بجٹ اجلاس ایوان کے باہر ہنگامہ آرائی اتحادیوں نے اسپیکر کو ذمہ دار قرار دیدیا

اپوزیشن نے وزیراعلیٰ کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کرائے جانے پر عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔


رضا الرحمٰن June 23, 2021
اپوزیشن نے وزیراعلیٰ کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کرائے جانے پر عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بلوچستان کا مالی سال 2021-22ء کا بجٹ ہنگامہ آرائی اور اپوزیشن کی غیرموجودگی میں پیش کردیا گیا۔

بلوچستان کے بجٹ کا کل حجم 584.083 بلین ہے جس میں ترقیاتی مد میں 172.534بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 346.861 بلین روپے رکھے گئے ہیں بجٹ میں وفاقی و صوبائی اور دیگر ذرائع سے کل محاصل کا تخمینہ 1499.383ارب روپے ہے جبکہ 84.7 ارب روپے کا بجٹ میں خسارہ ظاہرکیا گیا۔

بلوچستان اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے سے قبل متحدہ اپوزیشن کے احتجاج کے باعث اسمبلی کے ارد گرد کے علاقوں کو مکمل سیل کردیا گیا تھا۔ جس پر متحدہ اپوزیشن مشتعل ہوگئی اور اس نے حکومت کو بجٹ پیش نہ کرنے دینے کے لئے اسمبلی گیٹ کو تالے لگا دیئے، اس دوران جب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اسمبلی آئے تو ہنگامہ آرائی ہوگئی۔

پولیس نے بکتر بند گاڑی کے ذریعے اسمبلی گیٹ کو توڑ دیا جس سے اپوزیشن کے دوارکان بابو رحیم مینگل اور مولانا عبدالواحد صدیقی زخمی ہوگئے۔ اسمبلی کے عقبی راستے سے جب وزیراعلیٰ جام کمال اندر داخل ہوئے تو اپوزیشن کے مشتعل ارکان اسمبلی نے پانی کی بوتلیں اور گملے وزیراعلیٰ اور ان کے ہمراہ وزراء و ارکان اسمبلی پر پھینکے جس کے باعث اسمبلی سیکرٹریٹ کے شیشے ٹوٹ گئے، بلوچستان اسمبلی کا بیرونی احاطہ میدان جنگ بن گیا، پولیس نے شیلنگ بھی کی ، اپوزیشن ارکان کو اسمبلی احاطے سے باہر تک محدود کردیا گیا۔

تاہم اس دوران اپوزیشن کی غیر موجودگی میں آئندہ مالی سال 2021-22ء کا بجٹ حکومت نے پیش کیا۔ بجٹ پیش ہونے کے بعد متحدہ اپوزیشن نے قریبی تھانے میں وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف ایف آئی درج کرانے کے لئے درخواست جمع کرا دی جبکہ حکومت کی طرف سے اپوزیشن کے 17ارکان کے خلاف سرکار کے کام میں مداخلت سمیت دیگر الزامات کے تحت باقاعدہ ایف آئی آر درج کر دی گئی ہے ۔

اپوزیشن نے وزیراعلیٰ کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کرائے جانے پر عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ اپوزیشن نے بجٹ اجلاس کا بائیکاٹ اور وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اپوزیشن ارکان اپنے خلاف ایف آئی آر کے اندراج پر اجتماعی گرفتاریاں دینے پولیس اسٹیشن بھی پہنچ گئے۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بجٹ اجلاس کے دوران ہنگامہ آرائی کے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ گالم گلوچ، توڑ پھوڑ اور بلیک میلنگ کرنے والوں سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہونگے۔ حکومت نے ہمیشہ اپوزیشن کے ساتھ رعایت برتی ہے ان کے مسائل سنے اور تجاویز کو اہمیت دی ہے، اپوزیشن نے جب بھی حکومت کے خلاف بات کی، اسے خندہ پیشانی سے سنا مگر اسکے باوجود اپوزیشن نے جو کچھ کیا وہ نامناسب تھا۔

وزیراعلیٰ جام کمال کا یہ بھی کہنا تھا کہ بجٹ عوام دوست ہے جس سے خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا جمہوری اقدار کی بات کرنے والی اپوزیشن آج یہ بھول گئی کہ یہ صوبے کا سب سے مقدس ایوان ہے جس میں خواتین کے ساتھ جو کچھ ہوا اور توڑ پھوڑ کی گئی وہ سب کے سامنے ہے۔

اس ایوان کو بہترین فورم قرار دینے والی اپوزیشن خود اس ایوان میں نہیں آئی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اپوزیشن نے صرف 10-8کروڑ روپے کی اسکیمات کے لئے یہ سب کچھ کیا۔ متحدہ اپوزیشن نے وزیراعلیٰ جام کمال کے ان سے متعلق تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حکومت کو اس رویے پر معاف نہیں کر سکتی ۔ حکومت کے 15ارکان وزیراعلیٰ جام کمال کے ساتھ نہیں ہیں۔

ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی ۔ ادھر جام حکومت کی بڑی اتحادی جماعت تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند نے صوبائی بجٹ میں ضلع کچھی کو نظر انداز کرنے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم کے احکامات کے باوجود صوبائی حکومت کی جانب سے مسلسل دوسرے سال بھی اسکلیجی ڈیم کا پی سی ون دانستہ طور پر تاخیر سے بھجوایا گیا ہے تاکہ وفاقی بجٹ میں شامل نہ ہو اسکے علاوہ ان کے حلقہ انتخاب کے بعض علاقوں مچھ سمیت اکثر میں شکست خوردہ عناصر کو ترقیاتی اسکیمات دی گئی ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان اسمبلی کی 70سالہ پارلیمانی تاریخ میں گزشتہ دنوں صوبائی بجٹ پیش ہونے کے دوران جو افسوسناک واقعہ پیش آیا اسکی مثال نہیں ملتی، بلوچستان کی پارلیمانی اور سیاسی روایات کی مثالیںدوسرے صوبوں میں دی جاتی تھیں لیکن اس مرتبہ ان روایات کو جس طرح سے پامال کیا گیا ہے اس سے جگ ہنسائی آج پورے ملک میں ہو رہی ہے۔ صوبے کے سیاسی حلقوں میں اس واقعہ پر سخت تنقید کی جا رہی ہے کہ بلوچستان کی شائستہ روایات تھیںکوئی کتنا ہی سیاسی اختلاف کیوں نہیں رکھتا ہو کسی بھی حد اور غصے کے باوجود کوئی ان روایات کو توڑنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔

بلوچستان کی ان روایات کی مثالیں دی جاتی تھیں لیکن اس ایک افسوسناک واقعہ نے ان روایات کو روند ڈالا ہے جبکہ اس وقت اسمبلی میں بلوچ و پشتون روایات کی پاسداری کرنے والے قبائلی و سیاسی عوامی نمائندے موجود ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں جو کچھ ہوا اس نے ایک نئی پارلیمانی تاریخ کو جنم دیا ہے جس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے تاہم ہمارے قبائلی و سیاسی اکابرین پریہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آئندہ ایسے واقعات کے تدارک کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کرتے رہیں تاکہ آئندہ روایات کے منافی اقدام نہ ہو اور ان عناصر کو بھی سامنے لائیں جو بلوچستان کی روایات ، رسم و رواج اور ثقافت کے منافی جا رہے ہیں اگر انہوں نے آج اپنی یہ ذمہ داری پوری نہ کی تو آنے والی نسلیں کسی کو معاف نہیں کریں گی۔

ان سیاسی مبصرین کے مطابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی نے اس افسوسناک صورتحال پر پارلیمانی لیڈرز کا ایک مشترکہ مشاورتی اجلاس بلایا لیکن اس اجلاس میں حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے ماسوائے تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر کے کسی نے بھی شرکت نہیں کی جبکہ اسی روز وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال سے انکی اتحادی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز نے ملاقات کی اور بلوچستان اسمبلی میں پیش آنے والے واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے صورتحال کی ذمہ داری اسپیکر پر عائد کر دی اور ان کے کردار پر تحفظات کا اظہار کیا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایوان کے کسٹوڈین کی جانب سے کمزوریاں سامنے آئیں، اتحادی جماعتوں نے اس لئے ان کی جانب سے بلائے گئے مشاورتی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ ایک خبر کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال سے ہونے والی اس ملاقات میں اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے پر بھی مشاورت کی گئی جس پر وزیراعلیٰ جام کمال نے انہیں یہ یقین دلایا ہے کہ اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کا تعلق ان کی جماعت سے ہے اس لئے اس معاملے کو وہ اپنی جماعت میں لیکر جائیں گے جس کے بعد ہی کوئی فیصلہ لیا جا سکتا ہے ۔

سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان کے دو کلیدی عہدوں پر تحریک عدم اعتماد کی باتوں کے باعث سیاسی ماحول میں یکدم گرمی پیدا ہوگئی ہے اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو نے بجٹ اجلاس کے دوران پیش آنے والے واقعے کے حوالے سے ان پر ذمہ داری عائد کرنے کے حکومتی و اتحادی جماعتوں کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ افسوسناک واقعہ روایات کے منافی ہے، ذمہ دار وں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

احتجاج سے قبل حکومت یا اپوزیشن نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ اس تمام واقعہ میں وہ فریق نہیں ، ایوان کے کسٹوڈین کی حیثیت سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ساتھ لیکر چلنا انکی ذمہ داری ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو اس سے قبل وزیراعلیٰ، صوبائی وزیر اور اسپیکر و ڈپٹی اسپیکرکے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور اختلافات کے باعث 2016 میں جب وہ ڈپٹی اسپیکر ہوتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ و اسپیکر میر جان جمالی کی جگہ پر 8 ماہ کے لئے اسپیکر کے عہدے پر فائز تھے تو انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا اور اب بھی ان کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے اگر ان کی جماعت کے سربراہ جام کمال کو ان پر اعتماد نہ رہا تو انہیں استعفیٰ کے لئے کہیں وہ انکار نہیں کریں گے اور اسپیکر کے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔