مودی کی کشمیریوں سے ملاقات

بظاہر ملاقات کے لیے کوئی ایجنڈا نہ ہوتے ہوئے بھی حکومتی ٹیم نے اپنے ایجنڈے پر سب شرکاء کو اعتماد میں لیا۔


عبد الحمید July 02, 2021
[email protected]

LONDON: پانچ اگست2019کو ایک بل آف پارلیمنٹ کے ذریعے بھارتی مقبوضہ ریاستِ جموں و کشمیر سے اس کی خصوصی حیثیت چھین لی گئی اور اسے سلطنتِ دہلی کے براہِ راست ماتحت ایک یونین ٹیریٹری union teritoryبنا دیا ۔ان اقدامات سے بھی پہلے نومبر 2018میں گورنر راج لگا دیا گیا تھا، اس طرح کشمیر سے جمہوری ادارے ختم کر دیے گئے اور ریاستی حکومت کو باہر کی راہ دکھا دی گئی۔

یہ اقدامات کیا ہوئے پوری وادی ایک بڑی جیل کا منظر پیش کرنے لگی۔یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا حتیٰ کہ بائیس ماہ کے بعد کشمیر کی آٹھ جماعتوں کے چودہ لیڈروں بشمول فاروق عبداﷲ،عمر عبداﷲ،غلام نبی آزاد اور محبوبہ مفتی دہلی میں وزیرِ اعظم اور وزیرِ داخلہ کے ساتھ جمعرات 24جون کو ساڑھے تین گھنٹے کی ایک میٹنگ ہوئی۔ملاقات کرنے والے سبھی وہ افراد ہیں جن کو بی جے پی کی حکومت گیپکر گینگ کا خطاب دے چکی ہے۔

سری نگر شہر کا وہ انتہائی حساس علاقہ جہاں گورنر،وزیرِ اعلیٰ اور دوسرے اعلیٰ حکومتی عہدیداران کے دفاتر اور رہائش گاہیں ہیں اس علاقے کو گیپکر کہتے ہیں۔ یہ کشمیری وہ ہیں جو ہر وقت اقتدار سے چمٹے رہنا پسند کرتے ہیں، اس لیے حکومت نے انھیں گیپکر گینگ کے خطاب سے نوازا ہواتھا۔اب اسی گینگ کے افراد کے ساتھ یہ بیٹھک کی گئی۔بظاہر اس ملاقات کا کوئی ایجنڈا نہیں تھا اور کہا گیا کہ بس ملاقات کرنی اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر سے آگاہی مقصود تھی۔

کشمیریوں کی اصل قیادت حریت رہنما ہیں۔ وہی کشمیری عوام کے دکھ درد میں شریک اور اصل نمایندے ہیں لیکن چونکہ وہ دہلی حکومت کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتے اس لیے خدشہ تھا کہ اگر ان کو بلایا گیا اور وہ نہ آئے تو مودی صاحب کی سبکی بھی ہو گی اور میٹنگ ناکام ہونے کا تاثر بھی جائے گا۔دوسرا حریت رہنما کشمیر کے اصل مسئلے کی طرف توجہ دلائیں گے جو بھارتی حکومت کو منظور نہیں، اس لیے حریت قیادت کو ملاقات کے لیے دعوت ہی نہ دی گئی۔

دعوت انھیں کو ملی جو کشمیری عوام سے زیادہ دہلی کے قریب ہونے کی کوشش میں ہیں حالانکہ کشمیر میں بہت سے اہلِ رائے دہلی ملاقات میں ان کی شرکت سے بالکل خوش نہیں تھے۔سری نگر سے جناب روح اﷲ مہدی جو ایک ہر دلعزیز شیعہ سیاسی رہنما ہیں انھوں نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ خود اور دوسرے متعدد رہنما اور سیاسی ورکرز اس بات کے بالکل حق میں نہیں تھے کہ کشمیر سے کوئی ایک بھی دہلی حکومت کے بلاوے پر وہاں جائے۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جو افراد گئے ہیں ان کے اپنے سرکردہ ساتھی ان کے اس عمل سے خوش نہیں ہیں لیکن گیپکر گینگ دہلی حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اتنے لمبے عرصے کے بعد یہ ملاقات اب کیونکر ہوئی۔میری دانست میں اس کی سب سے بڑی وجہ بھارتی حکومت پر بین الاقوامی دباؤ ہے۔امریکا افغانستان سے نکل رہا ہے اور غالب امکان ہے کہ طالبان حکومت میں آ جائیں،اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا اثر پاکستان پر تو پڑے گا ہی لیکن اسپل اوور ہو کر بھارت بھی اس سے متاثر ہوگا۔بھارت افغانستان میں طالبان اور پاکستان کے خلاف کھل کر کھیلتا رہا ہے۔ طالبان افغان جنگ سے فارغ ہو کر افغانستان کے اندر اوربھارت خاص کر کشمیر میں مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔

ان حالات میں بھارت افغان طالبان سے بات کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ایک بھارتی مذاکراتی وفد دوحہ قطر میں طالبان سے ملاقات کے لیے مقیم ہے ۔ اور دوسری طرف اپنے حامی کشمیری رہنماؤں کے ذریعے حالات نارمل دکھانے کی تگ و دو میں ہے۔بھارت کے اوپر چین سے مخاصمت کی وجہ سے بھی دباؤ ہے اور و ہ ا سی لیے پاکستان سے حالات بہتر کرنا چاہتا ہے۔

فریڈم ہاؤس،اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمایندہ اور دوسری کئی معروف تنظیموں کی رپورٹس بشمول سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ، کشمیر کے بارے میں بھارت کے لیے خاصی منفی ہیں۔پھر متحدہ عرب امارات نے ہندوستان اور پاکستان کے بیچ پڑ کر کشمیر میں سیز فائر کرایا اور اب بات کو آگے بڑھاتے ہوئے دونوں ملکوں کو مذاکرات کے میز پر لانا چاہتا ہے۔بھارت کے لیے عرب ممالک بہت اہم ہیں، ستر سالوں کی جدو جہد کے بعد بھارت نے عرب ملکوں میں اپنا اثر و رسوخ قائم کیا ہے اور وہ اس کو گنوانا نہیں چاہے گا۔اس موقعے پر ملاقات کی ایک اور وجہ زمینی حقائق ہیں۔نومبر 2018سے مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج ہے۔

کشمیری بھارت کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں، ایسے میں کشمیریوں کو کوئی نہ کوئی جھانسہ دے کرہمنوائی کی طرف لانا اور بین الاقوامی رائے عامہ کو دھوکا دے کر اپنے حق میں کرنا،عین قرینِ مصلحت ہے کیونکہ اگست 2019کے اقدامات نے کشمیر کے مسئلے کو اتنا اجاگر کر دیا ہے کہ یہ ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی فورم پر ڈسکس ہونا شروع ہو گیا ہے۔

دہلی میں ملاقات کے دوران ماسوائے ایک ،کسی شخصیت نے بھی آرٹیکل370یا35-Aکا تذکرہ تک کرنامناسب نہیں سمجھا۔گویا ان شخصیات کو اگست 2019 کے اقداما ت سے کوئی مسئلہ نہیں ۔گیپکر گینگ کی ان شخصیات نے وزیرِ اعظم مودی اور امیت شا سے گلہ کیا کہ آخر یہ میٹنگ پہلے کیوں نہیں بلائی گئی۔

امیت شا نے ان شخصیات پر زور دیا کہ وہ حلقہ بندیاں مکمل کرانے میں حکومت کی مدد کریں تاکہ اسمبلی کے لیے انتخابات جلد از جلد منعقد کرائے جا سکیں۔ یہ کشمیری شخصیات انتخابات تو جلد از جلد منعقد کرانے کی حامی ہیں، البتہ وہ اگلے انتخابات پرانی حلقہ بندیوں کے تحت ہی کرانا چاہتی ہیں۔ بھارتی حکومت کی کوشش ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے ذریعے ان کی پاور بیس کو کمزور کیا جائے۔تقریباً ساری کشمیری شخصیات یہ چاہتی تھیں کہ جلد ازجلد گورنر راج ختم کر کے صوبے کی سطح کی ریاست بحال کر دی جائے۔ وزیرِ داخلہ امیت شا نے بتایا کہ ریاست کی بحالی فوری طور پر ممکن نہیں، اس کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرنا پڑے گا گویا امیت شا نے یہ بات گول مول کر دی۔

امیت شا کے بعد وزیرِ اعظم نے ان افراد کو بتایا کہ انھوں نے ملاقات میں اٹھائے گئے تمام نکات کو غور و خوض کے لیے نوٹ کر لیا ہے۔ وزیرِ اعظم مودی نے بھی ا ن افراد کو حلقہ بندیاں جلد ازجلد مکمل کرانے کا کہا اور عندیہ دیا کہ حلقہ بندیاں مکمل ہوتے ہی انتخابات کرا دیے جائیں گے۔جیسا کہ پچھلے کالم میں بتایا گیا تھا بھارتی حکومت نے اپنے طور پر پروگرام بنا رکھا ہے کہ یہ انتخابات اس سال کے آخر یا اگلے سال مارچ میں کرا دیے جائیں۔

مودی جی نے بھی ریاست کی بحالی کے لیے ٹائم ٹیبل دینے سے گریز کیا۔اس طرح بظاہر ملاقات کے لیے کوئی ایجنڈا نہ ہوتے ہوئے بھی حکومتی ٹیم نے اپنے ایجنڈے پر سب شرکاء کو اعتماد میں لیا۔گفتگو سے لگتا تھا کہ حکو مت کا ایجنڈا ان شخصیات جن کو یا تو جیل کی یاترا کرائی گئی یا نظر بندی سے دوچار ہونا پڑا،انھیں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے مطالبے سے دور رکھنا،نئی حلقہ بندیوں پر راضی کرنااور انتخابات کرا کے ایک طرف کشمیریوں کی قربانیوں پر پانی پھیرنا اور دوسری طرف دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنا تھا۔

اب آتے ہیں کہ کیا بھارتی حکومت کا یہ Initiativeکامیاب رہا تو حقائق آپ کے سامنے ہیں، آپ خود فیصلہ کریں۔گیپکر گینگ کی ساری شخصیات حاضر تھیں۔ساڑھے تین گھنٹے کی ملاقات میں ماحول خوشگوار تھا۔تقریباً سبھی جمہوری عمل کی بحالی پر متفق تھے۔کشمیری عوام کے اوپر کیا بیت رہی ہے، اس کا کسی نے گلہ نہیں کیا بلکہ ذکر تک نہیں ہوا۔آئے دن کشمیریوں کی جو پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے یا قتل ہو رہا ہے کسی شخصیت کو اس کی پرواہ نہیں تھی۔

انھیں اس کی پرواہ نہیں تھی کہ اس ملاقات میں ان کی شرکت کو کشمیر میں کیسے لیا جائے گا۔ ہاں! انھیں اگر کوئی فکر تھی تو یہ کہ ان میں سے ہر ایک دوسروں کے مقابلے میں دہلی کے کتنا قریب ہے۔اسی بات کا ڈر تھا کہ یہ لوگ اپنے مفادات کے لیے بھارت کے پھینکے جال میں آکر کشمیری ماؤں ،بہنوں اور بھائیوں کی قربانیوں کا سودا نہ کر لیں۔بظاہر یہ شخصیات اس جال میں آچکے ہیں۔ خدا کشمیریوں کا حامی و ناصر ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں