طلبہ تحریکوں کی کہانی حصہ اول

طلبہ سماج کے بنیادی حقوق کی حمایت میں پیش پیش رہے ہیں جو معاشرے میں استحصال اور معاشرت کا شکار رہتے ہیں۔


Dr Tauseef Ahmed Khan July 07, 2021
[email protected]

دنیا میں طلبہ کی تحریکیں ایک طویل تاریخ رکھتی ہیں اور ان کا ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے پھیلاؤ سے بھی گہرا تعلق رہا ہے۔ طلبہ نہ صرف قومی آزادی کی جنگوں میں ہر اول دستہ کا کردار ادا کرتے رہے ہیں بلکہ متعدد ممالک کے زوال پذیر سماجی اور معاشی ڈھانچوں کے خلاف بغاوت اور احتجاج میں بھی آگے رہے ہیں۔

طلبہ سماج کے بنیادی حقوق کی حمایت میں پیش پیش رہے ہیں جو معاشرے میں استحصال اور معاشرت کا شکار رہتے ہیں۔ پاکستان کے طلبہ کی جمہوریت کے جدوجہد ، بھارت میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی جامعہ ملیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ کی قیادت میں شہریت کے نئے قانون کی بھرپور مخالفت کے ساتھ ساتھ شاہین باغ کی بہادر اور روایت شکن مسلمان خواتین سے اظہار یکجہتی اور حال ہی میں جارج فلائیڈ کے وحشیانہ قتل کے خلاف دنیا بھر میں نوجوانوں کے ہونے والے بھرپور مظاہرے اس کی روشن مثالیں ہیں۔

''سورج پہ کمند'' یہ کتاب ڈاکٹر حسن جاوید اورمحسن ذوالفقار نے 7 سال کی محنت و مشقت سے تحریر کی ہے۔ ڈاکٹر حسن جاوید بنیادی طور پر ماہر نفسیات ہیں اور لندن میں پریکٹس کرتے ہیں۔ محسن ذوالفقار انجنیئر ہیں اور آج کل لندن میں مقیم ہیں۔ ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق رہنما اور پروفیسر ڈاکٹر ہارون احمد ''سورج پہ کمند'' کے ابتدائیہ میں طلبہ تحریکوں کی جامع تاریخ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ حسن جاوید اور محسن ذوالفقارکی مرتب کردہ کتاب صرف طلبہ تحریکوں کی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے مختلف سیاسی ادوار کی ایک جامع تاریخ ہے جو تاریخ وار مرتب کی گئی ہے۔

یہ کتاب نہ صرف طالب علموں بلکہ محققین اور پاکستان کی سیاسی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے تجزیہ کاروں کے لیے بھی معلومات کا خزانہ ہے۔ اس اہم اور مشکل کام کے لیے حسن جاوید اور محسن ذوالفقار تعریف کے مستحق ہیں۔ سورج پہ کمند تین جلدوں پر مشتمل ہے۔

جلد اول میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنماؤن اور اہم کارکنوں کی زندگی کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ پہلی جلد دو سال قبل شایع ہوئی تھی اور جلد دوئم اور سوم ایک ساتھ شایع ہوئی تھیں۔ ہر جلد 6سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد آٹھ حصوں اور چھپن (56)ابواب پر مشتمل ہے۔ دوسری جلد کا آغاز ان کارکنوں کے تعارف سے ہوا ہے جن کارکنوں نے اس کتاب کی تیاری میں ہاتھ بٹایا۔ سورج پر کمند کی دوسری جلد میں برصغیر میں تعلیمی اداروں کا آغاز ، متحد ہندوستان میں طلبہ تنظیموں اور طلبہ تحریکوں کے بارے میں مفید معلومات سے کیا گیا ہے۔

پاکستان کے قیام کے بعد سے 1968 میں سابق صدر ایوب خان کے خلاف چلنے والی طلبہ تحریکوں کے علاوہ مزدور تحریکوں ، صحافیوں اور اساتذہ کی تحریکوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ کتاب کے تیسرے حصہ کے پہلے باب کا عنوان برصغیر میں تعلیمی اداروں کا قیام ہے۔

اس باب میں مصنفین لکھتے ہیں کہ برصغیر اور بالخصوص پاکستان میں طلبہ تحریک اور طالب علموں کی سماجی تحریکوں کا براہِ راست گہرا تعلق برصغیر میں جدید تعلیمی اداروں کے قیام اور انگریز کی آمد سے برصغیر میں تعلیمی نظام میں اس طرح کے تعلیمی اداروں کا تصور ناپید تھا جو نوآبادیات دور میں حکمرانوں نے متعارف کروائے۔ وہ لکھتے ہیں کہ لارڈ میکالے کی سفارشات کو گورنر جنرل لارڈ ولیم کی منظوری سے ہندوستان میں تعلیمی نظام کی بنیاد بنایا گیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے نئے تعلیمی ادارے، یونیورسٹیاں اور ان سے ملحق کالجوں کئی شکل میں قائم کیے گئے۔

جدید تعلیم کے اد اروں میں بھی طلبہ تحریکوں کی بنیاد رکھی گئی اور ان ہی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ اس بیسویں صدی کے آغاز پر برصغیر کے مختلف علاقوں میں برپا ہونے والی عوامی تحریکوں اور شورشوں میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ اس کتاب کے دوسرے باب کا عنوان ابتدائی طلبہ تنظیمیں اور تحریکیں ہے۔ مصنفین نے اس باب میں 1857 کی جنگ آزادی کے بعد کانگریس کے قیام، تقسیمِ بنگال کے خلاف تحریک ، پنجاب زرعی اراضی بل، تحریک ہجرت جلیانوالہ باغ کا جائزہ لیا ہے۔

کتاب کے مطابق تحریک ہجرت کے دوران تاشقند جانے والے نوجوانوں نے 1920 میں ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔ ان میں نوجوان طالب علم فیروز الدین منصور، فضل الٰہی، قربان اور قربان حسین شامل تھے۔

وہ لکھتے ہیں کہ طلبہ کو ایک پرچم تلے منظم کرنے کی پہلی کوشش بھی بھگت سنگھ کی قیادت میں 1927 میں کی گئی جب پہلی لاہور اسٹوڈنٹس کانفرنس منعقد ہوئی۔ لاہور اسٹوڈنٹس کانفرنس کے برسوں بعد پنجاب اسٹوڈنٹس کانفرنس کے قیام کے خواب کی تعبیر اگست 1936 میں اس وقت سامنے آئی جب لکھنؤمیں پہلی کل ہندوستان اسٹوڈنٹس کانفرنس منعقدہوئی۔

کتاب میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ ڈی ایس ایف کا قیام سب سے پہلے راولپنڈی میں گورڈن کالج کے پروفیسر خواجہ مسعود کی رہنمائی میں 1949 میں عمل میں آیا۔ ڈی ایس ایف کے بانی اراکین میں عابد منٹو ، ایوب مرزا، علی امام، جلال خٹک، اے ایچ اسلم، امین راحت چغتائی اور اسلم شیخ شامل تھے۔ کمیونسٹ پارٹی کی رہنمائی میں قائم ہونے والی اس تنظیم کا پروگرام ابتداء میں غریب طلبہ کے تعلیمی مسائل حل کرانے پر مشتمل تھا۔

کراچی میں ڈی ایس ایف کے قیام کا سہرا ڈاؤ میڈیکل کالج کے چند ترقی پسند طلبہ کے سر ہے۔ محمد سرورکی قیادت میں طلبہ کے اس گروہ میں رحمان علی ہاشمی، آصف علی حمیدی، ایوب مرزا، عنایت لودھی، یوسف علی ، ہارون احمد، منظور احمد اور اکبر علی وغیرہ شامل تھے۔ کراچی کے رہنما نمایاں تعلیمی اداروں میں اپنی متحرک شاخیں قائم کرنے اور 1952 کے طلبہ یونینوں کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ڈی ایس ایف نے اپنے پہلے کونسل کمیشن سیشن کا انعقاد 11 اکتوبر 1952 کو تھونیکل ہال کراچی میں ہوا۔

یہ سیشن ڈی جے سائنس کالج یونین کے نائب صدر مرزا کاظم کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس سیشن میں 175مندوبین شریک ہوئے۔ اس سیشن نے ڈاکٹر محمد سرور کو پہلا صدر اور رحمان علی ہاشمی کو جنرل سیکریٹری منتخب کیا۔ طلبہ نے7مطالبات پر منتخب قراردادیں بھی منظور کیں۔ اس باب میں ڈی ایس ایف کی معاونین تنظیموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس طرح ڈی ایس ایف کے ترجمان اسٹوڈنٹس ہیرالڈ اور حکومتی پریشانی کا ذکر موجود ہے۔

اس طرح انٹر کالجیٹ باڈی (I.C.B) کی تشکیل، 8 جنوری 1953 کی تاریخی طلبہ تحریک کا ذکر ہے۔ کراچی کے چیف کمشنر کے جاری کردہ سرکاری بیان کے مطابق اس روز کے واقعات میں 8افراد جاں بحق ہوئے اور 100 زخمیوں کو سول اور جناح اسپتال لایا گیا۔ ایک زخمی اسپتال میں انتقال کرگیا۔

وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو طلبہ کے تمام مطالبات ماننے پڑے ۔ اس باب میں اس تحریک میں طالبات کے کردار کے بارے میں تفصیلی معلومات درج کی گئی ہیں۔ یہ طلبہ کی پہلی تحریک تھی اور اس تحریک میں طالبات بھی برابر کی شریک تھیں۔ سورج پہ کمند کتاب کے 20 ویں باب پاکستان کے امریکا کے اتحادی بننے کے ساتھ ترقی پسندوں کے خلاف آپریشن، راولپنڈی کی سازش کیس میں ترقی پسندوں کی گرفتاریوں کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ ڈی ایس ایف پر پابندی،ترقی پسند طلبہ ، صحافیوں ، ادیبوں اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کی تفصیلات بیان کے گئی ہیں۔

23ویں باب کا عنوان تقری پسند طلبہ کا این ایس ایف پر غلبہ ہے۔ مصنفین نے سینئر صحافی حسین نقی کی بات چیت کے حوالہ سے لکھا ہے کہ 1953 کے لگ بھگ این ایس ایف کی جانب سے ڈی ایس ایف کے جونیئر ارکان اور ہائی اسکول اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں سے راہ رسم بڑھانے کی کوشش شروع کردی تھی اور نظریاتی کارکنوں کی بڑی تعداد این ایس ایف میں شامل ہوگئی ، یوں این ایس ایف پر نظریاتی کارکنوں کا غلبہ ہوگیا۔

گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس کا پہلا کونسل سیشن 4 اکتوبر1951 کو منعقد ہوا۔ جامعہ کراچی کی شائستہ خاتون صدر منتخب ہوئیں۔ اس باب میں وزیر اعظم سہروردی کے دور میں نہر سوئز پر برطانیہ اور فرانس کے حملہ کے خلاف احتجاج کا ذکر کیا گیا ہے اور وزیر اعظم سہروردی کے طلبہ سے خطاب کے اقتباسات درج کیے گئے ہیں۔

وزیر اعظم سہروردی نے اپنی تقریر میں ایک عجیب بات کہی جو ان کی گزشتہ پالیسیوں کی نفی کرتی ہے۔ سہروردی نے کہا تھا کہ پاکستان ترکی اور عراق ایک صفر ہے برطانیہ ایک ہے۔ کہتے ہیں مزید صفر کیوں نہ جڑ جائیں نتیجہ صفر ہی رہتا ہے۔ اگر اس میں ایک جوڑ دیا جائے تو اس کی ایک حیثیت بن جاتی ہے۔ وزیر اعظم سہروردی کے بیان کے بعد پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں میں نوجوان طالب علموں کے علاوہ طالبات نے بھی شرکت کی تھی۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں