بلوچوں کی ناراضی دور کریں
وزیر اعظم نے ناراض بلوچوں کو منانے کی زبردست اور بر محل بات کی ہے۔
بلوچستان کی سر زمین اور اس کے پہاڑوں کے چھپی ہوئی بے پناہ دولت اور اس کے قدرتی محل وقوع کو دیکھ کر ہمیشہ مغربی دنیا کی رالیں ٹپکتی رہتی ہیں۔ اس سے پہلے سوویت یونین کی بھی رال ٹپکی تھی اور وہ امریکا کی طرح افغانستان پر چڑھ دوڑا تھاکہ گرم پانیوں تک پہنچ جائے لیکن اسے اس جسارت کی سزا یہ ملی کہ سوویت یونین ختم ہوگیا ،کیمونزم ماسکو میں دم توڑ گیا اور مختلف آزاد ممالک وجود میں آگئے۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکا اور اس کے حواری حیلے بہانوں سے اسی افغانستان پر چڑھ دوڑے جہاں پر انھوں افغانیوں کے ساتھ جہاد میں شامل ہو کر روسی فوجوں کو دریائے آمو کے اُس پار دھکیل دیا تھا۔
افغانستان میں بیس برس تک تباہی مچانے کے بعد آج امریکا سات سمندر پارواپس اپنے وطن سدھار رہا ہے لیکن امریکا اوراس کے حواری اب بلوچستان کے وسائل پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں اور اپنی مرضی کے نقشے مرتب کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ کبھی وہ اپنے طفیلئے بھارت کے ذریعے بلوچستان میں گڑ بڑ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی وفاق سے ناراض بلوچی بھائی اپنی نادانی میں صوبے کے عوام میں وفاق سے ناراضی بلکہ بغاوت تک کے رجحانات کا سبب بن جاتے ہیں ۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنے نام کی نسبت سے ایک جمہوری ملک ہے لیکن جب سے یہ ملک قائم ہوا ہے ہم نے اس کوجمہوریت کی ہوا بمشکل ہی لگنے دی ہے اور شروع دن سے ہی ہم نے اس ملک میں چوہدریوں ، ملکوں ،قبائلی سرداروں، وڈیروں کی پرورش شروع کر دی تھی جن کا وجود ہی جمہوریت اور عوام کی حکمرانی کی نفی ہے ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم انگریزوں کے پروردہ اور ان کی باقیات کو قیام پاکستان کے فوری بعد ختم کر دیتے لیکن ہم نے ان کے خاتمے کے بجائے جمہوری اقدار کی نفی کرتے ہوئے ان کواشرافیہ میں شامل کر دیا اور ملک پر خلق خدا کے راج کے بجائے اشرافیہ کو مسلط کر دیا ۔ حالانکہ یہ ملک عوام کے لیے بنایا گیا تھا لیکن وہ تما م ادارے باقی رہے جو جن کی مدد سے غیر ملکی حکمران یہاں حکومت کیا کرتے تھے۔
جمہوریت کی اس نفی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو لوگ ایک نئے آزاد ملک پاکستان کے حق میں نہیں تھے ان کو موقع مل گیا اور انھوں نے اس نوزائیدہ ملک کو شروع دن سے تختہ مشق بنا لیا ۔ پنجاب نے ہمیشہ بڑے بھائی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ لوگ جو پاکستان کے قیام کے مخالف تھے انھوں نے بڑے بھائی کے کردار کو اہمیت نہ دی بلکہ دوسرے صوبوں جن میں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان قابل ذکر ہیں میں شورش برپا کرنے کی کوششیں مسلسل جاری رکھیں۔
سرحدی گاندھی کہلانے والے باچا خان نے افغانستان میں دفن ہونا پسند کیا اور ناراض بلوچوں نے وفاق کے خلاف سرگرمیاں شروع کر دی۔ جمہوری حکومتوں نے بلوچ بھائیوں کی ناراضی ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن آج تک یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلوچ سرداروں میں تلخی بہت بڑھتی گئی ۔ ایک طرف تو جمہوری پاکستان کا نعرہ بلند تھا تو دوسری طرف جمہوری پاکستان میں سرداروں کی حکومتیں بھی بدستور قائم رہیں۔
ریاست نے اگر سرداریاں برقرار رکھنی تھیں تو پھر لازم تھا کہ بلوچوں کے احساسات اور آرزوؤں کو بھی دیکھا جاتا۔ انگریزوں نے جب بلوچستان پر قبضہ کیا تھا تو انھوں نے بھی سرداروں کے ذریعے حکومت کرنے کا فیصلہ کیا۔ قیام پاکستان کے وقت بلوچ سرداروں نے اپنی ریاستیں پاکستان میں ضم کر دیں، خان آف قلات نے بھی بالآخرپاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا۔یوں مکمل بلوچستان پاکستان کا حصہ بن گیا۔لیکن اس کے بعد اس صوبے کے سردار کبھی متحد نہ ہوئے ایک دوسرے سے لڑتے رہے لیکن صوبہ چلتا رہا۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں اکبر بگتی کے قتل نے بلوچوں کی ناراضی میں مزید اضافہ کر دیا۔
وزیر اعظم نے عمران خان نے گزشتہ روز گوادر کے دورے میںبلوچستان کی ترقی کے لیے سات سو ارب روپے سے زائد کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے جو بلوچستان کی تعمیر و ترقی میں معاون ثابت ہوں گے۔ انھوں نے مرکز کی جانب سے بلوچستان کے ساتھ زیادتی کا اعتراف بھی کیا اور یہ بھی کہا کہ بلوچ سیاستدانوں نے بھی بلوچستان کے عوام کے ساتھ ترقی پسند رویہ نہیں رکھا اور ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز صحیح طریقہ سے خرچ نہیں کیے،یوں احساس محرومی میں اضافہ ہوا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ وہ ناراض بلوچوں سے بات کرنے کا سوچ رہے ہیں تا کہ ان کو قومی دھارے میں شامل کر کے بلوچستان کی ترقی کے لیے نئی راہیں کھولیں جا سکیں۔ وزیر اعظم نے ناراض بلوچوں کو منانے کی زبردست اور بر محل بات کی ہے۔
بدقسمتی یہ رہی ہے کہ بلوچستان کی ترقی میں باہر کی طاقتیں دخیل ہونے کی کوشش کرتی ہیں اور وہ چین کو گرم پانیوں کی راہداری تک رسائی کے حق میں نہیں ہیں اور عمران خان کو اس بات کا ادراک ہے، اسی لیے وہ نارض بلوچوں کو منانے کی بات کر رہے ہیں لیکن ان کواپنی سوچوں سے آگے نکلتے ہوئے بلوچستان کے ناراض رہنماؤں کے جائز تحفظات کودور کر کے ان کوقومی دھارے میں شامل کر لینا ہی دانشمندی اور وقت کا تقاضہ ہے تا کہ پاکستان اور چین باہمی اشتراک سے بلوچستان کی ترقی کے جو منصوبے مکمل کیے جا رہے ہیں۔
ان میں مزید تیزی لائی جا سکے، اس صورتحال کا علاج صرف اور صرف بلوچ بھائیوں کی ناراضی دور کر کے ان کو ترقی کی نئی راہوں پر ہم سفر بنانا ہے ۔ اس کے لیے طاقت نہیں بلکہ تدبر اور بھائی چارے کی ضرورت ہے اور عمران خان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اس بھائی چارے کے ذریعے بلوچستان کی ترقی کی نئی راہیں کھول سکتے ہیں ۔ان کا بلوچستان کا دورہ اس سلسلے کی پہلی کڑی کہا جا سکتا ہے۔