حالات و واقعات کا ایک جائزہ

خدا کرے دہلی جانے والے مقبوضہ کشمیر کے سیاسی رہنما بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی حکومت کے بچھائے جال میں نہ آئیں۔


عبد الحمید June 25, 2021
[email protected]

گیارہ جون سے سترہ جون تک امریکی صدر جو بائیڈن یورپ میں رہے اور چند شہر ان کی سفارتی سرگرمیوں کا مرکز بنے رہے۔گیارہ سے تیرہ جون تک وہ برطانیہ کے دورے پر تھے جہاں انھوں نے CornwallمیںG-7 ممالک کے47 ویں سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔ اس اجلاس میں امریکا کے علاوہ کینیڈا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور یورپی یونین کے لیڈروں نے شرکت کی۔

آسٹریلیا، جنوبی کوریا، جنوبی افریقہ اور بھارت کو بھی شامل کر لیا گیا۔ G-7ممالک کے سربراہوں نے کووڈ 19وبا سے موثر طریقے سے نبٹنے اور اس سے متاثرہ معیشتوں کو دوبارہ سے بحال کرنے کے ساتھ ساتھ شرحِ نمو یعنی گروتھ کو بڑھاوا دینے ،مزید نوکریاں پیدا کرنے، انفرااسٹرکچر میں انوسٹمنٹ، ،گلوبل ٹیکس کے نظام کے ذریعے عالمی سطح پر آزادانہ تجارت،سبز انقلاب کے ذریعے کرۂ ارض کی نگہداشت اور زمین کے مجموعی درجہء حرارت میں 1.5ڈگری سے زیادہ اضافہ نہ ہونے دینے کے عزم کا اظہار کیا۔

ان ممالک نے اپنے طور پر یہ تاثر دیاکہ ان ممالک میں مکمل جمہوریت ہے۔یہ معاشرے آزاد دنیاکے نمایندہ معاشرے ہیں جہاں پر ہر ایک کو اپنی بات کہنے کی مکمل آزادی ہے،جہاں پرکسی کے ساتھ کوئی امتیازی اور ناروا سلوک روا رکھا نہیں جاتا۔ مضبوط معیشتوں والے ان ممالک نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ دنیا بھر کے دوسرے ممالک کے ساتھ روابط کو مضبوط بنایا جائے گا،اس سلسلے میںIMF کے ذریعے افریقی ممالک کو خصوصی طور پر ترقیاتی امداد دی جائے گی۔ افریقہ آج کل امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے دل کے بہت قریب ہے۔

صدیوں تک افریقہ کو لُوٹنے، غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے اور استحصال کرنے کے بعد ان ممالک کو ڈر ہے کہ افریقہ ان کے ہاتھ سے نکل نہ جائے، اس لیے بظاہر محبت جتا کر استحصال جاری رکھنے کی زبردست کوشش کی جا رہی ہے۔

امریکی قومی سلامتی مشیر جیک سیلوون نے میٹنگ کے بعد بتایا کہ امریکی صدر یہ چاہتے ہیں کہ امریکا اور مغربی ممالک کو ابھی اس وقت چین کی ابھرتی قوت کو روکنے کی اشد ضرورت ہے۔ ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔اس لیے چینی معاشی Initiative کے مقابلے میں اخراجات کا ایک بڑا پلان ترتیب دیا جا رہا ہے تاکہ چینی اثرو رسوخ کے آگے بند باندھا جا سکے۔

لندن میں چینی سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ دن گئے جب چند طاقتور ملکوں کا ایک چھوٹا سا گروہ تمام دنیا پر اپنے فیصلے تھونپتا تھا۔ اب تمام ممالک برابر ہیں کوئی چھوٹا یا بڑا ملک نہیں۔اس سربراہی اجلاس کے اعلامیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ G-7ممالک نے چین پر بوجوہ بھارت کو ترجیح دی ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ چینی گڑیا کے مقابلے میں ہندی دوشیزہ زیادہ بھا گئی ہے۔

کارنوال برطانیہ سے جو بائیڈن بلجیم اور یورپی یونین کے صدر مقام برسلز پہنچے جہاں انھوں نے نیٹو سربراہی کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کانفرنس میں بھی چینی فوجی خطرے کی وارننگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ دنیا کو چین کے منفی رویہ اور Systemic Challengeکا سامنا ہے۔نیٹو سربراہی اجلاس میں اس بات کی بازگشت سنائی دی کہ چین کا اپنی افواج کو جدید خطوط پر استوار کرنا،جدید اور بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا موجب بننے والے اسلحے سے لیس کرنا اور سب سے بڑھ کر روس سے الحاق آزاد دنیا کے لیے خطرات پیدا کر رہا ہے۔

G-7 اور نیٹو اجلاس کی کاروائی سے معلوم ہوتا ہے کہ چین ان کے اعصاب پر سوار ہے البتہ نیٹو اجلاس کے اختتام پر اس بات کا عندیہ دیا گیا کہ نیٹو اتحاد کسی طرح بھی چین کے ساتھ ایک نئی سرد جنگ کا متمنی نہیں ہے۔ اجلاس کی ایک اور خاص بات،اجلاس کی سائڈ لائن پر امریکی اور ترکی صدور کی اہم ملاقات تھی جس میں افغانستان کے اوپر دونوں میں ہم آہنگی تھی کیونکہ یہاں ترکی،امریکا کی مدد کرنے کا خواہاں تھا لیکنS-400روسی میزائل پر اختلافات ختم نہ ہو سکے۔

ترکی نے جب سے ان میزائلوں کو خریدنے کا عندیہ دیا ہے۔ ترکی اور امریکا کے درمیان خاصی کشیدگی ہے یہاں تک کہ امریکا نے ترکی کو F-35 ُپروگرام سے نکال کر کچھ پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔ بہرحال دونوں رہنمائوں کے درمیان یہ ملاقات خاصی گرمجوشی لیے ہوئے تھی۔

16جون2021کو جنیوا سوئٹزرلینڈ میں جو بائیڈن اور پیوٹن کے درمیان ملاقات ہوئی۔یہ ملاقات امریکی صدر کی تجویز کردہ تھی۔امریکی این ایس اے جیک سلیون نے ملاقات کے موقعے پر بتایا کہ امریکی صدر،روسی صدر پیوٹن کو امریکی نقطہ نظر اور امریکی قابلیت سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔روسی صدر پیوٹن نے ملاقات کے بعد کھل کر جو بائیڈن کی تعریف کی۔

روسی صدر کے لیے یہ ملاقات اُن کے امیج کو بہتر بنانے اور قد کاٹھ میں اضافے کا باعث تھا کیونکہ بائیڈن اپنے آپ کو آزاد دنیا کا لیڈر ٹھہراتے ہیں جب کہ روسی صدر کو ایک ڈکٹیٹر بنا کرپیش کیا جا تا ہے، ایسے میں دونوں کی ملاقات روسی صدر کی کامیابی ہی ہے۔ البتہ ملاقات سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی جانب پیش قدمی نظر نہیں آئی۔

18جون کو13ویں ایرانی صدارتی انتخابات، ایرانی وزارتِ داخلہ کی نگرانی میں منعقد ہوئے۔ آخر میں کُل چار امیدوار میدان میں رہ گئے تھے۔ امیدواروں کے درمیان ٹی وی چینلوں پر خاصا بحث مباحثہ ہوتا رہا جس میں تین ایشوز ،ایران میں روز بروز بڑھتی کرپشن، بے روزگاری اور ایرانی نیوکلر پروگرام پر گرما گرم بحث ہوئی۔ توقعات کے عین مطابق چیف جسٹس ایران ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی صدر منتخب ہو گئے۔آقائے رئیسی کی نقل و حرکت پر امریکا نے پابندیاں لگا رکھی ہیں۔

ایران کے نو منتخب صدر 1960میں مشہد میں پیدا ہوئے۔تعلیم قم سے حاصل کی جہاں اور اساتذہ کے علاوہ آیت اﷲ مرتضیٰ مطہری سے بھی فیض یاب ہوئے۔ 1980میں جج بنے اور 2019میں چیف جسٹس ایران بن گئے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ جمیلہ نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ ایران میں اصل اقتدار سپریم لیڈر کے پاس ہے۔

قارئین کرام ! افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کا انخلا ہو رہا ہے، غالب امکان ہے کہ یہ انخلا ستمبر تک مکمل ہو جائے گا۔افغان طالبان نے کوئی پچاس اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے اور تاجکستان سے ملنے والی سرحدی چوکیوں پر کنٹرول حاصل کر کے شاہراہ بھی اپنے قبضے میں لے لی ہے۔طالبان کی بڑھتی پیش قدمی سے ان کے مخالفین میں سراسیمگی کا عالم ہے۔ خدا کرے افغانستان میں امن ہو۔

مودی حکومت کے 5اگست2019کے کشمیر سے متعلق اقدامات سے بھی پہلے نومبر2018 سے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی اسمبلی کو تحلیل کر کے گورنر راج لگا دیا گیا تھا۔گورنر راج کو لا متناعی نہیں چلایا جا سکتا اس لیے ریاستی اسمبلی کے انتخابات کی راہ ہموار کرنے اور دنیا کے سامنے کشمیر میں بالکل نارمل حالات کا تاثر دینے کے لیے وزیرِاعظم مودی نے جمعرات24 جون ایک کانفرنس بلائی ہے جس میں کئی کشمیری رہنمائوں کو مدعو کیا گیا ہے۔

ہمارے ہاں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ شاید ہمارے دبائو کی وجہ سے اگست 2019 کے اقدامات کو واپس لینے کے لیے یہ کانفرنس ہے۔ اﷲ کرے کہ ایسا ہو لیکن غالب امکان یہ ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہونے جا رہا بلکہ اس سال دسمبر یا اگلے سال مارچ میں انتخابات کا ڈھونگ رچانے کے لیے فضاسازگار بنانے کی کوشش ہے۔خدا کرے دہلی جانے والے مقبوضہ کشمیر کے سیاسی رہنما بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی حکومت کے بچھائے جال میں نہ آئیں، ورنہ کشمیری جد و جہد کو بہت نقصان پہنچے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں