خاندان بھر میں اپنی شرارتوں کے لیے مشہور تھا شفقت رحیم راجپوت

وکلا تحریک نے انقلاب کی راہ ہم وار کردی، کونسلر سے وزیراعظم تک سب پر ایک ہی قانون کا اطلاق ہونا چاہیے


Parvez Khan January 23, 2014
معروف قانون داں اور صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سکھر، شفقت رحیم راجپوت کی کہانی ۔ فوٹو : فائل

ارادے بُلند ہوں، لگن ہو، عزم ہو، تو رکاوٹیں فرار ہوجاتی ہیں، راستہ ہم وار ہوتا چلا جاتا ہے۔ منزل قریب آجاتی ہے۔

شفقت رحیم راجپوت کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ابھی چالیس کے پیٹے میں ہیں، اور شمار شہر کے بڑے وکلا میں ہونے لگا ہے۔ وکلا سیاست میں بھی جھنڈے گاڑے۔ پہلے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن، سکھر کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ پھر جنرل سیکریٹری ہوگئے۔ اب صدر ہیں۔ اس پلیٹ فورم سے وکلا تحریک میں فعال کردار ادا کیا۔ اِس وقت وکلا برادری کی امیدوں کا محور بنے ہوئے ہیں۔

شفقت رحیم راجپوت نے 9 نومبر 1972 کو سکھر کے نام وَر وکیل، محمد شوکت راجپوت کے گھر آنکھ کھولی۔ چار بہن بھائیوں میں اُن کا نمبر دوسرا ہے۔ ماضی کھنگالتے ہوئے کہتے ہیں،''میں خاندان بھر میں اپنی شرارتوں کے لیے مشہور تھا۔ ہر تقریب میں توجہ کا مرکز بن جاتا۔ اپنی شوخی سے محفل کو چار چاند لگا دیتا۔'' پیشۂ وکالت اُنھیں والد سے وراثت میں ملا۔ ان کے علاوہ بڑی بہن، مسرت جمیل اور چھوٹا بھائی، محمد شکیل بھی اِسی شعبے سے وابستہ ہیں۔ ایک بہن خاتون خانہ کی حیثیت سے زندگی گزار رہی ہیں۔

شفقت رحیم کے تعلیمی سفر کی کہانی یوں ہے کہ ابتدا میں سینٹ میری ہائی اسکول کا حصہ رہے۔ امتیازی نمبروں سے میٹرک کرنے کے بعد اپنے ننھیال، گھوٹکی منتقل ہوگئے۔ ان کے نانا، محمد معین قریشی علاقے کے معروف تاجر تھے۔ گریجویشن 1989 میں گورنمنٹ ڈگری کالج گھوٹکی سے کرنے کے بعد سکھر پلٹے۔ ماسٹرز کے لیے اسلامیہ سائنس کالج کا رخ کیا۔ 1993 میں اکنامکس میں ایم اے کیا۔



اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی آرزو میٹرک کے بعد عملی زندگی میں لے آئی۔ کاروبار میں ماموں کا ہاتھ بٹانے لگے۔ کہتے ہیں،''وہ مجھے ماہانہ ایک ہزار روپے جیب خرچ دیا کرتے۔ ایک سال تک میں ان کے ساتھ رہا۔ وہ تجربہ یادگار تھا۔'' پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔ گھر میں ایک چھوٹی سی لائبریری قائم کرلی۔ ہم خیال دوستوں اور اہل علم کے ساتھ وہاں بیٹھک جمتی۔ کتابوں کا تبادلہ ہوتا۔ چھے سال یہ سلسلہ جاری رہا۔

ماسٹرز کے بعد والد کے مشورے پر قانون کی تعلیم حاصل کی۔ گورنمنٹ آغا بدرالدین لا کالج میں داخلہ لے لیا۔ ایل ایل بی کے بعد معروف وکیل، منظر عالم کے ساتھ کام کرنے لگے۔ 1998 میں کراچی کا رخ کیا۔ معروف قانون داں، زاہد حامد کی سرپرستی میں کام شروع کیا۔ ایک سال بعد سکھر لوٹے۔ اب انفرادی حیثیت میں پریکٹس کرنے لگے۔ محنت نے جلد ہی شناخت عطا کر دی۔ تیزی سے ترقی کے زینے عبور کیے۔ آج شمار سکھر کے اہم وکلا میں ہوتا ہے۔

گذشتہ بارہ برس میں دو ہزار سے زاید کیسز لڑ چکے ہیں۔ کام یابی کی شرح، بہ قول اُن کے، 90 فی صد رہی۔ اپنے طرز وکالت کی بابت کہتے ہیں،''میری کوشش ہوتی ہے کہ مظلوم کو انصاف کی فوری فراہمی یقینی بنائی جائے۔ ہاں، بعض کیسز میں موکل کی خواہش پر مصالحت کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ اگر دو افراد کورٹ کے باہر ہی گلے شکوے ختم کرلیں، افہام و تفہیم سے مسئلہ حل ہوجائے، تو کوئی مضایقہ نہیں۔''

وکلا سیاست میں بھی فعال رہے۔ 2005 میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن، سکھر کے انتخابات میں حصہ لیا۔ کام یابی نے قدم چومے۔ وہ نائب صدر منتخب ہوگئے۔ 2007 میں ہونے والے انتخابات میں بھاری اکثریت سے جنرل سیکریٹری چنے گئے۔ 2008، 2010 اور 2013 کے الیکشن میں وہ بار کے صدر منتخب ہوئے۔ کہتے ہیں،''بار کی سیاست میں میرے استاد مشہور وکیل، امداد علی اعوان اور مقبول اعوان ہیں۔ قربانو ملانو اور اعجاز منگی جیسی شخصیات نے بھی قدم قدم پر ساتھ دیا، اور راہ نمائی کی۔ ان ہی دوستوں کے تعاون کی بدولت میں آج سکھر ریجن کے ایک ہزار وکلا کی نمایندگی کر رہا ہوں۔''

بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہونے کے بعد وکلا کی فلاح و بہبود اُن کی ترجیح رہی۔ آج کل ایک خاص پراجیکٹ توجہ کا مرکز ہے۔ کہنا ہے،''میری کوشش ہے کہ سکھر سمیت مضافاتی علاقوں کے تمام وکلا کو رہایشی سہولیات مہیا کی جائیں، انھیں دفتر کرنے کی سہولت دی جائے۔ اس ضمن میں کوششیں جاری ہیں۔ امید ہے کہ جلد یہ منصوبہ پایۂ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔''

معاشرے کی بہتری میں وکلا کے کردار کی بابت کہتے ہیں،''میرے نزدیک وکلا تحریک نے انقلاب کی راہ ہم وار کردی ہے۔ اس موومنٹ کی بدولت ملک بھر کے وکلا ایک پلیٹ فورم پر اکٹھے ہوئے۔ میرے نزدیک وکلا تحریک چیف جسٹس کی بحالی پر ختم نہیں ہوئی، اس نے ایک بڑی تبدیلی کے لیے زمین تیار کی۔ آج کوئی بھی سیاسی ایشو ہو، ملکی سلامتی کا معاملہ ہو، وکلا سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ وہ معاشرے کی بہتری میں موثر کردار ادا کر رہے ہیں۔''

سابق چیف جسٹس، افتخار محمد چوہدری سے متعلق ان کا کہنا تھا،''بحالی کے بعد ان پر جتنا دباؤ تھا، اس کی عدلیہ کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ وہ امیدوں کا محور بن گئے تھے۔ ان کے اقدامات سے عدالتی نظام میں خاصی بہتری آئی۔ ہمارے نئے چیف جسٹس، تصدق حسین جیلانی صاحب بھی ان ہی خطوط پر کام کر رہے ہیں۔'' شفقت صاحب کے مطابق عدالتی نظام میں بہتری سے ماتحت عدالتوں پر مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ برسوں التوا کا شکار رہنے والے کیسز پر توجہ مرکوز کی گئی۔ آج 2009 سے پہلے کا کوئی کیس سکھر میں زیر التوا نہیں۔ ''ججز نہیں، بلکہ ججز کے فیصلے بولتے ہیں۔ بولنے کا کام تو ہمارے سیاست دانوں کا ہے۔ سابق چیف جسٹس، افتخار محمد چوہدری نے جو یادگار فیصلے دیے، وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ ''



شفقت صاحب کے نزدیک انتشار کا شکار نظام تعلیم ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ''ہم اپنے بچوں کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں۔ بڑھتے نقل کے کلچر نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔ ہماری درس گاہیں پڑھے لکھے جاہل تیار کر رہی ہیں۔ اُن کے پاس ڈگریاں تو ہیں، مگر قابلیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملکی ترقی کا راز تعلیم میں مضمر ہے۔ جب تک ہم اس جانب توجہ نہیں دیں گے، پاکستان ترقی نہیں کرسکتا۔'' خواہش مند ہیں کہ اس ضمن میں اساتذہ اور والدین اپنا کردار ادا کریں۔ ''اگر وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں، تو ان ہی درس گاہوں سے پڑھنے والے طلبا و طالبات بین الاقوامی دنیا میں پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ میں جو کچھ ہوں، اپنے اساتذہ کی وجہ سے ہوں۔ مجھے غلام سرور پٹھان جیسے استاد کی سرپرستی میسر آئی۔ ان کی نصیحتیں آج بھی یاد ہیں۔''

سکھر کے مسائل پر اُنھیں گہری تشویش ہے۔ اُن کے بہ قول،''اگر اس شہر کو یتیموں کا شہر کہا جائے، تو غلط نہیں ہوگا۔ یہاں کے منتخب نمایندوں اور سیاست دانوں نے اپنی توجہ موروثی سیاست اور اثاثے بڑھانے پر مرکوز رکھی۔ جن لوگوں سے یہ ووٹ حاصل کرتے ہیں، منتخب ہونے کے ان کے مسائل پر قطعی توجہ نہیں دیتے۔ آج شہر میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک جام۔ تجاوزات کی بھرمار۔ آلودگی۔ کبھی سکھر کی خوب صورتی کی مثال دی جاتی تھی۔ آج جب بیرون شہر سے آنے والے دوست اِس بابت سوال کرتے ہیں، تو ہمیں شرمندگی ہوتی ہے۔'' دُکھ ہے کہ اُن کے آبائی شہر میں نہ تو کوئی بڑی درس گاہ ہے، نہ ہی کوئی اسپتال۔ ''یہ ایک المیہ ہے۔ یہاں معالجین مریضوں پر تجربات کرتے ہیں، اور جب ان کی حالت بگڑ جاتی ہے، تو مریض کو کراچی لے جانے کی ہدایت کر دی جاتی ہے۔ وہاں جاکر معلوم ہوتا ہے کہ مریض کو جو ادویہ دی گئیں، وہ اس مرض کی تھی ہی نہیں۔ اس سے زیادہ کرب ناک صورت حال بھلا کیا ہوگی۔''

ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے صالح قیادت ان کے نزدیک پہلی شرط ہے۔ کہنا ہے،''اس وقت ہمیں شہید ذوالفقار علی بھٹو جیسے لیڈر کی ضرورت ہے، جو ہمیں مسائل کے بھنور سے نکال سکے۔ جب تک اس ملک کے حکم راں قوم سے مخلص نہیں ہوں گے، حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔ پاکستان کو اﷲ تعالیٰ نے بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے، اگر حکم راں ایمان داری سے انھیں استعمال کریں، تو یہ ملک دنیا کے لیے مثال بن سکتا ہے۔'' کرپشن ان کے نزدیک ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ ''ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاست دانوں کے غیر ملکی اثاثے نیلام کر کے وہ رقم پاکستان منتقل کی جائے۔ کڑا احتساب ہو۔ کونسلر سے وزیر اعظم تک سب پر ایک ہی قانون کا اطلاق ہونا چاہیے۔ انتخابات شفاف ہوں۔ سیاست دانوں کے انکم ٹیکس گوشواروں کی جانچ کی جائے۔اس طرح کے سخت اقدامات ہی حقیقی تبدیلی کی راہ ہم وار کر کرسکتے ہیں۔''

شفقت رحیم کے نزدیک حضرت عمرؓ کا دورِ حکومت مثالی تھا۔ ''آپؓ کے دور میں زکوٰۃ کی تقسیم کو شفاف بنانے کے لیے باقاعدہ سسٹم ترتیب دیا گیا۔ انھوں نے سب سے پہلے خود قوانین کی پیروی کی۔ اس ایک قدم سے واضح تبدیلی آئی۔ میرے خیال میں اگر ہم ٹیکس نظام کے بجائے زکوٰۃ کی منصفانہ تقسیم پر توجہ دیں، تو ملک کے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ آج بڑے بڑے سیاست دان اور تاجر فقط چند ہزار روپے ٹیکس دیتے ہیں، جب کہ یہ ہی افراد لاکھوں روپے سالانہ زکوٰۃ کی مد میں نکالتے ہیں۔ اگر ہم اس طرف توجہ دیں، تو ہمارا ایک بھی مسئلہ باقی نہ رہے۔''

این جی اوز سے متعلق شفقت رحیم کا کہنا ہے،''اس وقت ہمیں انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے۔ غیرسرکاری تنظیمیں میرے نزدیک فعال اور مثبت کردار ادا کر رہی ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتیں، تو زلزلوں، سیلابوں اور دیگر آفات میں نقصان کی شرح مزید بڑھ جاتی۔ ہاں، اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چند این جی اوز فلاحی خدمت کے نام پر مال ہڑپ کر رہی ہیں۔''

ذاتی زندگی زیر بحث آئی، تو بتانے لگے، 5 نومبر 1995 کو ان کی شادی ہوئی۔ تین سال بعد اﷲ تعالیٰ نے بیٹے سے نوازا، جس کا نام عبداﷲ نور رکھا گیا۔ بعد میں مشفق رحیم ، محب علی اور ارشبہ کی پیدایش ہوئی۔

2005 میں خاندان کے ہم راہ عمرہ کی سعادت حاصل کرنا زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ تھا۔ خانۂ خدا کا دیدار انتہائی پُرمسرت واقعہ تھا، جو آج بھی ذہن میں محفوظ ہے۔ خواہش ہے کہ دوبارہ سرزمین حجاز کا سفر کریں۔ دکھ بھی کئی آئے زندگی میں۔ سب سے زیادہ دُکھ اس وقت ہوتا ہے، جب کسی انسان کی کوئی تذلیل کرے۔ لال مسجد آپریشن انتہائی غم آگیں واقعہ تھا۔ ''آپریشن کے دوران ہونے والی اموات کے سبب کئی دنوں تک شدید ذہنی دباؤ میں رہا۔''

شفقت رحیم خود کو خوش نصیب گردانتے ہیں۔ ''اﷲ تعالیٰ نے مجھے انتہائی کم عمری میں وہ تمام نعمتیں عطا کیں، جو شاید دنیا کے بہت کم لوگوں کو نصیب ہوئی ہوں۔ فقط 35 برس کی عمر میں ڈسٹرکٹ بار کا صدر منتخب ہونا ایک بڑا اعزاز تھا۔''

شفقت رحیم مصروفیات کے باعث خاندان کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے، جس کا اُنھیں قلق ہے۔ ''اہلیہ کے تعلیم یافتہ ہونے کا مجھے خاصا فائدہ ہوا۔ گھر کا نظام وہ سنبھالتی ہیں۔ بچوں کی تربیت میں ہاتھ بٹاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے اس ضمن میں کبھی کوئی پریشانی نہیں رہی۔''

قانون کی کتابوں کے علاوہ ادب بھی مطالعے میں رہتا ہے۔ تاریخ من پسند موضوع ہے۔ کہنا ہے،''ہمارا ماضی انتہائی درخشاں تھا، جب کہ انگریز ایک زمانے میں پستی کا شکار تھے۔ حالات پھر بدل سکتے ہیں، بس ہمیں منظم ہونا پڑے گا۔'' کرکٹ سے بے پناہ لگاؤ ہے۔ شفقت رحیم نے سکھر میں پہلی مرتبہ ڈسٹرکٹ بار کی ٹیم بنا کر ٹورنامینٹ کا انعقاد کروایا۔ فن کاروں میں وہ عابدہ پروین اور جگجیت کے مداح ہیں۔ شعرا میں حبیب جالب، فیض احمد فیض اور احمد فراز پسند ہیں۔ چھٹیاں خاندان کے ساتھ مناتے ہیں۔ ایوبیہ اور مری کا رخ کرتے ہیں۔ سیاحت کے نقطۂ نگاہ سے یہ دو مقامات انھیں پسندیدہ ہیں۔ کھانے میں دال چاول اور بھنڈی گوشت سے رغبت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں