنجیر پگھل جائے گی
شقف زنداں کے شگافوں سے دھواں نکلے گا