معیشت کدھر جا رہی ہے

2011ء سے اب تک پاکستان آئی ایم ایف کو 6.045 ارب ڈالر کی ادائیگی کر چکا ہے۔ جب کہ نیا قرضہ بھی 6.6 ارب ڈالر لے چکا ہے


Zuber Rehman January 22, 2014
[email protected]

KARACHI: پاکستان کی معیشت عالمی سرمایہ داری (سامراج معیشت) کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ سرمایہ داری کے آقا آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی ریاست اس وقت تقریباً 76.19 ارب ڈالر (یعنی تقریباً 8 ہزار ارب روپے) کی بیرونی قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ پاکستان کا کل قرضہ 117 ارب ڈالر ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد 2013ء کے اکتوبر کے وسط تک 750 ارب روپے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے قرض لیے ہیں۔ پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 3.2 ارب ڈالر کی خطرناک حد سے بھی کم رہ چکے ہیں۔ بیرون ملک پاکستانی محنت کشوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقم 2013-14 کی پہلی سہ ماہی میں تقریباً 3.9 ڈالر تک رہی ہے۔ بس یہی ایک سہارا ہے۔

2011ء سے اب تک پاکستان آئی ایم ایف کو 6.045 ارب ڈالر کی ادائیگی کر چکا ہے۔ جب کہ نیا قرضہ بھی 6.6 ارب ڈالر لے چکا ہے۔ پاکستان کے فنانس ڈپارٹمنٹ کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف 5 کروڑ لوگ باروزگار ہیں جب کہ 12 کروڑ کام کرنے کے اہل ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بیروزگاری 6 فیصد ہے۔ یعنی 20 کروڑ میں ایک کروڑ 20 لاکھ۔ پلاننگ کمیشن آف پاکستان نے دو سال بعد ستمبر 2013ء میں سال 2011ء کی نیشنل نیوٹریشن نے رپورٹ پیش کی ہے جس کے مطابق اس وقت 60 فیصد پاکستانی مناسب خوراک سے محروم ہیں اور صرف 3 فیصد بچوں کو مناسب خوراک مل رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 5 سال سے کم عمر کے 43 فیصد بچوں کی نشو ونما ادھوری رہ جاتی ہے۔ پاکستان میں کالا دھن بینک ٹو بینک منتقلی سے اس کا ثبوت مل جاتا ہے 2011ء میں پشاور میں 1.3 ٹریلین روپے کلیئر ہوئے ہیں اور اسی طرح کوئٹہ کے کلیئرنس سینٹر پر تقریباً 900 بلین روپے یعنی دونوں صوبائی دارالحکومتوں سے کلیئر ہونے والی رقوم 2 ٹریلین روپے سی زائد ہیں۔ اسی طرح فیصل آباد اور ملتان میں کلیئر ہونے والی رقوم کو دیکھا جائے تو وہ بالترتیب 1.3 ٹریلین اور 826 بلین روپے ہیں۔ یہ کالے دھن بینک سے گزرتے ہوئے کہیں بلیک ہول میں چلے جاتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ڈرگز اینڈ کرائم آفس کی ایک رپورٹ کے مطابق 2012ء میں افغانستان میں افیون کی کاشت کا رقبہ 2011ء کی نسبت 18 فیصد کے اضافے کے ساتھ 1,54,000 ہیکڑ تک پہنچ گیا۔ موجودہ کاشت سے 6000 ٹن سے زائد افیون کی پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ ایک کلو گرام افیون سے 10 گرام ہیروئن حاصل کی جاتی ہے اس وقت امریکی منڈی میں ہیروئن کی قیمت 172 ڈالر فی گرام ہے۔ یہ ہیروئن پاکستان کے راستے ہی سے بیرون ملک جاتی ہے۔ اس کھیل میں حکمراں طبقات کے بعض افراد شامل ہیں۔ سب سے اہم حصے داری مذہبی بنیاد پرستوں اور طالبان کی ہے۔ یہ جو طالبان کی آپس کی لڑائیاں پھوٹ پڑتی ہیں، یہ حصہ بانٹ کی لڑائیاں ہیں۔ بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ ہماری معاشی پالیسی روٹی کپڑا اور مکان ہے، وفاقی حکومت بتائے کہ اس کا پروگرام کیا ہے؟ وفاقی حکومت کیا بتائے گی ؟ ہاں مگر آئی ایم ایف بتا سکتی ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان درحقیقت سوشلسٹ معیشت کا ایک جز ہے۔ جب بلاول سوشلزم پر روشنی ڈالنا ہی بھول گئے ہیں جو کہ پارٹی کا بنیادی اثاثہ ہے تو پھر روٹی کپڑا مکان کی پالیسی خود بخود معدوم ہو جاتی ہے، اس لیے یہ اس کا ایک ادنیٰ حصہ ہے۔ امریکا کے وزارت دفاع کے نمایندے چک ہیگل جو کہتے ہیں کہ اب تک پاکستان کو 16 ارب ڈالر کی امداد دی جا چکی ہے، غیر فوجی امداد اس کے علاوہ ہے، وہ ہے 20 فیصد سے بھی کم یعنی 80 فیصد فوجی امداد۔ یہ ہیں ہماری معاشی پالیسی۔

ہمیں بم نہیں روٹی چاہیے جب کہ آٹا 55 روپے کلو ہو گیا ہے۔ گندم کی پیداوار بڑھانے کے بجائے اسلحے کی پیداوار اور خریداری میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جو زیادہ اسلحہ خریدتا ہے۔ صحت اور تعلیم میں آخری پانچواں۔ ڈرون حملوں کے خلاف پی ٹی آئی کا احتجاج جاری ہے، احتجاج ہونا بھی چاہیے اور شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے اڈے کو بھی مسمار کرنا چاہیے۔ اگر ڈرون حملوں کے خلاف 20 دن کا دھرنا ہوتا ہے تو آٹا سستا کروانے کے لیے 40 دن کا دھرنا ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ پاکستان میں صرف بھوک سے روزانہ ڈھائی ہزار آدمی مر رہے ہیں۔ یوتھ قرضہ اسکیم کے اعلان کے بعد 48 گھنٹے میں 18 لاکھ درخواستیں آنا بیروزگاری کے طوفان کا منہ چڑھانے کے مترادف ہے۔ پختون خوا کی نام نہاد انقلابی حکومت کو چاہیے تھا کہ کم از کم دال، آٹا، تیل اور چاول کی قیمتوں میں 50 فیصد کمی کرواتی، جیسا کہ وینزویلا میں صدر مادورو نے شروع کیا ہوا ہے۔ ایرانی ڈپٹی اسپیکر نے کہا ہے کہ امریکا نے ہمارے پر امن ایٹمی پروگرام کو تسلیم کر لیا ہے یعنی کہ امریکا کے تسلیم کرنے پر انھیں فخر ہے جب کہ امریکا کسی کی کوئی بات مانتا ہے تو اپنے مفادات کی خاطر۔ یہ بات قابل فخر نہیں بلکہ قابل شرم ہے۔

اب ایرانی صدر روحانی 300 ریال کی روٹی کم ازکم 30 ریال کی قیمت پر لا کر عوام کو ریلیف تو دیں۔ یوکرائن، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ کے عوام کی ان ملکوں کی معاشی انحطاط پذیری کے خلاف سڑکوں پر امنڈ آنے سے دنیا بھر کے عوام میں پھر ایک بار انقلابی لہر پیدا ہو گئی ہے۔ آئی ایم ایف کا اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو خودمختاری دینے کا مطالبہ کرنے سے کھلم کھلا عالمی مالیاتی استحصال اداروں کے تابع کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس سے زیادہ غلامی اور کیا ہو سکتی ہے؟ پاکستان کے صنعت کاروں اور تاجروں کی تنظیم آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن، پاکستان ہیومن ریورس ڈیولپمنٹ اور پاکستان انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی جانب سے لیبر انسپیکشن، پیشہ ورانہ تحفظ، صحت و سماجی خدمات اور سوشل سیکیورٹی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان کے بیان کی قلعی عالمی انٹر پرائز میں جھلس کر 300 مزدوروں کے مرنے پر کھل گئی جہاں مزدوروں کو خاص کر خواتین مزدوروں کو صرف 3000 روپے ماہانہ اجرت دی جاتی ہے۔ پاکستان میں 80 فیصد مزدور تمام تر لیبر قوانین کی سہولیات سے محروم ہیں۔ صرف 5 فیصد مزدور یونینائز ہیں۔ 60 فیصد مزدور ٹھیکیداری (خرکاری) نظام میں بدترین استحصال کا شکار ہیں۔ ان پر مزید جبر کا یہ حال ہے کہ آئی ایم ایف کے حکم پر نجکاری کے ذریعے لاکھوں مزدوروں کو بیروزگار کرنے کا گھناؤنا منصوبہ بنا لیا گیا ہے۔ مگر مزدور بھی اس کا بھرپور جواب دینے کی منظم تیاری میں برسر پیکار ہیں۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کو 3 ماہ گیس کی بندش کا نوٹس تھما دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان 3 ارب ڈالر کے زرمبادلہ سے محروم ہو جائے گا اور 30 لاکھ افراد بیروزگار ہو جائیں گے۔ بھوک، بیروزگاری اور مہنگائی کے خلاف بھی کم ازکم سال میں ایک دن بھرپور ''یوم سیاہ'' منانا چاہیے۔

خفیہ اداروں کے ذریعے لاپتہ افراد کی بازیابی تک ان کے اہل خانہ کو روزگار، تعلیم اور صحت کے مکمل اخراجات فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور بلا وارنٹ گرفتار کرنے والوں کو سیدھا جیل بھیجا جائے۔ یونان کے 16 صدی کے ذہین دانشور اور فلسفی سولونو نے کہا تھا کہ قانون مکڑی کا ایک ایسا جال ہے جسے طاقتور پھاڑ کر نکل جاتا ہے اور کمزور پھنس جاتا ہے۔ صرف ایک مثال کافی ہے، حکومت نے مزدوروں کی کم ازکم تنخواہ 10,000 روپے کی ہے جب کہ 95 فیصد مزدوروں کو اس سے کم تنخواہ ملتی ہے، اس پر کسی نے کوئی بھی سوموٹو نوٹس نہیں لیا ۔ یہ ہے عدالت اور انصاف۔ پاکستان کی اس معاشی بدحالی، انحطاط پذیری اور تقریباً دیوالیہ ہونا سرمایہ دارانہ نظام کی خرابی نہیں بلکہ یہ عمل اس کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ جرمنی، امریکا اور چین کی حالت بھی دگرگوں ہے۔ اس کا واحد حل پاکستان اور دنیا بھر میں محنت کشوں کا غیر طبقاتی انقلاب برپا ہو گا جہاں مزدور طبقہ اپنی قیادت خود پیدا کرے گا۔ انقلاب وہ ہوتا ہے جس کی کوئی پارٹی اور لیڈر نہیں ہوتا۔ انقلاب فرانس، پیرس کمیون، بالشویک انقلاب، شکاگو کی مزدور تحریک، اسپین کی عوامی جنگ اور وال اسٹریٹ قبضہ تحریک اس کے واضح ثبوت ہیں۔ انقلاب کے بعد ہر ادارہ خودکار، خودمختار اور عبوری کمیٹیاں اور انجمنیں بنا کر سارے کارہائے زندگی اور سماجی ضروریات کو پورا کر لے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں