عوام پر ٹیکس لگا کر رعایتیں واپس
تنخواہ دار طبقات کے میڈیکل اخراجات مختلف الاؤنسز اور ان کی بچتوں اور پراویڈنٹ پنشن فنڈز پر ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں خاموشی کے ساتھ تنخواہ دار طبقات پر 10ارب روپے کے ٹیکس کا اضافی بوجھ لاد دیا ہے جب کہ اسٹاک ایکسچینج کمپنیوں کو بھاری منافع کمانے کے باوجود کیپٹل گین ٹیکس کی مد میں 2 ارب روپے کا ریلیف دیا گیا ہے۔
تنخواہ دار طبقات کے میڈیکل اخراجات مختلف الاؤنسز اور ان کی بچتوں اور پراویڈنٹ پنشن فنڈز پر ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔ تنخواہ دار طبقات اضافی ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کے لیے مالی بل 2021 سے انکم ٹیکس آرڈیننس کے شیڈول دوم سے کم ازکم 6شقوں کو ختم کردیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے ایف بی آرکو بجٹ تجاویز پر نظرثانی کے لیے کہا ہے ، تاہم بقول وزیر خزانہ آئی ایم ایف کے مطالبات ماننے سے انکارکردیا ہے۔ حکومت نے بجٹ میں موبائل فون کالوں اور انٹرنیٹ ڈیٹا پر لگائے گئے 100 ارب روپے کے ٹیکس واپس لینے کا بھی اعلان کرچکی ہے۔
مالی بل 2021 سے پتا چلتا ہے کہ حکومت نے تنخواہ دار طبقات کو میڈیکل اخراجات کی ادائیگی سے متعلق آرڈیننس کی شق 139 کو ختم کردیا ہے۔ ایسا 1.82 ارب روپے کی اضافی وصولیوں کے لیے کیا گیا ہے۔ یہ رقم 12 ارب روپے اس نقصان سے کم ہے جو حکومت نے اسٹاک مارکیٹ کی سیکیورٹیز پر کیپٹل گین ٹیکس کو دے کر کیا ہے۔ نئے بجٹ میں ایسی کمپنیاں جو بھاری منافع کما رہی ہیں کے لیے کیپٹل گین ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کرکے ساڑھے بارہ فیصد کردی گئی ہے۔
مالی بل سے شق 139 ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت تنخواہ دار طبقات کو میڈیکل اخراجات کی ادائیگی یا اسپیشلائزیشن کی سہولت ختم کرنے جا رہی ہے۔ ہارٹ سرجری جیسے مہنگے علاج کی سہولیات واپس لینے کا مطلب ہوگا کہ حکومت نے تنخواہ دار طبقات پر ٹیکس کا بوجھ 57 فیصد بڑھا دیا ہے۔
حکومت نے مالی سال کے 183 یا اس سے زائد دنوں تک سمندروں میں رہنے والے یا بحری جہازوں میں کام کرنے والے پاکستانیوں سے بھی ٹیکس چھوٹ کی سہولت واپس لے لی ہے۔ اس سے حکومت کو 67 ملین روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوگا۔ اس کا مقصد بھی تنخواہ دار طبقات سے 7 ارب روپے اضافی نکالنا ہے۔
حکومت نے 5لاکھ روپے سے زیادہ کے پراویڈنٹ فنڈز پر بھی 10فیصد ٹیکس عائد کردیا ہے۔ قرضے پر 5 لاکھ روپے سے زیادہ منافع پر بھی 10فیصد کے حساب سے ٹیکس لگے گا۔ حکومت نے پنشن فنڈ پر ٹیکس لگانے کے لیے سیکنڈ شیڈول کی شق 23C بھی ترمیم کی تجویز کی گئی ہے جس کا مقصد 148 ملین اضافی ریونیو اکٹھا کرنا ہے۔ پنشن فنڈ کے قرضے سے حاصل ہونے والے منافع پر بھی 10 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
تنخواہ دار طبقات سے ایک ارب روپے اضافی وصول کرنے کے لیے بجٹ میں سیکنڈ شیڈول کی شق 139 بھی ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ جس کا تعلق ملازمین کے اسپیشل الاؤنس سے ہے۔ اس میں ملازمین کے تفریحی اور کنوینر الاؤنس شامل نہیں۔ کسی اخباری ملازم کو نیوز پیپر ایمپلائیز ایکٹ 1973 کے تیسرے ویج بورڈ کے تحت ملنے والے مقامی مسافرت الاؤنس پر بھی ٹیکس عائد ہوگا۔
حکومت نے ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس ملازمین کو دوران ڈیوٹی دیے جانے والے مفت یا رعایتی کھانے کی سہولت کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے شق 53A کو ختم کردیا ہے۔ اس کے بعد تعلیمی اداروں کے ملازمین کو فیسوں اور اسپتالوں میں کام کرنے والے ملازمین کو مفت یا رعایتی علاج کی سہولت پر بھی ٹیکس دینا پڑے گا۔ اس سے حکومت اضافی 135 ملین ریونیو اکٹھا کرنا چاہتی ہے۔
آیندہ بجٹ میں فلورنگ انڈسٹری پر عائد 3 ٹیکسوں میں اضافے کی تجویز دی گئی ہے جن کے نفاذ کی صورت میں 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 97 روپے تک اضافے کا خدشہ ہے۔ فلور ملز کی سالانہ آمدن پر عائد ٹرن اوور ٹیکس میں دی گئی ایک فیصد کی رعایت ختم کردی گئی جب کہ چوکر کی فروخت پر عائد سیلز ٹیکس میں 10 فیصد اور آٹے کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والی مشنری کی امپورٹ پر عائد سیلز ٹیکس میں 7 فیصد اضافہ کردیا گیا ہے۔
ٹرن اوور ٹیکس بڑھنے سے تھیلا 30 روپے جب کہ چوکر پر سیلز ٹیکس بڑھنے سے تھیلا 67 روپے تک مہنگا ہونے کا خدشہ ہے۔ فلور ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین نے ٹیکس میں اضافے کو ایف بی آر کی غلطی قرار دیتے ہوئے ٹیکسز کی موجودہ شرح کو برقرار رکھنے کی درخواست کی ہے۔ ایسوسی ایشن کی جانب سے وزیر خزانہ کو ایک خط میں کہا ہے کہ فلورنگ انڈسٹری پر عائد ٹرن اوور ٹیکس کو شیڈول کی سب سے کم شرح میں شامل رکھا گیا ہے جس کے تحت ملز پر 0.25 فیصد ٹرن اوور ٹیکس لاگو ہے۔
آیندہ مالی سال کے فنانس بل میں فلور ملز کو کم تر بل شرح والے شیڈول سے خارج کردیا گیا اور اب ان پر 1.25 فیصد ٹرن اوور ٹیکس لاگو ہوگا جس کے باعث یکم جولائی سے تھیلے کی قیمت 30 روپے بڑھ سکتی ہے۔ ملز ایسوسی ایشن کے نمایندے نے بتایا کہ آٹے کی تیاری، استعمال ہونے والی مشنری کی امپورٹ پر سیلز ٹیکس کی موجودہ رعایتی شرح 10 فیصد ہے جسے آیندہ مالی سال میں 17 فیصد کیا جا رہا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں بڑی تعداد میں نئی فلور ملز قائم کی جا رہی ہیں۔
راقم الحروف نے بجٹ پیش ہونے سے قبل ہی دو مضامین لکھے جن میں دلیل اور ثبوت کے ساتھ بتایا گیا تھا کہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، درآمداتوں پر بالواسطہ یا ڈائریکٹ ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے بلکہ عوام کی ضروریات زندگی کی اشیا جہاں پیدا ہوتی ہیں ان پر وہاں ٹیکس لگایا جائے گا اور پھر وہ پیداواری اجناس کی قیمتوں میں اضافہ کریں گے، پھر یہ اضافہ آگے بڑھتے بڑھتے عوام کے ہی سر پر گرے گا۔ اسی طرح سے عوام نے جدوجہد کرکے جو سبسڈیز یا رعایتیں حاصل کی تھیں انھیں بتدریج ان سے واپس لیا جا رہا ہے اور یہ کام پاکستان سمیت دنیا بھر میں جاری ہے۔
پاکستان چونکہ قرضوں پر ہی گزارا کرتا ہے اس لیے یہاں عوام پر پڑنے والی مصیبت سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں دودھ پروڈکٹ مکھن، پنیر، مایونیز، دہی وغیرہ کی پیداوار پر ٹیکس عائد کردیا ہے جس کے نتیجے میں بچوں کی خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا جب کہ وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات میں 18 کروڑ40 لاکھ روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ وزیر اعظم ہاؤس کے لوگوں کے بچے ڈیری پروڈکٹس سستی قیمت میں خریدیں اور عوام کے بچے مہنگی۔ مگر اب وہ دن دور نہیں جب یہ طبقاتی نظام نیست و نابود ہوگا تو طبقاتی استحصال اور رجعت پسندی کا بھی خاتمہ ہوگا۔