سوالیہ نشان
ملک میں امن و امان کے قیام کے حوالے سے بھی حکومتی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے
آئی ایم ایف کی ایک تازہ جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2014-15ء میں بھی مہنگائی میں اضافے کا سلسلہ جاری رہے گا اور یہ سات سے دس فیصد تک پہنچ جائے گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم سطح پر آ گئے ہیں اور ادائیگیوں کے توازن کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں اس خدشے کا برملا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ سیکیورٹی کے مسائل اور توانائی بحران حکومت کے اصلاحاتی پروگرام پر اثرانداز ہو سکتا ہے اور ترقی کی شرح متاثر ہو سکتی ہے۔ آئی ایم ایف نے وزیر اعظم کی ٹیکس ترغیب اسکیم پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کی متذکرہ رپورٹ نواز حکومت کی کارکردگی پر واضح عدم اطمینان کا اظہار ہے۔ ملک کے کروڑوں غریب اور مفلوک الحال لوگوں نے ملک سے دہشت گردی، غربت، مہنگائی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ اور پسماندگی ختم کرنے کے مسلم لیگی رہنماؤں کے بلند و بانگ دعوؤں اور وعدوں پر اعتماد کر کے 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں اپنے ووٹوں کی طاقت سے مسلم لیگ (ن) کو اقتدار کے سنگھاسن پر اس یقین کے ساتھ بٹھایا تھا کہ میاں نواز شریف وزیر اعظم بن کر عوام کے دکھوں کا مداوا کریں گے عام آدمی کے مسائل بھی حل ہوں گے ان کے گھروں میں خوشحالی کی فصل لہلہائے گی اور غربت کا سورج ڈوب جائے گا، مہنگائی کا جن بوتل میں بند ہو جائے گا اور لوڈشیڈنگ کے اندھیرے اجالوں میں بدل جائیں گے۔ مذاکرات کی تلوار سے دہشت گردی کے عفریت کا سر قلم کر دیا جائے گا اور عوام کو خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹڈ کلنگ کے خوفزدہ ماحول سے نجات مل جائے گی اور کراچی تا خیبر امن قائم ہو جائے گا۔
لیکن حرماں نصیب قوم کی بدقسمتی کہ نئے سال کا سورج طلوع تو ہو چکا ہے لیکن نواز حکومت کی کارکردگی کا سورج عوام میں پھیلتی مایوسی، بے چینی اور اضطراب کے دھندلکوں کے پیچھے غروب ہوتا نظر آ رہا ہے کیونکہ گزشتہ 6/7 ماہ کے دوران ایک موقع بھی ایسا نہیں آیا کہ جب حکمراں جماعت کا کوئی وزیر یا خود وزیر اعظم پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتے کہ ان کی حکومت نے امن و امان کے قیام اور غریب و عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے کوئی قابل ذکر کام کیا ہے اور لوگوں کو اس سے یقینی فائدہ پہنچے گا۔ آپ نواز حکومت کی صرف قرضہ اسکیم ہی کی مثال لے لیجیے کہ جس کے ذریعے قرضے کا حصول اس قدر پیچیدہ، مشکل اور سخت ترین شرائط کی تکمیل کا متقاضی ہے کہ ایک عام تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوان ان کڑی شرائط کو پورا کرنے سے قاصر ہے یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو بار بار قرضہ اسکیم کے حوالے سے وضاحتیں پیش کرنا اور قوائد و ضوابط میں تبدیلیاں کرنا پڑ رہی ہیں۔ اس کے باوجود صورتحال مایوس کن ہے اور نوجوان قرضے کے حصول سے گریزاں نظر آتے ہیں۔
ایک جانب حکومت بیروزگاری پر قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہے تو دوسری جانب پی آئی اے، پاکستان اسٹیل ملز اور دیگر اہم قومی اداروں کی نجکاری کی پلاننگ کر کے ہزاروں ملازمین کے روزگار پر شب خون مار کے انھیں بیروزگاری کی دلدل میں دھکیلنے کی خوفناک منصوبہ بندی کر رہی ہے حکمرانوں کا کام تو ملک کے بیروزگاروں کو روزگار فراہم کرنا اور برسرروزگار افراد کی ملازمتوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے دنیا بھر کی جمہوری اور مثبت سوچ کی حامل مزدور دوست حکومتیں اپنی معاشی پالیسی کے تحت قوانین وضع کرتی ہیں۔ صنعتوں کے قیام کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو اندرون ملک سرمایہ کاری کے لیے ترغیبات اور سہولیات دی جاتی ہیں اور قومی معیشت کے استحکام کے لیے جنگی بنیادوں پر ہمہ جہت کام کیا جاتا ہے بعینہ اگر کوئی سرکاری ادارہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہا اور اسے خسارے کا سامنا ہے تو اصولی طور پر حکومت اس ادارے کی بحالی کے لیے مالی سپورٹ ''بیل آؤٹ پیکیج'' فراہم کرتی ہے اور انتظامی سطح پر تبدیلیاں کی جاتی ہیں تا کہ وہ ادارہ دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر قومی معاشی دھارے میں فعال پیداواری کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائے اور اس ادارے سے وابستہ ہزاروں ملازمین کے روزگار کو بھی تحفظ حاصل ہو۔ آپ صرف اسٹیل ملز ہی کی مثال لے لیجیے جو ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے آج اسی اہم قومی ادارے کو مالی بحران کا سامنا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسٹیل ملز کو خسارے سے نکالنے اور اس کی بحالی و ملازمین کے روزگار کے تحفظ کے لیے حکومت مناسب بیل آؤٹ پیکیج کا اعلان کرتی لیکن افسوس کہ حکومت اسٹیل ملز جیسے اہم قومی صنعتی ادارے جو ''مدر انڈسٹری'' کہلاتا ہے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کر رہی ہے اس کے سر پر اسٹیل ملز کی نجکاری کر کے ہزاروں ملازمین کو بیروزگار کرنے کا بھوت سوار ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ کے سابق معاون خصوصی اور اسٹیل ملز کی سی بی اے کے چیئرمین شمشاد قریشی نے راقم کو ایک ملاقات کے دوران بتایا کہ نواز حکومت اسٹیل ملز کی جبری نج کاری کرنے کے لیے ادھار کھائے بیٹھی ہے اسے ادارے کی بقا اور ملازمین کے روزگار کے تحفظ کی قطعاً کوئی فکر نہیں۔ یہ حکومت کی مجرمانہ غفلت نہیں تو اور کیا ہے کہ تقریباً 3ماہ سے ادارے کے 18 ہزار ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں ان کے گھروں کے چولہے بجھ گئے ہیں ملازمین کے پاس ماہانہ راشن خریدنے، بچوں کی اسکول فیس کی ادائیگی اور یوٹیلیٹی بلز تک جمع کروانے کے پیسے نہیں ہیں اور نوبت فاقوں تک آ پہنچی ہے لیکن حکومت نے اسٹیل ملز کی طرف سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں جو حکومت کی مزدور دشمنی کا ثبوت ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت نے عوام کے دیرینہ مسائل کے حل کی طرف سے اپنی توجہ ہٹا رکھی ہے یہی وجہ ہے بیروزگاری، مہنگائی و گرانی اور غربت و افلاس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے گزشتہ 6ماہ کے دوران اشیا ضرورت کی چیزوں کی قیمتیں تیز رفتاری سے بڑھی ہیں۔ آٹا، چاول، چینی، گھی، تیل، دالیں، گوشت، دودھ اور سبزیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں نتیجتاً روزانہ اجرت پر کام کرنیوالے مزدور پیشہ لوگ اور کم آمدنی والے تنخواہ دار طبقے کی قوت خرید بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور عام آدمی کی زندگی عذاب جان بن کر رہ گئی ہے
دوسری جانب حکمراں عالمی مالیاتی اداروں سے بھاری سود پر قرضے حاصل کر کے اپنے اکاؤنٹ اور اثاثوں میں اضافہ کر رہے ہیں اور سود کا بوجھ عام آدمی کی جیبوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ حکومت کو اپنی آمدنی بڑھانے اور زائد ریونیو حاصل کرنے کے لیے جاگیرداروں، سرمایہ کاروں پر ٹیکس عاید کرنا چاہیے لیکن افسوس کہ گردن ہمیشہ غریب کی پکڑی جاتی ہے کہ اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ ایک خبر کے مطابق حکومت پٹرول اور ڈیزل پر 2.50 پیسے فی لیٹر نیا روڈ ٹیکس نافذ کر کے صارفین سے تقریباً 20 ارب روپے کا ''جبری بھتہ'' وصول کرنے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ غریب آدمی جو پہلے ہی گرانی و غربت کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اس پر مزید بوجھ ڈال کر اس سے گویا جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔
ملک میں امن و امان کے قیام کے حوالے سے بھی حکومتی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے اپنے دعوؤں کے مطابق طالبان سے مذاکرات میں حکومت ناکام ہو چکی ہے نتیجتاً تحریک طالبان کی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کراچی تا خیبر خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹڈ میں عام آدمی سے لے کر سرکاری اہلکاروں تک سب ٹی ٹی پی کے نشانے پر ہیں چند روز قبل کراچی میں پولیس کے جواں ہمت، بہادر اور دلیر افسر چوہدری اسلم کو ٹی ٹی پی نے نشانہ بنا کر ثابت کر دیا اور حکومت کو کھلا پیغام بھی دے دیا ہے کہ انھیں مذاکرات کی ''حکومتی خواہش'' سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ ہر صورت اپنے مقاصد کے حصول تک ہر ہدف کو نشانہ بناتے رہیں گے۔ مذکورہ مخدوش حالات حکومتی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہیں اگر اکابرین حکومت ادراک رکھتے ہوں۔