ملک دشمنی اور حب الوطنی کے معیارات
ملک کا کوئی اور طبقہ اس الزام سے مکمل طور پر مبرا ہے۔ حالانکہ ملک دشمنی تو کوئی بھی انسان کرسکتا ہے۔
کرہ ارض پر ہمارا ملک پاکستان ایک ایسا ملک ہے، جہاں جب چاہے کسی پر بھی ملک دشمنی کے الزامات لگائے جاسکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر انھیں جیلوں سے نکال کر تخت پر بھی بٹھا دیا جاتا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایسے الزامات ہمیشہ سیاستدانوں پر ہی لگائے جاتے رہے ہیں۔
ملک کا کوئی اور طبقہ اس الزام سے مکمل طور پر مبرا ہے۔ حالانکہ ملک دشمنی تو کوئی بھی انسان کرسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس شخص پر ملک دشمنی کا الزام لگا گیا ہو ، وہ اپنے چاہنے والوں کی نظروں میں کسی ہیرو سے کم نہیں ہوتا۔ شیخ مجیب الرحمن پرکیا کیا الزامات نہیں لگائے گئے اور اگرتلہ سازش کیس میں انھیں قید بھی کر دیا گیا۔
بہت ممکن تھا کہ انھیں اس الزام کے تحت سازش کرنے کی پاداش میں موت کی سزا بھی سنادی جاسکتی تھی۔ مگر شومئی قسمت سے وہ بچ نکلے اور پھر اپنے چاہنے والوں کے ووٹوں سے 1970 کے انتخابات میں ملک کی سب سے بڑی اکثریت حاصل والی پارٹی کے سربراہ کے طور پر ابھر کر سامنے آگئے۔ پارلیمنٹ کی سیٹوں میں سے 156 نشستیں جیت کر وہ واحد اکثریتی پارٹی بن چکے تھے۔
اُن کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر جیت جانے والوں میں مغربی پاکستان کی پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی کا نام تھا جس نے صرف 83 نشستیں حاصل کی تھیں۔ اتنے بڑے اور واضح فرق کے باوجود شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار نہیں سونپاگیا۔ نتیجتاً جوکچھ ہوا وہ ہماری ملکی تاریخ کاایک تاریک اور افسوس ناک باب ہے۔ شیخ مجیب کو غداراور ملک دشمن سمجھ کر ہم نے اُسے اقتدار سوپنے کے بجائے اپنا ملک گنوانا برداشت اور قبول کرلیا۔
دوسری جانب ذوالفقار علی بھٹو تھے جن کی ذہانت اور قابلیت کے ہم آج بھی قائل اور معترف ہیں۔ انھوں نے وطن عزیز سے محبت کی بہت سی یاد داشتیں چھوڑی ہیں۔ ملک کو جوہری توانائی سے سرفراز کرنے کا سہرا بھی اُن کے سر باندھا جاسکتا ہے۔90 ہزار جنگی اور سویلین قیدیوں کے باعزت رہائی بھی اُن کے کیے گئے کارناموں میں سے ایک ہے ، مگر ساتھ ہی ساتھ اقتدار کی خاطر وطن عزیز کو دولخت کرنے والوں میں اُن کا نام بھی سرفہرست گردانہ جاتاہے۔ یحیٰ خان کے ساتھ سازباز کرکے شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار کی منتقلی میںروڑے اٹکانے میں اُن کی خدمات کو قطعاً نظرانداز نہیں کیاجاسکتاہے۔
25 مارچ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے مشرقی پاکستان جانے والے منتخب ارکان کو یہ مشورہ بھی شاید انھوں نے ہی دیا تھا کہ وہ یکطرفہ ٹکٹ لے کر جائیں ورنہ واپسی پر اُن کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ بھٹو صاحب کی شخصیت کے اسرارو رموز اتنے خوبصورت اور جاذب نظر ہیں کہ اُن کے سارے منفی پہلو اُس کے دھندلکوں میں چھپ جاتے ہیں۔ قوم کی یہ اچھائی ہے کہ وہ اپنے رہنماؤں کے مثبت کاموں کو یاد رکھتی ہے ، منفی اور غلط کاموں کو وہ بھول جاتی ہے۔ لیکن تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔ وہ اپنے صفحات پر ساری باتیں من و عن رقم کردیتی ہے۔ ہم اپنے ملک کے دولخت کیے جانے کے اسباب اگر تلاش کرنا چاہیں تو تاریخ کے یہ اوراق ہماری مکمل رہنمائی کرتے پائے جائیں گے۔
تاریخ بڑی بے رحم اور نیوٹرل ہوتی ہے ، وہ کسی کی بلاوجہ اور غیر ضروری حمایت اور طرفداری نہیں کرتی ، جس جس نے اپنے ملک سے بے وفائی کی یا ذاتی مفادات کی خاطر کوئی ٹھیس پہنچائی سب کے چہروں سے نقاب کشائی کا کام وہ بڑ ی غیر جانبداری سے کیا کرتی ہے۔ بھٹو صاحب کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ اقتدار کی خواہشوں کے اسیر بن کر سب کچھ کرنے کو تیار تھے ، مگر جب اقتدار مل گیا تو ملک و قوم کی خاطر اپنی جاں بھی گنوا دی۔ ملک دشمنی اور حب الوطنی دونوں کے کیمیائی اجزاؤں سے بنے وہ ایک بہت عظیم شاہکار تھے۔ اُن کی ذہانت اور قابلیت سونے پر سہاگہ کا کام سرانجام دے رہی تھی۔
وہ ویسے توکمیونزم کے نظریات کے بہت بڑے پیروکار تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ تیسری دنیا اور اسلامی ممالک کے بھی واحد رہنما اور سپہ سالار بھی بن کر ابھرے تھے ، مگر ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی اورمطلق العنانی نے انھیں ایک افسوسناک انجام سے دوچارکردیا۔
بھٹوصاحب کے دور میں ہی عبدالولی خان پر بھی ملک دشمنی کے الزامات لگائے گئے اور انھی الزامات کے تحت وہ پس زنداں بھی ڈال دیے گئے۔ یہ الزامات آج تک درست اور صحیح ثابت نہیں ہوئے لیکن اُن کے فرزند اول اسفند یار ولی ملک کی سیاست میں آج ایک باعزت سیاستداں کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔ کون کتنا محب وطن ہے اور کون کتنا غدار اور ملک دشمن یہ طے کرنا ہمارے اور آپ کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ کسی اورکا صوابدیدی اختیار ہے۔ ہمارا اور آپ کا کام بس ٹرک کی بتی کے پیچھے دوڑنا ہے۔ ہمیں جس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جائے ہم اُس کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں۔
ہمیں جب کہا جائے کہ بھٹو ملک دشمن تھا ہم اُسی پر اعتبار کرکے صبح و شام اُسے لعن وطعن کرنا شروع کردیتے ہیں اور ہمیں جب کہا جائے کہ شیخ مجیب الرحمن ملک دشمن اور غدار تھا ہم اپنی آنکھیں بند کرکے اُسے بھی من وعن تسلیم کرلیتے ہیں۔
جسٹس حمودالرحمن کی رپورٹ پڑھنے کا ہمارے پاس شاید وقت ہی نہیں ہے۔ شیخ مجیب کو غدار کس نے بنایا۔ وہ کیا اسباب و محرکات تھے جس نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ یہ جاننے کے لیے ہمارے پاس فرصت ہی نہیں ہے۔ بلوچستان کا اکبر بگٹی بھی ایک غدار اور ملک دشمن تھا۔ پرویز مشرف نے ہمیں یہی پڑھایا اور ہم نے تسلیم بھی کرلیا۔ آنے والے وقتوں میں اور کون کون اِن القابات سے نوازے جائیں گے یہ ہم آج نہیں بتاسکتے ۔ مگر صحافی برادری میں بھی یہ جراثیم بڑی تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ ہمارے کئی ساتھی آج پس منظر میں ہیں اور بہت سے اپنی باری کا انتظارکر رہے ہیں۔ سچی بات کرنے والوں کے ساتھ ہمیشہ ایسے ہی ہوا کرتاہے ۔