بلدیاتی ایڈمنسٹریٹرز ترجیح کیوں
ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی اداروں میں سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کی تعیناتی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ بلدیاتی اداروں میں ایڈمنسٹریٹروں کی تعیناتی سے ان اداروں میں بہتری آنا شروع ہوئی۔ بدقسمتی سے کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن اور ڈی ایم سیز ایک طویل عرصے سے بد انتظامی اور وسائل پیدا نہ کرنے کے مسائل کا شکار ہیں اور ان کے منتخب نمایندے صحیح سمت میں ترقی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ہماری حکومت ہر سطح پر عوام کے منتخب نمایندوں کے انتخاب پر یقین رکھتی ہے اور لوکل کونسلیں بھی اسی سوچ کے دائرے میں آتی ہیں۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی اداروں میں سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کی تعیناتی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ کا یہ بیان پیپلز پارٹی کی حکومت کے دہرے معیار اور تضادات کا مکمل ثبوت ہے ، جس میں وہ بلدیاتی نمایندوں کی اہمیت بھی تسلیم کرتے ہیں اور منتخب بلدیاتی کونسلوں پر سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کو ترجیح دے رہے ہیں اور بلدیاتی منتخب نمایندوں کے بجائے ایڈمنسٹریٹروں کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے یہ غلط دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ ایڈمنسٹریٹروں کی تعیناتی سے بہتری آئی ہے جب کہ عوامی حلقوں اور میڈیا کے مطابق گزشتہ دس ماہ میں سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے شہری اور بلدیاتی مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور عوام کا بلدیاتی اداروں سے رابطہ ختم ہوکر رہ گیا ہے۔
سندھ حکومت نے گزشتہ سال منتخب بلدیاتی اداروں کی مدت مکمل ہونے کے بعد اضلاع میں متعلقہ ڈپٹی کمشنروں کو بلدیاتی ایڈمنسٹریٹر مقررکیا تھا اور صوبے کے چھوٹے بلدیاتی اداروں پر بھی اسسٹنٹ کمشنرکو مقرر کیا تھا اور دس ماہ سے بلدیاتی اداروں کا چارج کمشنری نظام کے ایسے لوگوں کے پاس ہے جن کا عوام سے تعلق برائے نام ہی ہوتا ہے۔ یہ لوگ، عوام سے دور رہنے کے عادی اور خود کو اپنے اضلاع کا بادشاہ سمجھ کر خدمت کے بجائے عوام پر حکومت کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
اقتدار اور اختیارات کی ہوس میں مبتلا شاہانہ مزاج رکھنے والے ان افسروں سے عوام کا بہت ہی کم واسطہ پڑتا ہے کیونکہ ان کے معاملات انتظامی، ریونیو وصولی، ڈومیسائل اور پی آر سی بنانا بھی شامل ہے۔ یہ لوگ عوام ہی نہیں بلکہ عوام کے قریب رہ کر ان کے مسائل کی نشاندہی کرنے والے میڈیا سے بھی بہت کم ملتے ہیں اور یہ افسر حقائق پر خوشامد اور ذاتی تعریف کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس کا ثبوت ملک کے سب سے بڑے بلدیاتی ادارے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ایک ایڈمنسٹریٹر کی تعیناتی سے ملتا ہے جو طویل عرصہ کمشنر کراچی کے عہدے پر تعینات رہے اور دو سال میں اپنے ہی مقرر کردہ دودھ کے سرکاری نرخ پر عمل نہ کراسکے اور کراچی والے ان کے دور میں بے شمار مسائل کا سامنا کرتے رہے مگر کمشنر کراچی کو کبھی اپنے عوام کی فکر نہیں ہوئی۔ حکومت نے انھیں کمشنری سے ہٹا کر کے ایم سی کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا اور بلدیاتی معاملات پر جب انھوں نے ایک پریس کانفرنس منعقد کی تو وہ خود کو ایڈمنسٹریٹر کے بجائے کمشنر ہی سمجھتے رہے۔
جب صحافیوں نے انھیں شہر کی حالت زار بتا کر کچھ پوچھنا چاہا تو وہ غصے میں آگئے اور صحافیوں کے سوال کے جواب میں کہا کہ میں جواب دینے کا پابند نہیں ہوں اور اٹھ کر چلے گئے تھے۔
یہی حال صوبے میں ڈپٹی کمشنروں کا ہے جن کے پاس بلدیاتی اداروں کے ایڈمنسٹریٹروں کا اضافی چارج ہے۔ کبھی کسی بھی وزیر اعلیٰ اور وزیر بلدیات نے شہری مسائل پر میڈیا کو جواب دینے سے انکار نہیں کیا اور حکومت سندھ نے ایسے افسروں کو بلدیاتی ایڈمنسٹریٹر مقررکر رکھا ہے جو بلدیاتی معاملات بھی اپنے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں بیٹھ کر نمٹاتے ہیں اور شاذ و نادر ہی بلدیاتی دفتر آتے ہیں۔
تمام صوبائی ارکان اسمبلی اور سندھ کے حکمران نام جمہوریت کا لیتے ہیں اور خوشامد اور تعریفیں بیورو کریسی کی کرتے ہیں اور نچلی سطح پر منتخب بلدیاتی نمایندوں پر سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کو ترجیح دے کر ان کی نام نہاد کارکردگی کو سراہتے ہیں کیونکہ بیورو کریٹ عوام کے مفاد پر ان کی خواہشات کو ترجیح دیتے ہیں اور ان کے من مانے احکامات ان کی خوشنودی کے لیے مان لیتے ہیں جب کہ عوام کے منتخب نمایندے اسی لیے ان کی خواہشات پر اپنے ووٹروں کے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔
حکومت لاکھوں روپے رشوت لے کر ایڈمنسٹریٹروں کے تقرر و تبادلے کرتی ہے اور ڈپٹی کمشنرز سیاسی احکامات خواہ وہ غیر قانونی ہی ہوں فوراً تسلیم کرکے عوامی مفاد نظرانداز کردیتے ہیں۔ ریاستی اداروں پر مسلط کیے گئے ایڈمنسٹریٹروں کی کارکردگی تو ہے ہی نہیں جو حکومت سندھ کو نظر آتی ہے۔ ان کی نااہلی تو میڈیا میں عیاں ہے۔