پاکستانی اور بھارتی برآمدکنندگان باسمتی چاول کی مشترکہ ملکیت پر متفق

باسمتی چاولوں کی مشترکہ ملکیت پر اتفاق یورپی یونین کی منڈیوں تک پہنچنے کیلیے مسئلے کا بہترین حل بتایا جارہا ہے


Express Tribune Report June 14, 2021
بھارت اور پاکستان دو ہی ممالک ہیں جو دنیا میں باسمتی پیدا کرتے ہیں، فوٹو: فائل

اگرچہ پاکستان اوربھارت طویل عرصے سے متعدد زمینی اور سمندری تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں لیکن دونوں اطراف کے برآمد کنندگان نے اس خطے کے قیمتی باسمتی چاول کی مشترکہ ملکیت پر اتفاق کیا ہے ، جو یورپی یونین کی منڈیوں تک پہنچنے کیلیے مسئلے کا بہترین حل بتایا جاتا ہے۔

بھارت نے باسمتی چاول کے جغرافیائی ٹیگ کیلئے یورپی یونین میں دعویٰ دائر کیا ہے، دوسری طرف پاکستان نے بھی جغرافیائی اشارے کے تحفظ کے لئے درخواست دائر کررکھی ہے۔جغرافیائی اشارہ مخصوص جغرافیائی اصلیت کے حامل مصنوعات پر لگائے جانے والا لیبل ہے جس میں بنیادی طور پر ان کی اصلیت کے قدرتی اور انسانی عوامل پر مبنی خصوصیات یا ساکھ ہیتاہم ، پاکستانی اور بھارتی برآمد کنندگان کا خیال ہے باسمتی کی مشترکہ ملکیت تنازع کا واحد قابل عمل حل ہے۔

کراچی میں مقیم چاول کے برآمدکنندہ فیضان علی غوری نے کہا نئی دہلی اور اسلام آباد طویل عرصے سے باسمتی چاول کی ابتدا کے دعویدار ہیں ، جو بڑے پیمانے پر دونوں ممالک میں پیدا ہوتے ہیں۔ صوبہ پنجاب ، جو 1947 ء میں مشرقی پنجاب (بھارت) اور مغربی پنجاب (پاکستان) میں تقسیم ہوا تھا ، باسمتی چاول کی اصل ہے۔غوری نے کہا اگرچہ اس کی اصل پاکستانی پنجاب ہے لیکن یہ سرحد کے دونوں اطراف میں اگایا جاتا ہے ،لہذا مشترکہ ملکیت ہی تنازع کاواحد قابل عمل حل ہے ۔

بھارت میں پنجاب رائس ملرز ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر اشوری سیٹھی نے غوری کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اور پاکستان واحد دو ممالک ہیں ، جو دنیا میں باسمتی پیدا کرتے ہیں، دونوں کو مشترکہ ورثہ بچانے اور چاول کے جغرافیائی اشارے کے نظام کی حفاظت کے لئے کام کرنا چاہئے۔دونوں اطراف کے لاکھوں کسان باسمتی کی پیداوار سے وابستہ ہیں۔ نئی دہلی کے برآمد کنندہ ، وجے سیٹیا نے کہا بھارت کا باسمتی برآمدات کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ "صحت مند" مقابلہ ہے ،ہمیںاسلام آباد کو جغرافیائی اشارے کا اپنا ٹیگ حاصل کرنے پر اعتراض نہیں ،ہم نے یورپی یونین کو درخواست میں کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ باسمتی پیداکرنے والے ہم واحد ملک ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں