کچھ بات ہو جائے محنت کش خواتین کی
گھر میں اگر کوئی اختلافات ہوں یا معمولی بحث پر مرد حضرات ڈانٹ کر اپنی بیویوں، بچیوں یا بہنوں کو خاموش کردیتے ہیں۔
آج کل وزیر اعظم، وزرا، مذہبی اسکالرز اور کالم نگار خواتین کی چال ڈھال، لباس اور انداز پر محو گفتگو ہیں۔ منطقی دلیلیں، سوال و جواب اور تبصرے کی اتنی گہرائی میں چلے گئے ہیں کہ انھیں کروڑوں محنت کش خواتین اور لڑکیوں کی بے روزگاری، ناخواندگی، بے گھری، گھریلو تشدد، اغوا، قتل اور ریپ جیسے واقعات نظر ہی نہیں آتے۔
پاکستان کی آبادی کا 51 فیصد دیہات میں رہائش پذیر ہے۔ پنجاب، خیبر پختون خوا کے علاقے، کراچی کی کچی آبادیاں، اندرون سندھ، کشمیر اور گلگت بلتستان کی بیشتر دیہی خواتین، مردوں کے شانہ بشانہ محنت مزدوری میں مشغول ہوتی ہیں۔ یہ خواتین صبح 5 بجے اٹھ جاتی ہیں۔ پھرگائے، بکریوں اور مرغی، بطخوں کی گندگی صاف کرتی ہیں، انھیں چارہ کھلاتی ہیں۔
اپنے بچوں کا منہ ہاتھ دھلاتی ہیں پھر انھیں ناشتہ کرا کر اسکول بھیجتی ہیں۔ اس کے بعد وہ دوپہر کا کھانا پکانے میں لگ جاتی ہیں۔ کھیتوں میں ان کے مرد حضرات جو کام کر رہے ہوتے ہیں انھیں کھانا پہنچاتی ہیں۔ بہت سے علاقوں میں خواتین لکڑیاں چن کے لاتی ہیں، پانی بھر کے لاتی ہیں اور گوبر کی تھپکیاں لگاتی ہیں۔ پھر دن میں جو وقت بچ جاتا ہے ان اوقات کار میں کپڑوں کی سلائی کھڑائی اور پیوند کاری میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ شام کو پھر جانوروں کو ان کی رات گزارنے کی جگہ میں باندھتی ہیں۔ مرغی، بطخ کو ڈربے میں بند کرتی ہیں۔ پھر رات کا کھانا پکانے میں لگ جاتی ہیں۔
راقم الحروف ایبٹ آباد میں ڈونگہ گلی، ایوبیہ وغیرہ گیا تھا۔ وہاں پاکستان کے سب سے بڑے چشمے کے پانی کے ذخیرے ہیں۔ یہ کیوب اور دوسرا گولائی میں فولاد سے بنے ہوئے ہیں جہاں لاکھوں لیٹر پانی جمع کیا جاتا ہے اور حکمران طبقات کے افراد کو مری میں ترسیل کیا جاتا ہے۔ مگر اس پانی کے ذخیرے کے آس پاس یعنی گلیات کے علاقے جہاں کی تقریباً 50 ہزار کی آبادی ہے انھیں اس ذخیرے سے پانی نہیں ملتا ہے۔
یہاں کی خواتین میلوں دور سے سر پر لاد کر پانی اور لکڑیاں لاتی ہیں۔ چند برس قبل راقم خود اس علاقے میں گیا تھا جہاں جنگلوں سے آتے ہوئے 5 خواتین کو شیروں نے کھا لیا۔ جب چھٹی عورت کو کھانے لگا تو وہاں کے مکینوں نے گھیر کر شیر کو گولی ماری۔ ایک واقعہ اوکاڑہ کا ہے۔
راقم اپنے ایک دوست کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر ان کے فارم ہاؤس جا رہا تھا۔ یہاں دھان کی پیداوار بھی اچھی خاصی ہوتی ہے۔ گاڑی میں راقم کے پیچھے والی نشست پر دوست کی اہلیہ بھی تشریف رکھتی تھیں۔ دوست نے راقم الحروف سے سوال کیا کہ آپ کا خواتین کے پردے کے بارے میں کیا خیال ہے۔ یہ دوست ڈبل ایم اے اور اسکول ٹیچر بھی ہیں۔ اتفاق سے اسی دوران ہم ان کے فارم ہاؤس پہنچنے والے تھے کہ دیکھا ایک خاتون دیوار پر گوبر کی تھپکی لگا رہی تھی اور دوسری خاتون لکڑی کا گٹھا سر پر لاد کے رواں دواں تھی۔ مجھے سوال کا جواب دینے میں آسانی ہوگئی۔
میں نے فوراً اپنے دوست سے کہا کہ ''ان خواتین کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ کیا یہ برقعے اوڑھ کر گوبر کا تھپکا لگا سکتی ہیں یا لکڑی کا بوجھ سر پر لاد سکتی ہیں؟'' اس بار ان کی اہلیہ نے ہنس دیا اور عقب سے کہنے لگیں کہ ''بھائی درست کہہ رہا ہے'' جس پر میرے دوست خاموش ہوگئے۔ میں نے ان سے کہا کہ ''پردے کا مطلب کسی کو اس کی زندگی کے حرکات و سکنات اور عوامل کو اس سے چھین کر مفلوج کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اسے مردوں کے شانہ بشانہ محنت کرنا ہے جوکہ محنت کش خواتین کر رہی ہیں۔''
دنیا کی بڑی آبادی والے ممالک چین، ہندوستان، جنوبی افریقہ، امریکا، برازیل، نائیجیریا، جاپان اور روس میں سب مل کر ہر کام کرتے ہیں۔ جب ہی تو ترقی کی منازل سے گزر رہے ہیں۔ ہم بجائے ان کے دیرینہ مسائل پر نظر ڈالیں، انھیں حل کرنے کے لیے تجویز دیں اور الٹا انھیں ہی لعنت ملامت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کے شہروں بلکہ دنیا بھر میں جہاں جہاں سرمایہ داری ہے وہاں عورت مزدور کو مرد مزدوروں سے کم تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ اکثر شادی شدہ خواتین کو ملازمت پر رکھنے سے گریز کیا جاتا ہے۔
اس لیے کہ عالمی قوانین کے تحت انھیں زچگی کے دوران تنخواہ سمیت چھٹیاں دینی پڑیں گی۔ بچوں کو ساتھ رکھ کر مزدوری کرنے پر پابندی بھی ہوتی ہے۔ عالمی قوانین کے مطابق شام کے بعد خواتین مزدوروں کو فیکٹریوں یا کارخانے میں نہیں روکا جاسکتا ہے جب کہ پاکستان میں روکا جاتا ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز اور نرسوں کے ساتھ جو برتاؤ کیا جاتا ہے سب کو معلوم ہے۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مہینوں کے بعد تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں جب تک کہ وہ احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر نہ آجائیں۔ اسی طرح سے گھر پر کام کرنے والی خواتین مزدور کے ساتھ انتہا درجے کا معاشی استحصال کیا جاتا ہے۔ ٹھیکیدار کپڑا سینے، کڑھائی کروانے یا کٹنگ کروانے کے لیے وہ حقیقی معاوضے سے تقریباً ایک چوتھائی دیتا ہے۔ اس کا تدارک حکمرانوں کی جانب سے نہیں ہوتا۔ روزانہ 4 سے 10 خواتین اور لڑکیاں اغوا، ریپ اور قتل کا شکار ہوتی ہیں۔
ان پر ڈھائے جانے والے مظالم پر وزرا، کالم نگار، مذہبی اسکالرز سب خاموش رہتے ہیں۔ ہاں مگر ان کے چست کپڑوں، کھلے بال اور میک اپ پر اعتراضات ضرور کرتے ہیں۔ اس شدید گرمی میں مرد حضرات قمیص کا بٹن کھول کر مزے میں ہوا کھاتے ہیں جب کہ خواتین تین تین کپڑوں سے اپنے آپ کو لپیٹ کر باہر نکلتی ہیں۔ اس شدید گرمی میں اس طرح سے رہنے سے ان کے جسم میں گرمی دانے نکل آتے ہیں۔ ہرچند کہ مسلم ممالک ترکی، ملائیشیا، بوسنیا، انڈونیشیا، نائیجیریا اور وسطی ایشیائی ممالک کی خواتین اپنے آپ کو اتنے کپڑوں میں لپیٹ کر نہیں رکھتی ہیں۔ وہ ہم سے زیادہ پڑھی لکھی ہیں اور ورکنگ وومن بھی ہیں۔
ہمارے یہاں کورٹ میرج کے بعد بچوں کی پیدائش کے بعد بھی خاتون کو قتل کردیا جاتا ہے۔ گھر میں اگر کوئی اختلافات ہوں یا معمولی بحث پر مرد حضرات ڈانٹ کر اپنی بیویوں، بچیوں یا بہنوں کو خاموش کردیتے ہیں۔ جیسے گھر میں مرد بادشاہ ہوتا ہے۔ بیشتر گھروں کے اندر عورتوں کے ساتھ کیے جانے والے تشدد پر خاندان کا اپنا مسئلہ کہہ کر پڑوسی نظرانداز کر دیتے ہیں۔
ان جھگڑوں میں باپ، بھائی اور بیٹوں کے ہاتھوں لڑکیاں قتل ہو جاتی ہیں۔ موروثی جائیداد کے معاملات میں جو اپنے آپ کو بڑے براڈ مائنڈڈ یا اعتدال پسند کہتے ہیں وہ بھی بہنوں کی جائیداد اکثر ہڑپ کر جاتے ہیں۔ بے روزگاری سے تنگ آکر کچھ مرد ڈکیتی، چوری اور چھینا جھپٹی کر لیتے ہیں اسی طرح کچھ عورتیں اور لڑکیاں پیٹ کی بھوک کو مٹانے کے لیے عصمت فروشی کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ یہ ساری خرابی طبقاتی نظام کی دین ہے۔ جب طبقاتی نظام نہیں تھا اس وقت یہ زیادتیاں بھی نہیں تھیں۔ اور اب آیندہ جب طبقاتی نظام کا خاتمہ ہوگا اور دنیا ایک ہو جائے گی تو استحصال بھی ختم ہو جائے گا۔