عورت نے جنم دیا مردوں کو…
اس ملک کی پسماندگی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ ملک بھرپور معاشی طاقت تب بنے گا جب ہماری عورت ان شکنجوں سے آزاد ہوگی۔
ہمارے جناح!بمبئی کے انگریز گورنر کے عشائیہ میں مدعو تھے، ان کی اہلیہ رتنا کے لباس کے حوالے سے اعتراض ہوا تو جناح سخت برہم ہوئے اور دعوت ادھوری چھوڑ کر چلے آئے کیوں کہ ان کا یہ ماننا تھا کہ یہ فیصلہ رتنا خود کریں گی کہ اس نے کیا پہننا ہے اور کیا نہیں۔
بیوی کے انتقال کے بعد طویل مدت تک جناح نے بغیر شادی کے گزاری ، ریاست اور پارٹی کی ذمے داریاں جب بڑھیں تو اپنی بہن فاطمہ جناح کے ساتھ ہر پروگرام میں جاتے تاکہ یہ احساس ہمیشہ رہے کہ عورت اس مملکت خداداد کی اتنی ہی برابر کی شہری ہے جتنا کہ ایک مرد ہے۔ لیاقت علی خان بھی اسی طرح اپنی بیگم رعنا لیاقت علی خان صاحبہ کا ہاتھ تھامے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے۔
جناح اور لیاقت علی خان کے بعد یہ خوبصورت روایت بھٹو نے قائم کی۔ بیگم نصرت بھٹو ہر محفل میں ہر جگہ ان کے ساتھ ہوا کرتی تھیں۔ شملہ (انڈیا) گئے تو بینظیر کو اپنے ساتھ لے گئے تاکہ ان کی سیاسی ٹریننگ ہو۔ یہ روایت آصف زرداری نے بھی نبھائی اور میاں نواز شریف نے بھی۔ زیادہ نہ صحیح مگر آمریتوں کے ادوار میں ایک ڈکٹیٹر رہا جن کی اہلیہ ان کے ہمراہ پبلک پروگراموں میں دیکھی جاتی تھیں، وہ جنرل پرویز مشرف تھے۔ اس سارے توازن میں بگاڑ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا۔
بگڑتے بگڑتے ہم اب اس مقام پر کھڑے ہیں کہ دنیا کے آزاد تحقیق کرتے ادارے عورتوں کی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کے حوالے سے دنیا کے لیے جب ایک انڈیکس بناتے ہیں تو پاکستان چند بدترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔
لاہور موٹر وے پر ایک عورت نے اپنے بچوں کے ساتھ دیر رات میں خود ڈرائیونگ کرنے کی جرأت کی اور جب اس کی گاڑی بیچ راستہ پر کسی بھی وجہ سے رک گئی اور جو اس کے ساتھ وحشی عمل کیا گیا تو اس دور حکومت کے ذمے دار اعلیٰ پولیس آفیسر نے یہ کہا کہ عورت جب رات کو اکیلی نکلے گی تو ایسا تو ہوگا!
حال ہی میں خان صاحب نے بھی کسی باہر کے ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جب ایک عورت کم کپڑے اوڑھے گی تو ایسا تو ہوگا! دوسری طرف ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ فرانس نے مسلمان عورتوں کے نقاب کرنے پر پابندی لگا دی، یہ کہہ کر کہ یہ ان کی ثقافت کے برعکس ہے۔ جب کہ انگلستان سے لے کر بہت سے غیر ممالک نے ایسا کوئی اصول نہیں اپنایا یہ جانتے ہوئے کہ یہ ہر ایک بنی نوع انسان کا فریڈم ہے اور انسانی آزادی کے بنیادی حقوق کے مطابق ہے۔ سکھ وہاں پگڑی پہنتے ہیں ، کسی کو برا نہیں لگتا۔
غرض یہ کہ ہر ثقافت یا مذہب کے اعتبار سے جو انسان جہاں کا شہری ہے جو وہ چاہے کرے، وہ اپنے ذاتی فعل میں آزاد ہے اگر کسی اور کی ذات کو کوئی نقصان نہ پہنچتا ہو۔ اور یہ ذمے داری ریاست کی ہے کہ ان کے ذاتی رویوں کو تحفظ فراہم کرے۔
ہمارے خان صاحب نے تو جو جملہ ترتیب دیا کہ ''اگر ایسا کروگے تو ایسا ہوگا'' اس میں دوسری جانب اجازت دی گئی ہے کہ وہ اگر کوئی عورت بغیر آستینوں والی قمیص پہنے نظر آ جائے یا پھر اس کے لباس میں اگر کہیں ذرا سا عریانی کا عنصر ہو تو وہ شہوت کو دماغ پر سوار کر دیتی ہے اور اس کی ذمے دار خود عورت ہے اور اسی نے ایسا لباس پہن کر اس انسان کو اس حالت تک پہنچانے پر مجبور کیا۔
خان صاحب کی سوچ بدلی، آپ اس سوچ کے قریب ہوئے جو جنرل ضیاء الحق کی تھی۔ ہماری مہتاب راشدی صاحبہ پی ٹی وی میں جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں بہت مقبول پروگرام کی اینکر پرسن تھیں۔ اس پروگرام کے دوران یا ویسے بھی اپنی نجی زندگی میں وہ سر پر دوپٹہ نہیں لیتی تھیں۔
جب مہتاب راشدی کا یہ پروگرام جنرل ضیاء الحق کی نظر سے گزرا تو انھوں نے یہ حکم صادر فرما دیا کہ مہتاب راشدی پر یہ لازم کیا جائے کہ اس پروگرام میں وہ سر پر دوپٹہ لیں۔ مہتاب راشدی نے وہ پروگرام کرنے سے انکار کر دیا اور اسی طرح انھوں نے ایک عورت کی آزاد سوچ اور آزاد حیثیت کو ترجیح دی ۔ وہ سر پر دوپٹہ پہنے اس کی مرضی ، وہ سر پر دوپٹہ نہ پہنے وہ بھی اس کی مرضی۔
امریکا کے سماج میں دو بڑ ی سماجی جنگیں ہوئیں ۔ایک جنگ نے خانہ جنگی کی شکل اختیار کی، وہ تھی سیاہ فام امریکی شہریوں کی برابری کے حقوق کی جنگ اور دوسری بڑی شعوری، سیاسی و سماجی جنگ تھی عورت کی آزادی، مرد کے برابر کی حیثیت کی جنگ ۔ یہ جنگ اب تک وہاں جاری ہے۔ باوجود اس کے کہ وہاں عورت نے بہت آزادی پائی ہے۔ لیکن امریکا اب بھی مردوں کی بالا دستی کا سماج ہے ۔ یہ جنگ ہندوستان ہو یا کوئی اور ملک اپنے نشیب و فراز سے گزر رہی ہے۔ حقوق نسواں کی یہ جنگ میرے وطن عزیز میں بھی جاری ہے۔ یہاں کچھ تیز بھی ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے کم از کم عورتوں کا عالمی دن اب بھرپور انداز میں منایا جاتا ہے۔
جب تعلیم پھیلے گی ، شعور پیدا ہوگا اور جب شعور پیدا ہوگا تو دنیا سمٹ کر ایک ہوگی اور یقینا ایک ہوگی، ہمارا سماج، سماجی اقدار ٹوٹیں گے۔ عورتوں کی طرف سے احتجاج بڑھیں گے اپنے حقوق کے لیے صرف یہاں نہیں بلکہ ہر سماج کی ارتقاء میں ایسا ہوا ہے۔ یوں کہیے کہ یہ ارتقاء کا زینہ ہے۔ یہ ہمارا زاویہ ہے عورت کو دیکھنے کا۔ اس میں قصور عورت کا نہیں ہمارا ہے۔ عورت کی وراثت کے حقوق غصب کرنا، اگر ایک عورت مردوں کے ساتھ دفتر میں کام کرتی ہے تو بد نظر سے دیکھنا، اگر عورت کوئی فعل کرے اس کی سزا، سماجی اعتبار سے اتنی بھاری اور اگر وہی عمل اس کے برعکس کوئی مرد کرے تو یہ اس کا حق سمجھنا۔
ایک ایسی آنکھ جو انصاف کر سکے وہ مرد کے پاس ہو بھی نہیں سکتی۔ ہمارے شاہ لطیف بھٹائی کچھ ایسے ہی خیالات کے حامی تھے ۔ وہ جب کائنات میں سچ کی تلاش میں نکلے تو انھوں نے اپنے وجود میں عورت کی آنکھ اور نظر رکھی۔ ان کی شاعری کا محور ایک عورت ہے۔ ان کی خدا کی طرف رجعت کی ساری ترتیب عورت ہے۔ وہ خدا کو عورت کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ کائنات کو، کائنات کے ہر رمز کو، ہر فہم و فراز میں وہ عورت نظر آتا ہے، شاید ہی کوئی دنیا کا ایسا شاعر ہو۔
ہمارے مولانا جلال الدین رومی کی یہ سطریں تو خود اپنا بیان ہیں:
پر توئے حق است آن معشوق نیست
خالق آن مخلوق نیست
ترجمہ: ''عورت خدا کا روپ ہے، وہ معشوق نہیں۔ وہ تو پیدا کرتی ہے ، پیدا ہوتی نہیں''
جنگوں اور نفرتوں سے بھری یہ دنیا ، نفرتوں کا بیانیہ یہ انسانی حقوق کی پامالی ، یہ دنیا جو مردوں کی بنی دنیا ہے، یہ تشریح جو مردوں کی دی ہوئی تشریح ہے ۔ ابھی ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ! ابھی ارتقاء کی مسافتیں اور بھی ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ میرے اپنے شعور میں کتنی تبدیلی آئی ہے۔ ایک وہ زمانہ بھی تھا کہ جب اپنی چھوٹی بہن کو میں نے نقاب پہننے پر مجبور کیا تھا؟ پھر سوچ میں تبدیلی آئی تو اپنی بڑی بہن کو ان کے خاوند کی مخالفت کے باوجود ڈرائیونگ سکھائی۔
ہمارا ملک اب بھی اسی بیانیے اور اسی شعور کی ایک ٹانگ پہ کھڑا ہے۔ اس ملک کی پسماندگی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ ملک بھرپور معاشی طاقت تب بنے گا جب ہماری عورت ان شکنجوں سے آزاد ہوگی۔ جب ہمارا مزاج تبدیل ہوگا ۔اس نگاہ سے ہم عورت کے وجود کو دیکھیں گے جب یہ یرقان ہماری آنکھوں سے اترے گا۔ جب ہماری عزت و غیرت کے زاویے عورت کے تناظر سے نہیں ہوں گے بلکہ خود اپنے اخلاقی کردار اور بہتر انسان ہونے کے تناظر سے ہوں گے۔