آئرلینڈ مجاہدین ِفلسطین وکشمیر کا حامی کیوں

آٹھ سو سال تک انگریز استعمار سے نبردآزما رہنے والی قوم کی ولولہ انگیز داستان


آٹھ سو سال تک انگریز استعمار سے نبردآزما رہنے والی قوم کی ولولہ انگیز داستان۔ فوٹو: فائل

یہ 1985ء کی بات ہے، جب بیت المقدس میں مقیم فلسطینی مسلمان ،جمال عبدالحلیم آئر لینڈ چلے آئے۔وہ معتصب و ظالم اسرائیلی حکمرانوں کے ظلم وستم سے تنگ آ چکے تھے۔

انھوں نے آئرش دارالحکومت ،ڈبلن میں اپنی جمع پونجی لگا کر ایک جنرل اسٹور کھول لیا۔وطن کی یاد انھیں تڑپاتی رہتی تھی۔ اسی لیے وہ اسٹور میں انجیر و زیتون بڑے اہتمام سے رکھتے اور آنسو بہاتے۔آئرش گاہکوں سے باتیں کرتے اکثر گفتگو کا رخ فلسطین کی جانب مڑ جاتا۔تب جمال بڑے جوش و شوق سے اپنے پیارے دیس کی باتیں گاہکوں کو سناتے۔

خلاف توقع آئرش بڑے غور سے فلسطینی مہاجرکی داستان سنتے اور انھیں تسّلی تشفی دیتے کہ ایک نہ ایک دن بیت المقدس اسرائیلی غاصبوں کے پنجے سے آزاد ہو کر رہے گا۔جمال کہتے ہیں:''اسرائیل کے محکوم بنے فلسطینیوں کی حالت زار اور دکھ درد کو آئرش باشندے خوب سمجھتے ہیں۔وجہ یہ کہ آئرش بھی محکومی کی تلخ و ناخوشگوار تاریخ رکھتے ہیں۔''

یہ حقیقت ہے کہ مغربی قوم ہونے کے باوجود آئرش فلسطین ہی نہیں جموں وکشمیر کے مسلمانوں سے بھی دلی ہمدردی و انس رکھتے ہیں۔ان دونوں علاقوں کے مسلمان یہود و ہنود کی چیرہ دستیوں اور مکارانہ کارروائیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ریاستی مظالم کے خلاف فلسطینی و کشمیری مسلمان احتجاج کرتے اور مسلح جہدوجہد بھی جاری رکھتے ہیں۔

آئرلینڈ مغربی دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کثیر آبادی مسلم مجاہدین سے اظہار دوستی کرتی اور انھیں راہ حق پہ گامزن سمجھتی ہے۔ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ فلسطین اور کشمیر...دونوں عالمی تنازعات انگریزوں کی پیداوار ہیں جنھیں آئرش آج بھی ناپسند کرتے اور ان کو مفاد پرست و ظالم قرار دیتے ہیں۔

آئر لینڈ یورپ کا تیسرا اور دنیاکا چوتھا بڑا جزیرہ ہے۔ہزاروں سال قبل یورپ سے آنے والے انسانوں نے جزیرے کو آباد کیا۔ان مہاجرین کی اولاد نے پھر آئرش زبان،تہذیب وتمدن،ثقافت اور رسم الخط کو رواج دیا۔مقامی روایات اور رسوم نے جنم لیا۔اس طرح آئرش شناخت وجود میں آئی۔رفتہ رفتہ آئرلینڈ میں مختلف ریاستیں قائم ہو گئیں۔ان میں سب سے طاقتور ریاست کا سردار ''برتر بادشاہ''(High King)بن جاتا۔یوں اس نظام حکومت کے سہارے جزیرے پر آئرش تہذیب وتمدن پروان چڑھتا رہا۔

تاریخ عالم سے آشکارا ہے کہ نااتفاقی اور باہمی لڑائیوں نے کئی اقوام کو تباہ وبرباد کر دیا۔دو آئرش سرداروں کی لڑائی نے آئرلینڈ کو بھی تقریباً آٹھ سو سال کے طویل عرصے انگریزوں کا غلام بنا دیا۔ہوا یہ کہ آئرش ریاست،لینسٹر میں دیرمت مک مرخدا نامی سردار حکومت کرتا تھا۔اس کی برتر بادشاہ،ترلوغ مور سے کسی معاملے میں ان بن ہو گئی۔ترلوغ مور نے فوج بھجوا کر لینسٹر پر قبضہ کر لیا۔دیر مت مک فرار ہو کر انگلینڈ چلا گیا۔وہ وہاں کرائے کے فوجیوں(پنڈاریوں)پہ مشتمل فوج کھڑی کرنے کی کوشش کرنے لگا۔

اس زمانے میں اسکینڈے نیوین ممالک سے بڑی تعداد میں باشندے انگلینڈ مقیم ہو چکے تھے۔یہ مہاجر ''نارمن''کہلاتے تھے۔نارمنوں کی طاقتور شخصیات انگلینڈ میں سردار بن بیٹھی اور اپنی جاگیریں رکھتی تھیں۔یہ سبھی نارمن سردار شاہ انگلینڈ کے تابع تھے۔ان سرداروں میں رچرڈ ڈی کلئیر ایک بڑی نارمن جاگیر کا مالک تھا۔وہ بھگوڑے دیرمت مک مرخدا کا حامی بن گیا۔دیرمت نے رچرڈ سے وعدہ کیا کہ اگر وہ ریاست لینسٹر واپس لینے میں مدد کرے تو وہ اپنی بیٹی کی شادی اس سے کر دے گا۔یہی نہیں ،اس کی موت کے بعد وہ لینسٹر کا والی بھی بن جائے گا۔نارمن سردار نے دیرمت مک کی پیش کش قبول کر لی۔چناں چہ رچرڈ کی مالی امداد سے دیرمت نے پنڈاریوں کی فوج بنائی اور مئی 1169ء میں آئرلینڈ پہنچ گیا۔

انگلش فوجی جدید اسلحہ رکھتے اور جنگی فنون ِحرب میں طاق تھے۔انھوں نے بہت جلد لینسٹر پہنچ کر برتر بادشاہ کے نمائدے کی فوج کو شکست دی اور اس پہ قبضہ کر لیا۔انگلش فوجی پھر طاقت و غرور کے زعم میں پڑوسی ریاستوں پر بھی حملے کرنے لگے۔یوں اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر دیرمت نے غیرملکی فوج کو آئرلینڈ بلوا تو لیا مگر اب وہ من مانی کرنے لگی۔جلد انگلش فوجی آئرشوں کے لیے آفت ِجاں بن گئے۔یہی وجہ ہے،آئرلینڈ کی تاریخ میں دیرمت مک مرخدا ''غدار''اور ''اپنی ہوس کا غلام''کہلاتا ہے۔

انگلش پنڈاریوں کی فتوحات سے متاثر ہو کر اگلے سال شاہ انگلینڈ،ہنری دوم نے آئر لینڈ پر دھاوا بول دیا۔آئرش ریاستوں کی افواج نے مزاحمت کی مگر کمزور ہونے کی بنا پر شکست کھا گئیں۔یوں انگریز آئرلینڈ پہ قابض ہو گئے۔یہ دیس پھر انگریز حکمرانوں کے لیے پہلی ''نوآبادی''بن گیا۔اس نوآبادی پر قبضہ برقرار رکھنے اور وہاں کے باشندوں کو محکوم رکھنے کی خاطر انھوں نے مختلف اقدامات کیے۔

سب سے پہلے انگلش حکومت نے آئرلینڈ میں انگریز زمیندار لا بسائے۔آئرشوں سے زمینیں چھین کر ان میں بانٹ دی گئیں۔اپنی ہی زمینوں پر پھر آئرش غلاموں کی طرح کام کرنے لگے۔انگریز آقا انھیں کھانا اور کپڑا لتّا دے دیتے اور بس!ان کی کوئی تنخواہ نہیں تھی اور نہ ہی انھیں کسی قسم کے حقوق حاصل تھے۔دن بھر آئرش کسانوں سے گدھوں کی طرح کام لیا جاتا۔کوئی محکوم احتجاج کرتا تو اسے تشدد کا نشانہ بننا پڑتا۔

جب جرمنی میں پروٹسٹنٹ تحریک کا آغاز ہوا تو جلد انگلش حکمران بھی اس نئے عیسائی فرقے کے پیروکار بن گئے۔آئرلینڈ میں مگر کیتھولک عیسائی آباد تھے جو پروٹسٹنٹوں کو پسند نہ کرتے۔یوں دونوں مغربی اقوام کے درمیان مذہب بھی وجہ نزاع بن گیا۔بتدریج کچھ آئرشوں نے بھی پروٹسٹنٹ نظریات قبول کر لیے۔آج وہ ''شمالی آئرلینڈ''میں آباد ہیں۔جزیرے کا یہ حصہ انگلینڈ کی ملکیت ہے۔

مٹھی بھر مفاد پرست آئرشوں کو چھوڑ کر آئرلینڈ کے بقیہ باسیوں نے غاصب انگریزوں کی حاکمیت قبول نہیں کی اور وہ مسلسل ان پہ حملے کرتے رہے۔انگریزوں نے طاقت کے بل پہ آئرش حریت پسندوں کو دور افتادہ علاقوں کی جانب دھکیل دیا۔وہ پھر مقامی مفاد پرست آئرش سرداروں کی مدد سے آئرلینڈ پہ حکومت کرنے لگے۔(انگریز نے بعد ازاں اس قسم کا طرز حکومت ہندوستان میں رائج کیا جہاں مقامی جاگیردار اور سول سرونٹ اس کے بازو بن گئے)آئرش آزادی پسند بے یارومددگار تھے مگر انھوں کبھی انگریز استعمار کے سامنے سر نہیں جھکایا اور قربانیاں دے کر اپنی تحریک آزادی کو زندہ رکھا۔

رفتہ رفتہ انگریز حاکموں کو احساس ہوا کہ آئرش اپنی زبان،تہذیب وثقافت، ادب اور رسم الخط رکھتے ہیں۔انھیں اپنی اقدار وروایات پہ فخر ہے۔اسی لیے انگلش زبان و تہذیب وتمدن اپنانے سے نہ صرف انکاری ہیں بلکہ اس سے نفرت کرتے ہیں۔لہذا انگریز استعمار نے فیصلہ کیا کہ ان پہ زبردستی انگریزی زبان تھوپ دی جائے۔اس طرح آئرشوںکو کُلی طور پہ اپنا مطیع وفرماں بردار بنانا مقصود تھا۔چناں چہ 1801ء میں انگریز حکومت نے آئرلینڈ کو تاج برطانیہ کا حصّہ بنایا اور وہاں انگریزی طرز تعلیم رائج کر دیا۔اب ہر آئرش بچہ انگریزی میں علوم وفنون سیکھنے لگا۔یہ انگریز حکمرانوں کا آئرشوں پہ سب سے کڑا حملہ تھا کیونکہ وہ اپنی زبان سے محروم ہو کر قدرتاً آہستہ آہستہ اپنی تہذیب،ثقافت ،رسوم ورواج اور روایات بھی کھو بیٹھتے۔

انگریز کی تہذیبی یلغار جاری تھی کہ 1845ء تا 1852ء آئرلینڈ شدید قحط کا شکار ہو گیا۔اس وقت آلو آئرشوں کا من بھاتا کھاجا تھا۔وہ یہ سستی سبزی مختلف طریقوںسے پکا کر پیٹ بھرتے تھے۔مگر1845ء میں ایک خطرناک بیماری نے آلو کی فصلیں تباہ کر دیں۔جو فصل بچی، اس کی پیداوار انگریز زمینداروں نے انگلینڈ اور دیگر یورپی ممالک برآمد کر دیں کہ یہ ملک بھی قحط کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔یوں انھوں نے خوب منافع کما لیا۔

برطانیہ کی مورخ،سیسل ووڈہیم سمتھ نے آئرلینڈ کے قحط پہ ایک بھرپور ومبسوط تحقیقی کتاب''The Great Hunger: Ireland 1845-1849''تحریر کی جو 1962ء میں طبع ہوئی۔اس میں انگریز مصنفہ لکھتی ہے:''دوران قحط آلو اور دیگر اجناس کی بہت بڑی مقدار انگلینڈ بھجوا دی گئی۔حالانکہ اس وقت لاکھوں آئرش غذا نہ ہونے سے بھوکے مر رہے تھے۔آئرشوں کو بچانے کے واسطے انگریز حکومت نے ٹھوس اقدام نہیں کیے۔مذید ظلم یہ ہوا کہ انگلش زمین داروں نے جو مکئی اور گندم درآمد کی،وہ اپنے مویشیوں کو کھلا دی۔نتیجہ یہ نکلا کہ دس لاکھ آئرش اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جبکہ بیس لاکھ آئرش دیگر ممالک کو ہجرت کر گئے۔قحط نے آئرشوں اور انگریز حکومت کے مابین تعلقات مذید کشیدہ کر دئیے جو پہلے پہ خراب چلے آ رہے تھے۔''

بیسویں صدی کے آغاز میں آخر آئرشوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور انھوں نے مسلح تحریک آزادی تیز تر کر دی۔آئرش حریت پسند اور انگلش فوج کے مابین جنوری 1919ء تا جولائی 1921ء جنگ جاری رہی۔اس میں ساڑھے پانچ سو آئرشوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا۔جبکہ سات سو سے زائد انگریز فوجی بھی مارے گئے۔اس جنگ کے بعد انگلینڈ نے آئرلینڈ کو بطور آزاد مملکت تسلیم کر لیا۔یوں کشت وخون کے بعد ہی انگریز نے آئرلینڈ کی جان چھوڑی۔

آج آئرلینڈ ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔تقریباً پچاس لاکھ افراد مملکت میں بستے ہیں۔ان میں بیس ہزار پاکستانی نژاد بھی ہیں۔آئر لینڈ کا نومنل جی ڈی پی، 477ارب ڈالر دنیا کا نواں بڑا ہے۔فی کس آمدن 94ہزار ڈالر بھی کئی ترقی یافتہ ملکوں سے زیادہ ہے۔قابل ذکر بات یہ کہ جنگ عظیم دوم کے بعد آئرلینڈ عالمی مامعلات میں غیرجانب دار رہا ہے،لیکن جب بھی اسرائیل فلسطینیوں پر حملہ کرے تو یہ یورپی مملکت اسرائیلی حکومت پہ ضرور تنقید کرتی ہے۔آئرشوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم وستم کر رہا ہے،اسی لیے وہ ظالم وجابر ،استعماری اور غاصب ہے۔

فلسطین وکشمیر کے معاملے میں غیروں کو چھوڑئیے،اپنے بھی زبانی کلامی دعوی کر کے خاموش ہو جاتے ہیں۔بھارت اور اسرائیل کے خلاف کوئی ٹھوس عمل نہیں ہو پاتا۔ایسی صورت حال میں اسرائیل کے خلاف آئرلینڈ کے اقدامات قابل ذکر ہیں۔2018ء میں آئرش پارلیمنٹ نے یہ قانون منظور کیا تھا کہ مغربی کنارے میں واقع یہودی بستیوں کا تیارکردہ کوئی سامان آئرلینڈ میں فروخت نہیں ہو گا۔اس قانون کا عالم اسلام میں خیرمقدم کیا گیا۔

غزہ پر اسرائیل کے حالیہ حملے کے دوران بھی آئرش اسرائیلی حکمرانوں کی مذمت کرنے میں سرگرم رہے۔25مئی 2021ء کو آئرلینڈ کی پارلیمنٹ میں یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور ہوئی جس میں مغربی کنارے کی زمین پہ قبضہ کرنے پر اسرائیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔یوں آئرلینڈ کو باضابطہ طور پر اسرائیل کے خلاف کھڑا ہونے والے پہلے یورپی ملک کا اعزاز حاصل ہوا۔ماہرین کو یقین ہے کہ آنے والے وقت میں دیگر یورپی ممالک میں ایسی قراردادیں منظور ہو سکتی ہیں۔

آئرلینڈ کی تحریک آزادی میں سیاسی جماعت،شین فین نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ یہ پارٹی چاہتی ہے کہ آئرلینڈ سے اسرائیلی سفیر کو نکال کر اسرائیل سے تمام تعلقات توڑ لیے جائیں۔مگر پارلیمنٹ میں نشتیں کم ہونے کی وجہ سے وہ اپنے عزم کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتی۔امید ہے کہ آئرش حکومت اور عوام مسلمانان فلسطین وکشمیر کی حمایت ہر سطح پر جاری رکھیں گے۔

مقبوضہ کشمیر اور آئرلینڈ
مودی سرکار نے 5اگست2019ء کو ریاست جموں وکشمیر پر طاقت سے قبضہ کر لیا تھا۔اس زورزبردستی پر آئرلینڈ کے مشہور اخبار،آئرش ٹائمز نے 8اگست کو ایک اداریہ لکھا۔اداریے کے اقتباس درج ذیل ہیں:
''بھارتی ریاست جموں وکشمیر ایک متنازع علاقہ ہے۔ 1947ء سے بھارت نے ریاست کو محدود خودمختاری دے رکھی تھی۔5اگست کو مگر مودی جنتا نے یہ خودمختاری ختم کر ڈالی اور ریاست میں مارشل لا لگا دیا۔یہ ایک آمرانہ اقدام ہے جو ہندو قوم پسندی کے زیراثر کیا گیا۔اس قدم سے مگر ریاست میں لڑائی کا نیا سلسلہ شروع ہو گا۔مودی سرکار بھارت کی تعمیر وترقی کے بجائے پڑوسیوں سے جنگ کرنے میں مصروف ہے۔یہ پالیسی مودی حکومت کے لیے کئی مسائل کھڑے کر سکتی ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں