حقیقی بجٹ
موجودہ حکومت نے اپنا تیسرا بجٹ پیش کر دیا ہے جس میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کی خوشخبری بھی سنائی گئی ہے۔
ملکہ فرانس کا وہ مشہور و معروف جملہ تو آپ سب کے حافظے میں محفوظ ہو گا کہ عوام کواگر ڈبل روٹی نہیں مل رہی تو یہ کیک کیوں نہیں کھالیتے، کچھ ایساہی معاملہ تیسری دنیا کے ممالک کے عوام کے ساتھ بھی ہر سال بجٹ کے موقع پر ہوتا ہے ، کیک تو دور کی بات عوام کو دو وقت کی روٹی کی دستیابی بھی مشکل بنا دی جاتی ہے۔
عوام سال بھرماتم کرتے رہتے ہیں اور خود کونت نئی نئی آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مجبوراً تیاررکھتے لیکن انھیں یہ معلوم اب بھی یہ معلوم نہیں کہ یہ آزمائشیں کب ختم ہوں گی۔ حکومت چاہے کسی صنعتکار کی ہو ، کوئی وڈیرہ، جاگیردار تخت حکمرانی پر براجمان ہو، کوئی خود کو مڈل کلاسیا کہلوا کر حکمران بنا ہو یا فوجی آمر کا اقتدار ہو، بیچارے عوام کی دھلائی ہر صورت میں لازم ہے ۔
آئے روز نت نئی آفتیں ان پر نازل کر دی جاتی ہیں،کبھی پٹرول تو کبھی بجلی کی قیمتوں کو بڑھا دیا جاتا ہے،کبھی چینی کا بحران تو کبھی زرعی ملک میںگندم کی کمیابی اور آٹے روٹی کی مہنگائی کی وجہ سے عوام کے صبر کا امتحان لیا جاتا ہے۔ کبھی مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں بے تکا اضافہ ہو جاتا ہے ۔ گرمیوں میں بجلی کی آنکھ مچولی شروع ہو جا تی ہے تو سردیوں میں گیس نایاب ہو جاتی ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ حکمران کوئی بھی ہو وہ عوام کو سکھ کا سانس لینے کا موقع فراہم کرنے کو بالکل بھی تیار نہیں ہوتاہے ۔
پاکستان کے بے بس اور مجبور عوام کو حکمرانوں کے خوش کن دعوؤں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، اور نہ اس بات سے کوئی غرض کہ بجلی کی فراہمی اور لوڈشیڈنگ کو مکمل ختم کرنے کے لیے کتنے منصوبے بنائے گئے یا کتنے نئے بجلی گھروں کی تعمیر شروع یا مکمل کی گئی، ان کے سامنے تو یہ تو یہ حقیقت ہے کہ لوڈ شیڈنگ عذاب بن گئی ہے ،بجلی کا بل ادا کرنا مشکل ترین ہوگیا ہے۔ معاشی اشاریے کیا کہہ رہے ہیں یا شرح نمو کتنی ہے، انھیںاس کا بھی پتہ نہیں، وہ تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے بچے ڈاکٹر، انجینئر بن کر بھی بے روزگار ہیں۔
ڈھنڈورا تو ہمیشہ یہ پیٹا جاتا ہے کہ جانے والی حکومت قوم پر بوجھ ڈال کر چلی گئی ۔اب یہ بیانیہ پٹ چکا ہے۔ عوام کواپنی موجودہ حکومت سے ماضی کی اس تکرار کی توقع نہیں تھی کیونکہ موجودہ حکمرانوں نے انتظامی اور معاشی شعبے میں مضبوط ٹیم کے حامل ہونے کے بلند بانگ دعوؤں کے بل بوتے پہ حق حکمرانی حاصل کیا تھا لیکن انھوں نے بھی روایت شکن ہونے کے بجائے روایت پرست ہونے کو ترجیح دی اور اپنی بد انتظامی کو گزشتہ حکومت کے کھاتے میں ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ان کے ا س استدلال کو دیکھتے ہوئے مجھے تو بالکل بھی یقین نہیں ہے کہ عوام کبھی سکھ کا سانس لے سکیں گے۔
ہماری تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ اپنے وعدوں سے مکر جانااہل سیاست کا وطیرہ رہا ہے۔ اسلام آباد نشین ہو کر حکمرانوں کی آنکھیں اور کان بند ہو جاتے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا کہ وہ تخت نشین ہو کر دوسروں کی آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے کے عادی ہوجاتے ہیں اور ان کو صرف وہی دکھایا جاتا ہے جو ان کی آنکھوں کو بھلا لگے اور کانوں میں رس گھولے۔
موجودہ حکومت نے اپنا تیسرا بجٹ پیش کر دیا ہے جس میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کی خوشخبری بھی سنائی گئی ہے۔ وزارت خزانہ کی کنجی اسد عمر کے بعد حفیظ شیخ سے ہوتی ہوئی حماد اظہر تک پہنچی ہی تھی کہ شوکت ترین نے حاصل کرلی جنھوں نے اپنے پیشروؤں کی تقلید کرتے ہوئے اعدادوشمار کا ایک نہ سمجھ آنے والا گورکھ دھندہ عوام کے سامنے رکھ دیا ہے ۔
عوام کے لیے ریاست کی جانب سے اگر کوئی خوشخبری ہو سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ ان کے گھر کا ماہانہ بجٹ ان کی آمدنی سے مطابقت رکھتا ہو لیکن بدقسمتی سے آج تک کوئی ایسا بجٹ نہیں بنایا جا سکاجو عوام کی توقعات اور ضروریات کو پورا کر سکے ۔ آٹا،دال، گوشت،سبزی، دودھ 'دہی' چینی، گھی، بجلی ، گیس جیسی بنیادی اشیائے ضروریہ کے نرخ ان کی پہنچ میں ہو ں۔
شوکت ترین نے یہ مژدہ بھی سنایا ہے کہ آئی ایم ایف کے مطالبے کے باوجود بجلی کے نرخوں اور انکم ٹیکس میں اضافے سے انکار کیا گیا ہے البتہ انھوںنے پٹرولیم لیوی کے متعلق مبہم بات کی اور کہا کہ ایران امریکا تعلقات میں بہتری سے تیل کی رسد میں اضافے اور قیمتوں میں کمی واقع ہو گی جس کے بعدحکومت پٹرولیم لیوی کی مد میں اضافہ کرے گی۔
لیوی کے نفاذ سے عوام کے بجائے حکومت فائدہ اٹھائے گی لیکن اگر امریکا ، ایران تعلقات سرد مہری کا شکار رہے تو پھر بجٹ اہداف کے حصول کی خاطر یہ خطرہ عوام کے سر پر منڈلا رہے گا کہ بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بڑھانا پڑیں گی۔ اس وقت عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اسمبلی میں جو میزانیہ شوکت ترین نے پڑھا، کیا وہ صرف کتابی باتیں تھیں؟
پاکستان میں مہنگائی کسی حد تک تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے مشروط ہے۔ تیل کی قیمت بڑھتے ہی مہنگائی بھی بڑھ جاتی ہے۔ توانائی اور اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں اضافہ مہنگائی کی بنیادی وجہ ہیں جو حکومت عوام کے روز مرہ استعمال کی مختلف اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کرلے، وہ مہنگائی کے مسئلے سے نمٹنے میں کامیاب ہو جاتی ہے لیکن ابھی تک ایسا کوئی کنٹرول نظر نہیں آرہا ۔
سال بھر کے بعد ملک کے اعلیٰ ایوان میں منتخب نمایندوں کی ہاہاکار اور شور و غل میںجو میزانیہ پڑھا جاتا ہے اس کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اورحقیقی بجٹ وہی ہوتا ہے ، جس کا سامنا عوام اشیاء ضروریہ خریدتے وقت کرتے ہیں یا یوٹیلٹی بلزاور بچوں کی اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی فیسیں ادا کرتے ہوئے کرتے ہیں۔
دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ ہمیں کوئی ایسا حکمران بھی نصیب ہو جو اپنے قول و فعل پر پورا اتر سکے اور عوام کی مشکلات کو سامنے رکھ کر اصلی اور حقیقی بجٹ بنا سکے۔کیک نہ سہی گندم کی سستی روٹی ہی مل جائے تو غنیمت ہے لیکن ہماری ایسی قسمت کہاں۔