پہلی بلوچی فلم کے خالق انور اقبال

بلوچی فلم بنانے کا مقصد یہ تھا کہ بلوچ قوم کو دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا اور ساتھ ہی بلوچی زبان کو بھی فروغ دینا تھا۔


Shabbir Ahmed Arman July 09, 2021
[email protected]

KARACHI: پاکستان فلم انڈسٹری کی پہلی بلوچی فلم ھمل و ماہ گنج کے خالق و پاکستان ٹیلی ویژن انڈسٹری کے سینئر اداکار محمد انور اقبال بلوچ 71برس کی عمر میں کینسر اور عارضہ قلب کے باعث طویل علالت کے بعد یکم جولائی کو انتقال کرگئے۔

چند ماہ قبل اپریل میں، ان کی اہلیہ کا بھی انتقال ہوگیا تھا ، انور اقبال نے چار بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔ انور اقبال کا جنم کراچی کے قدیمی علاقہ لیاری میں ہوا تھا جب کہ ان کے والد حاجی محمد اقبال بلوچ کا تعلق مکران بلوچستان سے تھا اور سیاست میں سرگرم رہے تھے۔

انور اقبال نے کچھ پاکستانی فلموں میں بطور ہیرو کے بھی اپنے فن کا جوہر دکھائے تھے، فلم شیش ناگ میں ان کی ہیروئن شبنم تھیں انھوں نے اردو اور سندھی کے کئی ڈراموں میں یادگار کردار ادا کیے تھے ، تاہم ڈرامہ سیریل شمع میں ان کے کردار نانا کی جان قمرو نے انھیں بام عروج پر پہنچا دیا تھا۔

بلوچی زبان کی پہلی فلم ھمل و ماہ گنج بنانے کا اعزاز بھی انھی کے نام ہے۔ اس فلم کے فلم ساز اشفاق اکبر ، ہدایتکار ایم اسلم بلوچ و انور اقبال تھے ، کہانی و موسیقی فتح محمد نسکندی کی تھی جب کہ فلم کے مکالمے ظہور شاہ ہاشمی نے لکھے تھے۔

اس فلم کے ستاروں میں انور اقبال ، انیتا گل ، غلام رسول مگسی ، نادر شاہ عادل ، بوبی ، محمود لاسی ، اے آر بلوچ ، نوشابہ ، شکیل لاسی ، نور محمد لاشاری ، محمد صدیق بلوچ ، بانو ، مداری اور ساقی شامل تھے ، اس کے جاری کردہ بلوچستان پکچرز تھے ۔ اس فلم سے قبل انور اقبال ٹی وی ڈرامہ آگ اور آنسو میں بطور ہیرو کام کرچکے تھے۔ انور اقبال نے جامعہ کراچی سے ماسٹرز کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد 1975ء میں پروڈکشن سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا ۔

پہلی بلوچی فلم ھمل و ما گنج جمعہ 28مئی 1975ء کو کراچی کے تین سینما گھروں ایروز ، راکسی اور کرن میں ریلیز کی جانے تھی جب کہ اس سے قبل اس فلم کو جمعہ 6 جنوری 1975ء کو کراچی میں مشن روڈ پر واقع قسمت سینما میں افتتاح کیا جانا تھا کہ اس دوران ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا تھا بلوچ قوم پرستوں کے اعتراض کے باعث اس فلم کی ریلیز روک دی گئی تھی۔ 2013ء میں کراچی کے سینما گھر بمبینو میں صحافیوں کے لیے اس فلم کا ایک شو کا اہتمام کیا گیا تھا۔

اسی دوران ایک بلوچی ٹی وی چینل وش میں قسط وار ٹیلی کاسٹ کرنے کی بازگشت سنائی دی ، بعد ازاں28فروری 2017ء میں اس فلم ھمل و ماگنج کو 42سال بعد آرٹس کونسل کراچی کے آڈیٹوریم میں فقط ایک شو کے لیے ریلیز کیا گیا تھا ، اب یہ فلم سوشل میڈیا پر بھی دستیاب ہے۔ انور اقبال اداکار کے علاوہ استاد بھی تھے اور ایک نجی اسکول میں بچوں کو تعلیم دیتے تھے۔ انور اقبال کی فنی خدمات کے اعتراف میں دو سال قبل لاہور کے الحمرا آرٹس کونسل اور فنکاروں کی جانب سے انھیں خراج تحسین پیش کیا گیا تھا ۔

پہلی بلوچی فلم ھمل و ماہ گنج ایک تاریخی کہانی پر مبنی تھی جو خطہ بلوچستان کلاچ میں اس وقت پرتگیزی حملہ آوروں کے دور حکومت کے پس منظر میں لکھی گئی تھی۔ ھمل و ماہ گنج کے درمیان محبت کی لازوال داستان کے ساتھ ساتھ اس میں روایتی بلوچی بہادری کا ذکر بھی تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح ھمل کے والد نے اپنے جفاکش ساتھیوں کے ساتھ پرتگیزی حملہ آوروں کا مقابلہ کیا تھا ، جب فلم کا پریمئیر شو کراچی کے بمبینو سینما میں طے ہوچکا تھا کہ اس فلم کے ریلیز کی مخالفت میں باقاعدہ ایک مہم شروع ہوئی تھی جس کی وجہ سے یہ فلم ریلیز نہ ہوسکی تھی۔

فلم پر اعتراض یہ تھا کہ اس میں بلوچی ثقافت کو مسخ کیا جارہا تھا اور اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو بلوچ قوم کی بدنامی ہوگی جب کہ یہ سوچ غلط فہمی پر مبنی تھی۔ انور اقبال نے تمام معترضین کو ایسٹرن اسٹوڈیو لے جاکر پوری فلم چلا کر دکھائی ، جذباتی نوجوان طبقہ جنھوں نے اس مہم کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی تھی قائل نہ ہوسکے۔

اس طرح ایک نیک اور قومی جذبے کے تحت جدید تقاضوں کے مطابق فلم کے ذریعے بلوچی ثقافت و بہادری کو اجاگر کرنے کی ایک بے ضرر کوشش کو ناکامی کا سامنا ہوا۔ یہ فلم بلوچی تہذیب و ثقافت کے عین مطابق تھی، یہ فلم میں نے دیکھی ہے اس میں تہذیب کے ہر پہلو کو مد نظر رکھا گیا تھا ، یہ الگ بات ہے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر کلچر میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، اس کے مطابق نہیں تھی بلکہ اس وقت کے خالص روایات اور معاشرتی رہن سہن کی عکاسی تھی۔

معترضین کی رائے تھی کہ ہم نے ہم نے محسوس کیا کہ بلوچی ثقافت پر ضرب پڑنے والی ہے اور بلوچی فلم ھمل و ماہ گنج کی صورت میں نئی نسل کو گمراہی کی دعوت دی جا رہی ہے بلکہ یہ سمجھا جارہا تھا کہ اگر اس فلم کو چلنے دیا گیا تو اس وقت پنجابی ، پشتو اور سندھی فلموں میں جو ان کی قومی ثقافت کا تماشا دکھایا جارہا ہے آگے چل کر بلوچی ثقافت کا بھی یہی حشر ہوجائے گا۔ معترضین کا کہنا تھا کہ بلوچ نوجوان کچھ بھی برداشت کرسکتا ہے لیکن بلوچی غیرت و حمیت کے تحفظ کے لیے وہ جان کی بازی لگانے پر تیار ہوجاتا ہے۔ بقول معترضین کے یہی جذبہ تھا کہ چند نوجوان کہیں اکٹھے ہوئے اور اس فلم کے خلاف منصوبہ بندی کی گئی اور تقریبا 22 انجمنیں اور ایسوسی ایشنوں پر مشتمل ایک ایکشن کمیٹی بنائی گئی اور یہ طے پایا کہ سب ایک پلیٹ فارم کے تحت اپنی جدوجہد شروع کریں۔

اس طرح تحریک تحفظ ثقافت بلوچاں کے نام سے تحریک کی ابتدا ہوئی ، یہ تحریک اس قدر شدت اختیار کر گئی کہ سینما مالکان نے اس فلم کی نمائش کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ اس تحریک کا مقبول نعرہ یہ تھا (نہیں چلے گی، نہیں چلے گی، بلوچی فلم نہیں چلے گی ) اور ہر سینما گھر کے دیوار پر یہ لکھا گیا تھا کہ (جس سینما پر یہ فلم چلائی جائے گی اسے آگ لگا دی جائے گی) اس طرح یہ فلم ہمیشہ کے لیے ڈبے میں بند ہوگئی ۔

لالا فقیر محمد بلوچ جو کہ حیات ہیں جو اس تحریک کے بانی تھے ایک ملاقات میں انھوں نے راقم کو بتایا تھا کہ یہ بات غلط ہے کہ ہم کسی بھی بلوچی فلم کے خلاف تھے بلکہ ہمارا مقصد صرف یہ تھا کہ ایسی فلم ہو جس میں صحیح تہذیب اور ثقافت کی عکاسی ہو جو کمرشل بنیاد پر نہ بنائی گئی ہو اور یہ پیسہ کمانے کا ذریعہ نہ بنے۔ بنیادی طور پر ہم عریانیت کے خلاف تھے اور فلم ھمل و ما گنج کے کچھ سین اسی زمرے میں آتے تھے۔ مزید یہ کہ اس فلم میں تاریخی حقائق کو مسخ کرکے پیش کیا گیا تھا یہی باتیں ہم نے انور اقبال کو سمجھائی تھیں ورنہ ان سے ہماری کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔

بہرکیف بلوچی فلم بنانے کا مقصد یہ تھا کہ بلوچ قوم کو دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا اور ساتھ ہی بلوچی زبان کو بھی فروغ دینا تھا تاکہ بلوچ قوم اپنی روایات کے مطابق نظم و ضبط کا پابند رہے اور ایک ایسا آئیڈیل پیدا کریں جس میں قوم کی خدمت کرنے کا حقیقی جذبہ پایا جائے۔ آج ہم میں انور اقبال نہیں رہے لیکن ان کی شخصیت اور ان کا فن ہمیشہ ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں