ملکی آبادی میں 6 کروڑ کے غیر قدرتی اضافے کی وجہ مہاجرین ہیں

پاکستان کی بنیاد مسلم اکثریتی آبادی تھی‘ اسے نقصان بھی آبادی کی بنیاد پر پہنچایا گیا۔


فیروز پور اور گرداسپور میں مسلم اکثریت کو زبردستی پاکستان کی طرف دھکیلنے والوں نے مشرقی پاکستان کی ہندو آبادی کو ہجرت نہیں کرنے دی۔ فوٹو: فائل

پا کستا ن رقبے کے لحا ظ سے دنیا کا پینتیسواں اور آبادی کے اعتبار سے پانچواں ملک ہے ،غالباً یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آبادی میں غیر قدرتی اضافہ بھی دنیا کے ملکوں کے مقابلے میں زیادہ رہا ہے اور قدرتی یا فطرتی طور پر بھی یہاں آبادی دنیا کے دیگر ملکوں کے مقا بلے میں زیادہ بڑھی ہے۔

پاکستان 14 اگست 1947 ء کو ایک آزاد اور نئے ملک کے طور پر قائم ہوا اُس وقت اس ملک کے دوحصے تھے مشرقی پا کستا ن اور مغربی پا کستان۔ ان دونوں کے درمیان ایک ہزار میل بھارتی علا قہ فاصلے کے طور پر حائل اور یوں مشرقی اور مغربی پا کستان کے میں وقت کے لحاظ سے ایک گھنٹے کا فرق تھا، یعنی مشرقی پاکستان میں پورا ایک گھنٹہ پہلے سورج طلوع و غروب ہو تا تھا۔

پاکستان کاکل رقبہ اُس وقت 943665 مربع کلو میٹر تھا جس میں سے مشرقی پاکستان کا رقبہ 147570 مربع کلو میٹر تھا اور مغربی پاکستان کا رقبہ 796095 مربع کلو میٹر تھا۔ اس میں گلگت بلتستان کا رقبہ شامل نہیں تھا،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر 14 اگست 1947 ء کو آزاد نہیں ہو ئے تھے ، جس کے لیے ہند وستان کے آخری وائسرائے اور گو رنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن اور انگریز آرمی چیف جنرل ڈیگلس گریسی اور جنرل میسوری یہ سب ہی پنڈت جوہر لال نہرو اور سردار ولب بھائی پاٹیل کے ساتھ تھے۔

وہ برصغیر کی ایسی تقسیم چاہتے تھے جس کی وجہ سے پا کستان اور بھارت آزادی کے ساتھ ہی ایک دوسرے سے نبردہ آزما ہو جائیں اور ساتھ ہی سابق سوویت یونین اور چین 'جو اُس وقت آزادی کی مسلح جد وجہد مصروف تھا' اِن کے خلاف پاکستان اور بھارت کو استعمال کیا جاسکے۔

اس سازش میں بھی آبادی بنیادی حیثیت کی حامل رہی، وہ اس طرح کہ ہند وستان میں قانون 1935 ء کے تحت دوسرے الیکشن 1945-46 ء کے موسم سرما میں ہو ئے تھے جس کے نتیجے میں مسلم لیگ نے ہندو ستان کے صوبوں میں 90 فیصد مسلم نشستوں اور مرکزی اسمبلی کی مسلم نشستوں پر 100فیصد کامیابی حاصل کی اور اب پاکستان کا قیام یقینی ہو گیا۔ اس الیکشن کے بعد مشترکہ ہندوستان میں مشترکہ حکومت تشکیل پائی جس کے وزیراعظم پنڈت جوہر لال نہرو تھے وزیر داخلہ ولب بھائی پا ٹیل تھے اور وزیر خزانہ لیاقت علی خان تھے۔

اگست 1945 ء میں جاپان نے امریکی کمانڈر فیلڈ مارشل جنرل میکارتھر کے سامنے ہتھیار ڈالے تو اسی زمانے میںانڈو نیشیا، ویتنام ،لاوس ، تھائی لینڈ ، تائیوان ، مین لینڈ چین اور دیگر علاقوں میں ہتھیار ڈالنے والے جاپانیوں ہی کے تعاون سے لارڈ ما ونٹ بیٹن اور جنرل ڈیگلس گریسی نے اِن علاقوں میں مغربی قوتوں خصوصاً فرانس کو ویتنام پر قبضہ برقرار رکھنے میں مدد دی۔

اس کے بعد برصغیر کو بھارت اور پاکستان میں تقسیم کر نے کے لیے مارچ 1947 ء میں وائسرائے ، گو رنر جنرل لارڈ ویول رخصت ہوا اور انڈو نیشیا کا ہیرو کہلانے وا لا، لارڈ ماونٹ بیٹن ہند وستان کا آخری وائسرائے بن کر آیا جس نے 3 جون 1947 ء کو برصغیر کی تقسیم اور بھارت اور پاکستان کی آزادی کا اعلان کر دیا۔

اِ س اعلان کے مطابق مسلم اکثریت اور ہندو اکثریت کی بنیاد پر تقسیم کے فارمولے پر عمل در آمد ہو نا تھا جس کے لیے مسلم لیگ نے 23 مارچ 1940 ء کو قرارداد لاہور کے بعد اعلانیہ اور عملی جد وجہد شروع کردی تھی اور یہ سب کو معلوم تھا کہ کن علاقوں میں مسلم اکثریت ہے ،واضح رہے کہ مشترکہ ہند وستان کا آئین قانونِ ہند مجریہ 1935 ء بر طانیہ کی پارلیمنٹ نے بنایا تھا اور اُن کے قانون کے مطابق اس میں کسی ترمیم کا اختیار بھی بر طانوی پارلیمنٹ ہی کو تھا 18 جولائی 1948 ء یعنی پاکستان کی آزادی سے صرف 27 دن پہلے بر طانوی پارلیمنٹ نے قانون آزادی ہند کے نام سے ترمیم یا شق کا قانون ہند میں اضافہ کیا ،جس کے مطابق پنجاب اور بنگال کے مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے۔ مشرقی پاکستان میں ضلع سلہٹ میں عوام کے ریفرنڈم کے ذریعے فیصلہ ہو گا۔

مغربی پا کستان میں آج کے صوبہ خیبر پختونخوامیں بھی عوام ریفرنڈم کی بنیاد پر فیصلہ کر یں گے کہ وہ پاکستان میں شامل ہوں گے یا بھارت میں۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی کی اکثریت یہ فیصلہ کر ئے گی کہ وہ سندھ کو پاکستان میں شامل کر ئے یا بھارت میں۔ بلو چستان میں اس کا اختیار شاہی جر گہ اور کو ئٹہ میونسپل کمیٹی کے غیر سرکاری اراکین کو دیا گیا،جب کہ ہند وستان کی 560 سے زیادہ ریاستوں کے نوابین اور راجائوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنے عوام کی مرضی کے ساتھ اپنی ریاست کی قربت کی بنیاد پر پاکستان یا بھارت دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر یں یعنی برصغیر کی تقسیم اور بھارت اور پاکستان کی آزادی میں بنیادی اہمیت آبادی کے فیصلے کی تھی۔

لیکن ساتھ ہی ایک سازش تھی جس میں پنڈت جواہر لال نہرو، ولب بھائی پاٹیل ، گورنر جنرل لا رڈ ماونٹ بیٹن، انگر یز جنرل اور کمانڈر انچیف اور بظاہر عدم تشدد اور پُر امن کردار کے حامل مو ہن داس کرم چند گاندھی بھی شامل تھے۔

قائد اعظم جو اُس وقت بھی انڈو نیشیا اور فلسطین کے حوالے سے ملکوںکے قیام کے لحاظ سے علاقوں پر قبضوںکی سازش سے باخبر تھے اور اس طرح کے مغربی فیصلوں کی شدید مخالفت کر رہے تھے اُنہوں نے پنجاب اور بنگال میں مسلم اکثریتی علاقوں کی بنیاد پر تقسیم کے لیے اقوام متحدہ اور بعد میں برطانیہ کی پریوی کونسل سے یہ تقسیم کروانے کا مطالبہ کیا تھا مگر اسے تسلیم نہیں کیا گیا اور ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعے ایک بہت ہی سازشی منصوبے کے ساتھ بنگال اور پنجاب کی غیر منصفانہ تقسیم کرواتے ہوئے نہ صرف مشرقی پاکستان میں کلکتہ شہر کی سیکورٹی کی بنیاد پر وسیع علاقہ بھارت کو دے دیا گیا بلکہ پنجاب میں پانی کے ہیڈ ورکس پر بھارتی کنٹرول کو یقینی بنانے کے لئے فیروزپور، گروداسپور اور زیرہ کے علاقے بھارت کے سپرد کردئے گئے اور اس طرح بھارت کو نہ صرف کشمیر پر نا جائز قبضے کا راستہ فراہم کر دیا گیا بلکہ پا کستان کی طرف آنے والے دریائوں پر بھی مادھوپور اور فیروز پور کے ہیڈ ورکس دے کر اُسے بالا دست بنا دیا گیا۔

یوں مغربی پاکستان میں پنجاب میں ولھب بھائی پاٹیل نے ماسٹر تارا سنگھ کے ساتھ مل کر نہرو اور ماونٹ بیٹن سازشی منصوبے کے تحت فیروز پور اور گور داسپور کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مسلح جتھوں سے اچانک بڑے حملے کروا دئیے گئے اور یہاں سے مسلسل اکثریتی آبادی پاکستان میں دھکیل دی گئی۔ یعنی مشرقی پنجاب کے یہ مسلم اکثریتی علاقے بھی پا کستان کو نہیں دئیے گئے اور یہاں کی آبادی کو بھی قتل و غارت کر کے پاکستان میں داخل کر دیا گیا۔ یوں آج کے پا کستان اور اُس وقت کے مغربی پا کستان سے 45 لاکھ سکھوں اور ہندوں نے بھارت ہجرت کی اور اس کے بدلے میں بھارت سے 65 لاکھ مسلمانوں نے ہجرت کی۔ پاکستان کا آغاز ہی آبادی میں اس 20 لاکھ کے اضافے سے ہوا۔

مزید یہ کہ گورداسپور اور فیروز پور کے علاقے بھارت کو دینے کی نہرو اور ولب بھائی پا ٹیل کی گہری سازش تھی جس کی وجہ سے پنجاب کی ایسی خونی تقسیم ہو ئی کہ مغربی پاکستانی پنجاب میں سکھ نہیں رہے اور مشرقی پنجاب میں مسلمان پنجابی نہیں رہے جو صدیوں سے ہندوں کے مقابلے میں ایک دوسرے کے زیادہ قریب تھے۔

تقسیم سے قبل پنجاب کی آبادی 28418819 تھی جس میں مسلمانوں کی آبادی 16217242 یعنی کل آبادی کا 57.07 فیصد تھی جب کہ اس کے مقابلے میں مشرقی پاکستان کے لیے بھی طویل المدتی بنیاد پر سازشی منصوبہ گاندھی کے عدم تشدد فلسفے کی بنیاد پر بنا یا گیا تھا کہ بنگال کی تقسیم جو مجموعی طور پر بنگالیوں کی اکثریت نہیں چا ہتی تھی۔ 1946 ء سے 14 اگست1947 ء تک غیر تقسیم شدہ بنگال کے آخری وزیراعظم حسین شہید سہروردی بھی بنگال کی تقسیم نہیں چاہتے تھے، مگر 1905 ء کے بر عکس اب گانگریس بنگال کی تقسیم بھی چاہتی تھی اور یہ بھی چاہتی تھی کہ مشرقی پا کستا ن کے قیام پر یہاں جو تقریباً 24% ہندو بنگالی آباد ہیں وہ مشرقی بنگال ہی میں رہیں۔

1941 ء کی مردم شماری کے مطابق غیر منقسم بنگال کی مجموعی آبادی60306525 تھی جس میں مسلم آبادی 33005434 یعنی 54.73 فیصد تھی جہاں پنجاب میں لاکھوں مسلمانوں کا منظم قتل عام ہوا تو اس کے برعکس بنگال میں انفرادی سطح پر ہندو مسلم فسادات کے اکا دکا واقعات رونما ہو ئے تو اس پر بھی گاندھی اپنے عدم تشدد فلسفے کے پُر امن نعرے کے ساتھ میدان میں آ گئے اوربنگال کے وزیراعظم حسین شہید سہر وردی کے ساتھ بنگالیوں سے ہندو مسلم فساد ات کو فوراً روکنے کی اپیل کی اور گاندی نے اس کے لیے تا دم ِ مرگ بھو ک ہڑتال کر دی۔

یوں بنگال کی تقسیم میں فسادات نہیں ہو ئے اور مشرقی پا کستان سے بھارت میںیہاںکے صرف ایک فیصد ہندو ں نے ہجرت کی جبکہ بعد میں بہت سے ہندو بھارتی مغربی بنگال سے مشرقی پاکستان آکر آباد ہوئے۔1951ء میں بھارت سے آنے والے مہاجرین کو روک دیا گیا اور سیٹیزن ایکٹ نافذ العمل ہوا، یعنی پاکستان کی شہریت اور ڈومیسائل کے قوانین متعارف ہو ئے، اسی سال ملک کی پہلی مردم شماری ہوئی، اُس وقت دنیا کی کل آبادی 2584034261 تھی جس میں مشترکہ پاکستان کی کل آبادی 7 کروڑ50 لاکھ تھی۔

اس مجموعی پاکستانی آبادی میں سے مشرقی پاکستان کی آبادی 4 کروڑ 20 لاکھ تھی اور مغربی پاکستان کی کل آبادی3 کروڑ 37 لاکھ تھی۔ مغربی پا کستان میں ہند و آبادی کا تناسب صرف1.6% تھا جس کی اکثریت سندھ میں آباد تھی جب کہ مشرقی پاکستان میں ہندو آبادی کا تناسب 22 فیصد سے زیادہ تھا۔ مشرقی پاکستا ن میں ہند و بنگالی معاشی ، تعلیمی اعتبار سے مسلمان بنگالیوں کے مقابلے میں زیادہ تناسب کے ساتھ سماجی سیاسی حیثیت اور قوت رکھتے تھے۔

پاکستان میں دوسری مردم شماری 1961 ء میں ہوئی جس میں پاکستان کی مجموعی آبادی 9 کروڑ 30 لاکھ تھی۔ اس مجموعی آبادی میں سے مشرقی پاکستان کی آبادی 5 کروڑ تھی اور مغربی پا کستان کی آبادی 4 کروڑ 28 لاکھ تھی۔ 1970 ء میں پاکستان کے پہلے عام انتخابات ہو ئے جس کے بعد اقتدار کی منتقلی میں تاخیر ہوئی اور پھر بھارت کی بھر پور فوجی مداخلت کے ساتھ مشرقی پا کستان 16 دسمبر 1971 ء کو بنگلہ دیش میں تبدیل ہو گیا۔ اس کے بعد 1972 ء میں آج کے پاکستان میں تیسری مردم شماری ایک سال کی تاخیر سے ہوئی، جس میں پاکستان کی کل آبادی 5 کروڑ 80 لاکھ تھی اور اُس وقت بنگلہ دیش کی آبادی 6 کروڑ 50 لاکھ تھی۔ 1947 ء کے بعد بنگلہ دیش سے لاکھوں کی تعد اد میں نہ صرف غیر بنگالی پاکستان میں آئے بلکہ بہت سے بنگالی تو بنگلہ دیش گئے مگر لاکھوں بنگالی پھر بھی پاکستان میں رہ گئے۔

اسی طرح آج کے پاکستان میں بھی آبادی میں یہ اضافہ غیر قدرتی تھا۔ یوں پا کستان کے قیام کے 25 سال بعد پہلے 1947 سے 1951 ء تک پا کستان میں غیر قدرتی آبادی کا تناسب 6% سے زیادہ رہا اور 1970 سے1971 دسمبر تک 40 لاکھ سے کچھ زیادہ افراد جو بنگالی اور بہاری تھے وہ پاکستان کی آبادی میں غیر قدرتی اضافے کا باعث بنے یوں آبادی میں غیر قدرتی اضافہ تقریباً7 فیصد رہا۔ اُس وقت تک پا کستان میں غیر قدرتی آبادی کا اضافہ معاشرتی ، اقتصادی طور پر محسو س نہیں کیا جا رہا تھا حالانکہ یہی وہ دور تھا جب ہمارا معاشرہ معاشرتی ،اقتصادی طور پر تبدیل ہو رہا تھا۔

پھر اِسی دور میں ملک میں تارکین وطن کے داخلے کو روکنے لیے اُ س وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قومی شناختی کارڈ کا اجرا کیا۔ 1972 ء سے 1977 ء تک پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ملکوں میں مقبول سیاسی لیڈر شپ رہی تھی۔ 1973 ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد 1974 ء میں پا کستان نے اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کی جس کے بعد ہماری آبادی میں سماجی اقتصادی اور معاشی کے اعتبار سے یہ تبدیلی آئی کہ پاکستان سے مختصر عرصے میں تقریباً35 لاکھ افراد محنت مزدوری کر نے ملک سے باہر گئے۔ اس میں سے زیادہ تر لوگ مشرقی وسطیٰ کے تیل پیدا کر نے والے ملکوں میںپا کستان کے مقابلے میںکئی گنا زیادہ اجرت پر روزی کمانے گئے۔

یہی وہ دور ہے جب آزاد کشمیر میں میر پور کے مقام پر منگلا ڈیم کی تعمیر مکمل ہو رہی تھی اور یہاں سے بھی تقریباً 2 لاکھ افراد برطانیہ گئے تھے۔ اس سے مالی اور اقتصادی طور پر ملک کو بہت فا ئد ہوا کیونکہ بیرون ِ ملک پاکستانیوں کی اس بڑی افرادی قو ت سے بیرونِ ملک سے مستقل نوعیت کی آمدنی کی صورت میں پا کستا ن کو زرِ مبادلہ کا ایک مستقل اور مستحکم ذریعہ ہاتھ آگیا اور پا کستان امریکہ اور یورپی ملکوں کے مالی اقتصادی دبائو سے کا فی حد تک آزاد ہو گیا۔

اِن بیرون ملک پاکستانیوں کے خاندانوں کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر پا کستان میں معیار زندگی بھی بلند ہو ا اور عوامی قوت ِ خرید میں بھی اضافہ ہوا۔ اسی دور میں آبادی کا سیاسی سماجی شعور بھی بڑھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ 35 لاکھ پاکستانی تھے جو ملک سے باہر گئے تھے اور سال میں ایک دو مرتبہ وہ ملک واپس آتے اور خصوصاً وہ لوگ جو برطانیہ یا دوسرے مغربی ملکوں میں گئے تھے اُن کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں سماجی سیاسی شعور میں بھی اضافہ ہوا۔ اِن خاندانوں کے نوجوانون نے تعلیمی شعبے میں بھی پیش رفت کی مگر جو اکثریت مشرق وسطیٰ گئی تھی اُن کے ہاں سماجی معاشرتی طور پر بہت سے شعبوں میں قدرے منفی رحجان رہا، خصوصاً معاشرتی اقدار میں انحطاط رونما ہوا۔ 1977 ء تک ملک میں جمہوری دور بھی رہا مگر اس کے بعد ملک میں مارشل لا کا دور آیا اور یہ طویل عرصے تک رہا۔

1981 ء میں شیڈول کے مطابق چوتھی مردم شماری ہو ئی جس میں پہلی مرتبہ خانہ شماری کے ساتھ ساتھ دیگر معلومات بھی حاصل کی گئیں جو منصوبہ بندی کے لیے ضروری تھیں۔ 1981 ء کی مردم شماری میں ملک کی کل آبادی 8 کروڑ 37 سے زیادہ ہو گئی یہی وہ دور ہے جب افغانستان میں سابق سوویت یونین کی فوجیں داخل ہو گئیں اور کچھ ہی عرصے بعد افغان مجاہد ین نے مسلح ہو کر سوویت کی فوج اور اُن کی کٹھ پتلی حکومت کے خلا ف مزاحمت شروع کر دی۔1981 ء مردم شماری کے فوراً بعد لاکھوں افغان، مہاجرین کی صورت میں پا کستان میں پناہ لینے لگے۔

1981 ء ہی میں دنیا کی آبادی 4 ارب53 کروڑ سے زیادہ ہو گئی اور دنیا میں پہلی مرتبہ بڑھتی ہو ئی آبادی کو پوری دنیا کے لیے خطرناک تسلیم کیا گیا۔ اسی زمانے میں ماحولیاتی مسائل شدت کے ساتھ سامنے آنے لگے اور ماہرین نے بتا یا کہ دنیا کی آبادی جو سوسال پہلے پچاس کروڑ کے قریب تھی اور اس کے ایک ارب ہو نے میں 50 سال لگے دنیا کی وہ آبادی 1951 ء میںڈھائی ارب سے کچھ زیادہ ہو چکی تھی اور ماہرین نے خبردار کر رہے تھے کہ دنیا کی اس آبادی میں اب ہر تیرا ، چودہ سال بعد ایک ارب کا اضافہ ہو تا رہے گا اور دنیا کی یہ آبادی واقعی 1991 ء میں 5 ارب 41 کروڑ سے کچھ زیادہ ہو گئی۔

مگر پاکستان میں مردم شماری کا شیڈول بے قائدگی کا شکار ہو گیا اورتلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ چو نکہ 1985 ء میںملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر اور پھر1988 ء سے جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو ا اس لیے پہلے تو سیاسی مصلحتو ں کی بنیادوں پر 1991 ء میں مردم شماری ہی نہیں کر ائی گئی اور جب عالمی ادروں نے ترقیا تی منصوبوں کے حوالوں سے مردم شماری کا تقاضہ کیا تو 1998 ء میں یعنی شیڈول سے سات سال کی تاخیر پر پا کستان میں ملک کی پانچویں مردم شماری کر وائی گئی۔ 1998 ء کی مردم شماری کے نتائج کے مطابق ملک کی آبادی 13 کروڑ 8 لاکھ ہو گئی۔

اس مردم شماری سے ہی ملک میں مردم شماری کے اعداد و شمار مشکوک ہو نے لگے اور اس مردم شماری کے نتائج پر شدید تنقید ہو ئی۔ اس پر بڑا اعتراض یہ تھا کہ 1981 ء سے پاکستان آنے والے افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد بھی پاکستان کی مجموعی آبادی میں ایک تناسب سے غیر قدرتی آبادی کے طور پر شامل ہو ئی تھی۔

مارشل لا کے دور میں ہی اس صورتحال پر تقریباً تمام سیاسی لیڈروں کو اعتراضات رہے مگر بعد بعض سیاسی جماعتوں نے اس غیر قدرتی آبادی کے اضافے کی حمایت شروع کردی۔ ملک میں غیر قدرتی طور پر آبادی میں ہو نے والا تیسرا اضافہ بڑا اضافہ تھا جو بعض ماہر ین کے مطابق تقریباً8% سے زیادہ تھا۔ آبادی میں اس غیر قدرتی اضافے کا بوجھ خیبر پختونخوا ، بلوچستان کے علاوہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی پر بھی پڑا اور ملک میں سیاسی سماجی معاشی اعتبار سے اعتراضات اور تنقید بڑھتی چلی گئی۔

1998 ء کے بعد چھٹی مردم شماری کو شیڈول کے مطابق 2008 ء میں ہونا چاہیے تھا وہ بعض سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے اپنے مقررہ وقت پر نہ ہو سکی اور 9 سال کی تاخیر کے بعد 2017 ء میں ہو ئی جس کے نتائج کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ 40 ہزار رپورٹ ہو ئی ہے جو اب22 کروڑ بتائی جا تی ہے۔ 2017 ء کی مردم شماری میں بھی خانہ شماری خاندانوں اور گھرانو ں کے حجم شرح خوندگی معذوروں کی تعداد، آبادی میں مذہبی ، لسانی اعتبار سے گروپوں کا ہجم اور تناسب سامنے آیا جس کے مطابق ہماری آبادی میں 96.47% مسلما ن ہیں، 1.73 فیصد ہندو 1.27% عیسائی اور باقی دیگر اقلیتیں ہیں۔

1998 ء کے مطابق ہماری آبادی میں44.51 فیصد کی مادری زبان پنجابی ہے 15.42 پشتو 14.10 فیصد کی مادری زبان سندھی10.53% کی مادری زبان سرائیکی ہے 7.57 فیصد کی مادری زبان اردو3.57% کی براوہی بلوچی 2.25 کی مادری زبان کو ہستانی اور باقی دیگر بولیاں بولتے ہیں۔ پاکستا ن کی آبادی صوبوں میں یوں تقسیم ہے۔

پنجاب کی آبادی 110012000 ہے جو مجموعی آبادی کا 52.95 فیصد ہے، سندھ کی آبادی 47886000 ہے جس کا تناسب 23.04% ہے، خیبر پختونخوا کی آبادی 30523000 ہے جو ملک کی کل آبادی کا14.69% ہے، بلو چستان کی آبادی 12344000 ہے جو ملک کی آبادی کا5.94% ہے جب کہ دارلحکومت کے کل رقبے کی کل آبادی 2006000 ہے جو ملک کی کل آبادی کا 0.93 فیصد ہے۔ پاکستان میں آبادی کی گنجا نیت 287 افراد فی مربع کلو میٹر ہے، مشرقی اور مغربی پاکستان تقربیاً24 سال ساتھ رہے۔ پاکستان کی آبادی 2021 ء میں 22 کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے۔

اِس جولائی 2021 ء میں بنگلہ دیش کی کل آبادی 166325159 ہے اور بنگلہ دیش میں آبادی کی گنجا نیت 1265 افراد فی مربع کلو میٹر ہے۔ یوں دنیا میں آبادی کی گنجاینیت کے اعتبار سے بنگلہ دیش کا درجہ بلند ترین ہے۔ بہت لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب بنگلہ دیش مشرقی پاکستان تھا تو اُس وقت تک مشرقی پا کستا ن کی آبادی آج کے پاکستان کے مقابلے تقریباً 8% زیادہ تھی اور اسی زیادہ آبادی کے سبب مغربی پا کستان سے اختلاف رکھتی تھی کہ جمہوریت میں اکثریت کو حکمرانی کا حق ہو تا ہے۔

جب اُس وقت مغربی پا کستان رقبے کے اعتبار سے مشرقی پا کستان سے تقریباً سات گنا بڑا تھاآج بنگلہ دیش کی آبادی16کروڑ 60 لاکھ ہے اور اس کے مقابلے میں پا کستان کی آبادی 22 کروڑ سے کچھ زیادہ ہے، یہی فرق اصل میں پا کستان میں حقیقی یا قدرتی آبادی میں غیرحقیقی یا غیر قدرتی اضا فہ ہے جو تقریباً چھ کر وڑ کی آبادی کا وہ اضافہ ہے جو 1947 ء سے 1951 ء کی مہا جرت پھر 1971 ء کی جنگ کی وجہ سے ہونے والی مہاجرت اور اس کے بعد 1980-81 سے افغانستان سے افغان مہا جرین کی آمد سے ہوا۔ یوں اب پا کستان میں اُن تمام سابق مہاجرین کی اولادیں یعنی عرصہ گذر جانے کے بعد کی اب آئندہ نسلیں بھی جوان ہو چکی ہیں ،اس اعتبار سے غالباً پا کستان دنیا کا وہ ملک ہے جہاں گذشتہ74 برسوں کے دوران اس کی مجموعی ساڑھے بائیس کروڑ کی آبادی میں 35 فیصد اضافہ غیر قدرتی آبادی کا ہے جس سے اس کی معاشرتی ،سماجی بُنت میںخصوصاً اس کی شہری آبادی بری طرح متاثر ہوئی۔ ب

د قسمتی سے عام انتخابات کے حوالے سے ملک میں خصوصاً 1998 ء اور پھر 2017 ء کی مردم شماریوں میں شہری آبادی کی بنیاد پر سیاسی مصلحتو ں سے کام لیا گیا اس لیے اب گذشتہ 23 برسوں سے ہمارے اعداد و شمار کی صحت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور شہری علاقوں کے سماجی اقتصادی ماحولیاتی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔

2017 ء میں ہونے والی مردم شماری کے نتائج کے مطابق ہماری کل دیہی آبادی 13 کروڑ 20 لاکھ سے کچھ زیادہ تھی اور شہری آبادی 7 کروڑ 57 لاکھ کے قریب تھی جب کہ ٹاپ ٹن شہر وں کی آبادیاں میں اضافے کی صورت 1998 ء اور 2017 ء کی مردم شماریوں کی تقابل میں کچھ اس طرح تھی۔ نمبر1 ۔کراچی1998 ء میں آبادی 9856318 تھی جو2017 میں 16051521 ہو گئی یوں 19 برسوں میں اضافہ 62.86 فیصد ہوا۔ نمبر2 ۔ لاہور کی آبادی 5143495 سے 19 برسوں میں11126285 ہوگئی اور اس میں 116.32% اضافہ ریکارڈ کیاگیا۔ نمبر3 فیصل آبادکی آبادی 2008861 سے بڑھ کر 3203846 ہو گئی اور اضافہ 59.49 ریکارڈ ہوا۔ نمبر4 ۔ راولپنڈی کی آبادی 1998 ء کی مردم شماری میں 1409768تھی جو2017 ء کی مردم شماری میں48.84 1فیصد اضافے کے ساتھ 2098231 ہو گئی۔

نمبر5 ۔ گجرانوالہ کی آبادی 1132509 سے بڑھ کر2027001 ہوگئی اور78.98% اضافہ ریکارڈ ہوا۔ نمبر6 ۔ پشاور کی آبادی 982816 سے بڑھ کر1970042 ہو گئی اضافہ100.45% ہوا۔ نمبر7 ۔ ملتان کی آبادی 1197384 سے بڑھ کر 1871843 ہو گئی اس میں 56.33% اضا فہ ہوا۔ نمبر8 ۔ حیدر آباد کی آبادی 1166894 تھی جو بڑھ کر1732693 ہو گئی اس میں 48.49 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ نمبر 9 ۔ اسلام آباد کی آبادی 529180 سے بڑھ کر 1014825 ہو گئی اور اس میں 91.77% اضافہ ہوا۔

نمبر۔ 10 کوئٹہ کی آبادی1998 ء کی مردم شماری میں 565137 تھی جو2017 ء کی مردم شماری 1001825 ہوگئی اور اس میں اضافہ 77.16 فیصد ہو ا۔ یوں مجموعی طور پر آبادی کے لحاظ سے ملک کے دس بڑے شہروں کی آبادی جو1998 ء میں 23475067 تھی2017 ء کی مردم شماری میں بڑھ کر 40956232 ہو گئی اور اِن 19 برسوں میں 17481165کا اضافہ ہوا۔ اب جہاںتک تعلق اس شہری آبادی کا ہے تو خصوصاً کراچی، کوئٹہ، لاہور ، اسلام آباد ،حیدر آبادکے شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد بہت کم ظاہر کی گئی ہے بعض اداروں نے کراچی کی آبادی کو ڈھائی سے تین کروڑ قرار دیا ہے اسی طرح کو ئٹہ کے میٹروپولیٹن ادرے کی ایک دستاویز کے مطابق کو ئٹہ شہر کی آبادی تقریباً 20 لاکھ بتا ئی گئی۔

جیسا کہ پہلے کہاگیا ہے کہ ہمارے ہاں لاکھوںسے خاندان گذشتہ کئی برسوں سے ملک کے بڑے شہروں میں مستقل بنیادوں پر رہا ئش پذیر ہیں لیکن ملک کے بیشتر علاقوں میں دیہی بنیادوں پر لوگوں ملازمتوں اعلیٰ سرکاری تعلیمی اداروں میںداخلوں اور تعلیمی وظائف کے لحاظ سے دیہی علاقوں کے ڈو میسائل اور لوکل سرٹیفیکٹ کی بنیاد پر رعاتیں حاصل ہیں اس لیے یہ خاندان ریکارڈ کے اعتبار ڈومیسائل ، لوکل سرٹیفیکٹ کے اجرا میں اپنی مستقل رہا ئش اپنے گائوں ، دیہات میں رکھتے ہیں اسی اعتبار سے مردم شماری میں اور انتخابات میں ووٹر لسٹوںمیں اپنا اندارج دہی علاقوں ہی کی بنیاد پر کرواتے ہیں یوں حقیقت میں پا کستان میں دہی اور شہری آبادی کا تناسب بہت ہی غلط اور بہت غیر حقیقی ہے۔

پھر اسلام آباد وفاقی دارالحکو مت ہے جب کہ کراچی ، لاہور ، پشاور، اور کوئٹہ اپنے صوبے کے صوبائی دارالحکو مت ہو نے کے علاوہ ملک کے بڑے تعلیمی ،صنعتی ، اقتصادی ، تجارتی مراکز بھی ہیں یوں پچیس سے تیس لاکھ افراد پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں روزانہ سفر کر تے ہیں اور اس طرح شہروں کے وسائل اور انفرااسٹکچر پر بہت زیادہ دبائو ہے، جب کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد اگرچہ اب بھی وفاقی محصولات ،و سائل کی صوبوں میں تقسیم کے لیے بنیاد اہمیت آبادی ہی کی ہے مگر اس ترمیم کے بعد منظور ہو نے والے این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے رقبے ، محرومی ، اور بعض صوبائی قدر تی وسائل کو بھی ایک خاص تناسب سے فارمولے کا حصہ بنایا گیا۔

مگر صوبائی سطحوں پر بلدیاتی اداروں کو حقیقی معنوں میں مالیاتی اور انتظامی حقوق نہ دینے کی وجہ شہری اور دیہی دنوں طرح کی آبادیاں بہت سے بنیادی نوعیت کے مسائل کا شکار ہیں،جس کے لیے قانون سازی کسی حد تک ہو ئی بھی ہے مگر اِن قوانین پر خصوصاً صوبائی حکومتیں عملدرآمد کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں گذشتہ33برسوں سے دیہی آبادی کا شہروں میں منتقل ہو نے کارحجان ما ضی کے مقا بلے میں تیز ہو گیا ہے مگر یہ آبادی اپنا اندراج ریکارڈ میں اپنے دیہاتوں ہی کرواتی ہے۔ 1947 ء سے آج تک پاکستان میں تارکین وطن یا مہاجرین کی حیثیت سے آنے والوں کی 98% تعداد بھی شہروں ہی میں رہا ئش پذیر ہے اور اِن میں سے1981 کے بعد پاکستان آنے والے یہ تار کین وطن خود کو قانون سے بچانے کے لیے کسی با قائد ہ پر ریکارڈ پر آنے سے گھبراتے ہیں۔

یہ ایسے شہری مسائل ہیں جن سے ہمیشہ حکومتیں مصلحتوں کی وجہ سے گریز کر تی رہیں مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ اب یہ شہری مسائل اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اگر اِن کو جلد از جلد پوری منصوبہ بندی اور حکمت علمی سے حل نہ کیا گیا تو یہ ملکی سالمیت کے لیے سوالیہ نشان بن سکتے ہیں آج سے گیارہ برس پہلے2010 ء کی آبادی میں بلحاظ عمر ہماری آبادی کی صورت یہ تھی کہ 0 سے 20 سال تک عمروں گروپ کا تناسب 41.61% تھا21 سال سے50 سال کا تناسب55.10 فیصد تھا اور60 سال کی عمر سے زیادہ کا تناسب3.30%تھا۔ ہمارے ہاںآج بھی بچوں اور جوانوں کا تناسب زیادہ ہے یعنی نوے فیصد جسمانی طور پر تندرست ہیں اور عملی طور پر متحرک ہے ۔

پاکستان کی آبادی کا تقربیاً 20 واں حصہ بیرون ملک آباد ہے اِن کی تعداد اب 90 لاکھ سے زیادہ ہے یہ پاکستانی برسوں سے پاکستان کی معاشی ،اقتصادی شعبے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِن پاکستانیوں میں سے 40 لاکھ سعودی عرب میں 16 لاکھ متحدہ عرب امارت میں 12 لاکھ کے قریب بر طانیہ میں 6 لاکھ امریکہ میں اور باقی دیگر ملکوں میں موجود ہے یہ نوے لاکھ افراد آج پاکستان کو ہر مہینے ڈھائی ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کا زرمبادلہ بھیج رہے ہیں آج پاکستان میں سیاسی سطح پر یہ بحث بھی جاری ہے کہ اِن بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے یا نہیں اور یہ اُمید بندھ گئی ہے کہ پچاس سال بعد ہی سہی اب ہمارے بیرون ملک پا کستانیوں کو ووٹ کا حق مل جا ئے گا مگر اس کے ساتھ ہی آج کی دنیا تین طاقتی مثلث کے اعتبار سے تقسیم ہو رہی ہے۔

یہ تین طاقیتں امریکہ، چین اور روس ہیں امریکہ چونکہ گذشتہ 103 برسوں یعنی جنگِ عظیم اوّل کے 1918 ء میں خاتمے کے بعد سے دنیا کی سپر پاور رہا ہے اس لیے تقریباً وہ تمام ممالک امریکہ کے حلیف یا دوست دکھائی دیتے ہیں جہاں بیرون ملک پا کستانیوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ پھر آئندہ برسوں میں یہ بھی دیکھنا ہے کہ جب اقتصادی طور پر چین اور روس دنیا میں امریکہ اور اُس کے حلیف ملکوںکے مقابلے میںزیادہ آگے آئیں گے تو کیا اِن ملکوں میں جہاں اس وقت پا کستانی کام کر رہے ہیں وہاں اِن کی ضرورت بھی رہے گی یا نہیں؟ اس اعتبار سے بھی ہمیں کسی بھی ممکنہ صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی کرنا پڑے گی۔ پاکستان ایک اعلانیہ ایٹمی طاقت ہے مگر بد قسمتی سے ہماری دھرتی پر ہماری تیزی سے بڑھتی ہو ئی آبادی بھی ممکنہ تباہی کے لحاظ سے ایک بم سے کم نہیں۔

اس کا ندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ 1951ء کی مردم شماری میں اُس وقت کے مغربی پا کستان اور آج کے پا کستان کی آبادی 3 کروڑ37 لاکھ تھی تو برطانیہ کی آبادی 5 کروڑ 10 لاکھ۔ بر طانیہ کی آبادی آج چھ کروڑ ہے جب کہ پا کستان کی آبادی 22 کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔

قائد اعظمؒ نے پنجاب اور بنگال کی تقسیم اقوام متحدہ یا
پھر پریوی کونسل کے ذریعے کرانے کا مطالبہ کیا تھا مگر ریڈکلف ایوارڈ کے ذریعے نامنصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا گیا
پنجاب میں بدترین قتل و غارت گری پر خاموشی اختیار کئے رکھنے والے گاندھی جی نے بنگال میں تشدد کے اکا دُکا واقعات پر تادم مرگ بھوک ہڑتال (مرن برت) کردی تھی
مشرقی پاکستان سے صرف ایک فیصد ہندوئوں نے ہجرت کی لیکن بعد میں امن ہوتے ہی ہزاروں کی تعداد میں ہندو خاندانوں کو مشرقی پاکستان میں آباد کیا گیا' اس آباد کاری پر 1951ء میں پابندی عائد کی گئی
متحدہ پاکستان کے دور میں ہمیشہ مشرقی پاکستان کی آبادی' مغربی پاکستان سے زیادہ رہی ہے لیکن آج بنگلہ دیش کی آبادی 16 کروڑ 60 لاکھ جبکہ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے زائد ہے
1970-71کے عرصہ میں 40 لاکھ سے زائد
بنگالی اور بہاری ہجرت کرکے پاکستان میں آباد
ہوئے 'افغانستان پر سوویت حملے کے نتیجے میں
35 لاکھ سے زائد افغان ہجرت کرکے پاکستان آئے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں