وزیراعظم کا دلیرانہ مؤقف
ہمارے لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں پرورش پانے والے تمام خدشات اور وسوسات کا یقینا خاتمہ ہوگیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں ایک غیر ملکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکا یا کسی بھی غیر ملکی طاقت کو اپنی سرزمین پرکوئی سہولت یا اڈے نہ دینے کے جس واضح اور دوٹوک مؤقف کا اظہار کیا ہے ، اُس سے ہمارے لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں پرورش پانے والے تمام خدشات اور وسوسات کا یقینا خاتمہ ہوگیا ہے۔
ہمارے یہاں کافی دنوں سے مختلف حلقوں میں یہ خبریں گردش کررہی تھیں کہ غیر ملکی دباؤ پر کہیں ہماری یہ حکومت مجبور نہ پڑجائے اور ایک بار پھر وہی غلطی کر بیٹھے جو 2001 ء میں ہماری ایک غیر جمہوری حکومت نے کر ڈالی تھی اور جس کا خمیازہ ہمارے عوام دس پندرہ سالوں تک خود کش حملوں اور بم دھماکوں کی صورت میں بھگتتے رہے۔
دوسروں کی لڑائی میں اسٹرٹیجک پارٹنر بننے اور غیر ملکی افواج کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کے مطلق العنان فیصلے سے جو قومی نقصان ہمیں اٹھانا پڑا اُس کا ازالہ کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے۔ معصوم اور بے گناہ افراد کی جانوں کا نذرانہ دینے کے علاوہ بے تحاشہ مالی اور معاشی نقصان ہوا جس نے ہمیں اور ہمارے ملک کو باقی دنیا کے مقابلے میں کئی دہائی پیچھے کردیا۔
ہم ایک غیر محفوظ ملک تصورکیے جانے لگے ۔ دنیا کے لوگ یہاں آنے سے کترانے لگے تمام معاشی اور ثقافتی سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئیں۔ بزنس اور کاروبار بھی ختم ہونے لگا۔ غیر ملکی کھلاڑی تک یہاں آنے سے انکار کرنے لگے۔ کہنے کو یہ دس بارہ سال کا عرصہ تھا لیکن اُس کے اثرات ہماری معیشت پرآج بھی نمایاں ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے کسی دوسرے ملک کے خلاف جارحیت کے لیے اپنی زمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کر کے بائیس کروڑ افراد کے احساسات اور جذبات کی ترجمانی کی ہے ، وہ چاہتے تو امریکا کو اپنے یہاں اڈے بنانے کی اجازت دے کر یہ کہہ سکتے تھے کہ ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا، ہمیں چونکہ ابھی FATF کے فیصلوں کا انتظار ہے اور ہمیں گرے لسٹ سے باہر بھی آنا ہے ، ہماری معیشت کسی اقتصادی پابندیوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ہم حال ہی میں مشکلوں سے باہر نکلے ہیں۔ سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے ہماری معیشت ابھی سنبھلنے بھی نہیں پائی ہے۔
ہمیں آئی ایم ایف سے مزید امداد اور مالی سہولت درکار ہے۔ ہم اگر ایسا نہیں کرتے تو امریکا ہمیں پتھروں کے دور میں واپس بھیج سکتا ہے لیکن انھوں نے ایسا کرنے کے بجائے ایک دلیرانہ اور جرأت مندانہ فیصلہ کرکے قوم کے احساسات کی صحیح معنوں میں ترجمانی کی ہے۔
یہی ایک بڑا اور بنیادی فرق ہے جمہوری اور غیر جمہوری حکومت میں۔ ایک آئینی اور جمہوری حکومت کو قومی امورکے فیصلے کرتے ہوئے ہمیشہ اپنی قوم کے جذبات اور احساسات کا پتا ہوتا ہے ، وہ پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے ، جب کہ ایک شخصی اور غیر جمہوری حکومت خود کو عقل کل سمجھتی ہے۔وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتی اور شاید اِسی لیے عالمی طاقتوں کو ہمارے جیسے پسماندہ ملکوں میں غیر جمہوری حکومت ہی عزیز اور مطلوب ہوتی ہے۔ نائن الیون کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔
ایسا لگتا ہے یہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ اور پلانٹڈ تھا۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا تباہ کیا جانا اور پھر افغانستان میں چڑھائی کرنا یہ سب کچھ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہی تھا ، اگر ہمارے ملک میں اُس وقت ایک جمہوری حکومت ہوتی تو شاید اِس پرعمل درآمد یوں ممکن نہ ہوتا۔ اُس وقت اگر ہمارے یہاں کوئی سویلین حکومت ہوتی تو یہ معاملہ یقینا پارلیمنٹ کے سپرد کیا جاتا اور یوں بے دھڑک ہتھیار نہیں ڈالے جاتے۔
جنرل پرویز مشرف سے پہلے بھی ایک اور غیر سول حکومت کے زمانے میں ہم نے امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے یہ کہ کر افغان وار میں بھر پور حصہ لے ڈالا تھاکہ یہ ایک جہاد ہے اور یوں عالمی طاقتوں کی آپس کی لڑائی میں اپنے ملک اور قوم کو جھونک ڈالا تھا ، مگر عراق اور یمن کے خلاف جنگ میں جب ہم سے مدد مانگی گئی تو ہمارے فیصلے ایسے نہ تھے کیونکہ یہاں ایک جمہوری حکومت موجود تھی۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ عراق اور کویت کی لڑائی کے موقعہ پر میاں نوازشریف نے بڑی دانش مندی سے سفارتی سطح پر خود کو اُس میں ملوث ہونے سے الگ اور محفوظ رکھا۔ اِسی طرح یمن کے خلاف بھی جنگ میں جب ہم سے مدد مانگی گئی تو باوجود اس کے کہ شریف فیملی سے سعودی حکمرانوں کے تعلقات بہت دوستانہ اور اچھے تھے ہماری سویلین حکومت نے خود کو پارلیمنٹ کے فیصلوں کے تابع کر دیا ، جس کے بعد انھیں اپنے سعودی دوستوں سے بھی گرچہ ناراضی مول لینی پڑی لیکن انھوں نے اُس کی پرواہ نہ کی۔ ہم نے دیکھا کہ پارلیمنٹ کے فیصلوں نے ہمیں خود کو ایک نئے عذاب میں مبتلا ہونے سے بچا لیا۔
ہمارا جوہری پروگرام بھی سویلین حکومتوں ہی کا کارنامہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب اِس کے داغ بیل ڈالی تو ہمارا ملک کوئی اتنا طاقتور نہیں تھا کہ کسی عالمی طاقت کی مخالفت مول لے ، لیکن ہم نے دیکھا کہ بھارت کے ایٹمی تجربے کے فوراً بعد ہمارے ایک جمہوری حکمراں نے اپنے یہاں بھی اِس پر کام شروع کرنے کا نہ صرف عہد کیا بلکہ عمل بھی کرکے دکھا دیا۔
اِسی طرح 1998 میں میاں نوازشریف نے بل کلنٹن کے حکم کی خلاف ورزی کر کے جب ایٹمی تجربے کر ڈالے تو اُن کا پروانہ بھی اُسی وقت لکھ دیا گیا تھا۔ یہ سویلین اور جمہوری حکمرانوں کی خاصیت ہوا کرتی ہے کہ وہ عوام کی نظروں میں سرخرو ہونا چاہتے ہیں خواہ اُس کے نتائج کچھ بھی ہوں۔ ملک اور قوم کا مفاد سب سے زیادہ مقدم ہونا چاہیے۔ قومیں اپنے اُنہی محسنوں کو یاد رکھتی ہیں جو اُن کے اور ملک کے مفاد کی خاطر جان بھی دے دیتے ہیں۔