یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
یہ سب بے انتہا شاطر ہیں کہ نیب جرائم کی کڑیاں ملانے میں مشکلات کا شکار ہیں۔
اب تک کے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ، زیرک، کرشمہ ساز ار صاحب الرائے وزیر ِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے تھے۔ انھیں بلامقابلہ منتخب کرالیا گیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی دوسری ٹرم میں انھوں نے ساٹھ فیصد سے زیادہ سیٹوں پر یقینا جیت جانا تھا، لیکن قطعی اکثریت یا Absolute Power کا نشہ ہی کچھ اور ہے۔
بھٹو صاحب نے عوام اور علماء کی خوشنودی کی خاطر جمعہ کو ہفتہ وار چھٹی قرار دے دیا۔ شراب کی فروخت اور افیون کے ٹھیکوں پر پابندی لگادی تاکہ سیاسی طور پر ان کا قد مزید اونچاہو جائے، لیکن ان کا کوئی حیلہ و حربہ کارگر نہ ہوا۔ وہ PNA کی تحریک کے آخر پر دوبارہ الیکشن کرانے پر بھی راضی ہو گئے لیکن انھیں قتل کے جرم میں سزائے موت دی دی گئی۔
سن 1981میں اس وقت کے سپریم کورٹ کے سینئر جج دُرّاب پٹیل کی کار کا لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ وہ تو محفوظ رہے۔ ڈرائیور معمولی زخمی ہوا ۔ میں دورے سے واپسی پر وہاں سے گزر رہا تھا۔ جسٹس صاحب کو اپنی جیپ میں بٹھا کر اسسٹنٹ کمشنر ہائوس کھاریاںلے آیا۔ ڈیڑھ گھنٹہ تک ان کی میزبانی کا موقع ملا۔ حادثہ کی اطلاع ابھی اُن کے گھر اسلام آباد دی جانی تھی۔ ٹیلی فون پر یہ انتظامات کرنے کے دوران سپریم کورٹ کے جج اور میرے یعنی مقامی انتظامی افسر کے مابین تعلق ایک انتہائی بے تکلفی والے رشتے میں تبدیل ہو چکا تھا۔
اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد میں نے گھما کر بات شروع کی اور رائے لی کہ اگر کسی نہایت اہم فوجداری کیس کے ٹرائل کے دوران جج ملزم پر عدالتی سوالات (Court Questions) کی بوچھاڑ کر دے اور یہ تاثر عام ہو جائے کہ جج ذاتیات پر اُتر آیا ہے اور ملزم بھی اعتراض کر دے تو کیا جج کو مقدمہ کی سماعت سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے؟
بات سنتے ہی جسٹس دُرّاب پٹیل صاحب بولے، کہیں آپ جسٹس مولوی مشتاق کے بھٹو ٹرائل کا ذکر تو نہیں کر رہے۔ اس پر میرا حوصلہ بڑھ گیا اور ان سے مزید پوچھ لیا کہ عدم شہادت والے کیس میں کوئی شریک جرم جسے اپنی سزایابی کا ذرا سا بھی خدشہ ہو کسی او ر کو ملوث کر نے لیے کسی بڑی لالچ یا اپنی برّیت کے وعدے کے بغیر اقبال جرم نہیں کرتا۔ بھٹو کیس میں شریک ملزمان نے اتنی آسانی سے اقبالی بیان کیوں اور کیسے دے دیا۔
دُرّاب پٹیل صاحب سامنے والی دیوار پر نظریں گاڑ کر بولے کہ اقبالی ملزمان یوںکمرئہ عدالت میں داخل ہوا کرتے تھے جیسے فاتح ریسلر کامیابی کے بعد ریسلنگ رنگ میں گھومتا ہے، حالانکہ ایک سزایافتہ تو نیم مردہ ہوتا ہے۔ میں نے پھر جرآت کی اور کہا کہ اقبال جرم کرنے والوں سے ممکن ہے کوئی وعدہ یا معاہدہ کیا گیا ہو یا پھر ڈرا دھمکا کر لالچ دیا ہو۔ اس پر جج صاحب نے سر ہلا کر کہا ـ میں نے بھی ایسا ہی محسوس کیا تھا۔
زیڈ اے بھٹو ایک کرشماتی اور عہد ساز شخصیت تھے جن کے مخالف بھی ان کی قابلیت اور جادو بیانی کے معترف تھے۔ وہ بھٹو کی قوت ِ استدلال سے خائف رہتے تھے۔ ان کے ناقداور اختلاف رکھنے والے بھی ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے ڈرتے اور کتراتے تھے کیونکہ انھیں اٹھتے وقت ان کی تائید میں سر ہلانے ہی پڑتے تھے۔ اس مقناطیسی اور صاحب الرائے شخص کا عروج بھی بیمثال تھا اور زوال بھی عبرت انگیز۔
اس کی فیملی کی دوسری اہم شخصیت نصرت بھٹو تھیں۔ وہ ایک وزیر ِ اعظم کی بیوی تھیں اور ایک وزیر ِ اعظم کی ماں بھی۔ خود بھی ایک ملزمہ ہی نہیں مدت تک قابل ِ رحم حالات میں رہی۔ بھٹو کا ایک بیٹا دیار ِ غیر میں پراسرار حالات میں اپنے فلیٹ کے اندر مردہ پایا گیا تھا جب کہ دوسرا اپنی ہی بہن کے عہد ِ وزارت عظمیٰ میں پولیس کے ہاتھوں مارا گیا اور اس کا لہو ابھی کسی کے ہاتھ پر تلاش نہیں ہو سکا۔
بھٹو کی ایک بیٹی دو باروزیر ِ اعظم منتخب ہونے کے باوجود سزایافتہ اور مفرور، جلا وطن رہی جب کہ بعد میں وزیر ِ اعظم رہنے والا متعدد مقدمات میں ملوث دوبار ملا کر سات سال جیل میں رہا۔ اس خوفناک اور دردناک انسانی تماشے اور آجکل کے حالات کو دیکھنے والوں اور اہل ِ نظر کے لیے یہ مقامِ عبرت ہے اور اس ملک کے باسیوں کے لیے وجہ فکر بھی۔ جب کہ کئی درجن سیاستدان اس وقت NAB کے نشانے پر ہیں۔ لیکن یہ سب بے انتہا شاطر ہیں کہ نیب جرائم کی کڑیاں ملانے میں مشکلات کا شکا ر ہیں۔