پاکستان آبادی میں پانچواں بڑا ملک قابو نہ پایا تو وسائل پر بوجھ بڑھ جائیگا ایکسپریس فورم

صورتحال یہی رہی تو 2047میں ہم 50 کروڑ تک پہنچ جائیں گے ، مسائل کا حل حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے ،ہاشم ڈوگر


خاندانی منصوبہ بندی پروگرام کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہورہا،روبینہ ذاکر، اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے آگے بڑھنا ہوگا،آئمہ محمود۔ فوٹو: ایکسپریس

آبادی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے، اگر یہی رفتار رہی تو 2047 ء میں ہماری آبادی 50 کروڑ ہوگی جو شدید مسائل کا پیش خیمہ ہے۔

اگر اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو انسانی وسائل پر بوجھ بڑھتا جائے ،معاملات میں پہلے سے بہتری ضرور آئی ہے مگر ابھی بھی بہت کام باقی ہے، اس کیلیے گراس روٹ لیول پر ہیلتھ کمیٹیاں اور فیملی پلاننگ پر عملدرآمد کیلیے مضبوط سوشل سٹرکچر بنایا جائے۔ ان خیالات کا اظہار حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ''آبادی کے عالمی دن'' کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔

صوبائی وزیر بہبود آبادی پنجاب کرنل (ر) ہاشم ڈوگر نے کہا کہ آبادی سمیت لوگوں کے تمام مسائل کا حل حکومتی ترجیحات میں شامل ہے،آبادی پر قابو پانے کیلیے تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا ، علماء بھی اس میں ہمارا ساتھ دے رہے ہیں، یہی صورتحال رہی تو 2047 ء میں ہماری آبادی 50 کروڑ ہوجائے گی جو سنگین مسائل کا پیش خیمہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ 44 ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز کو دوبارہ فیملی پلاننگ کی آگاہی'پر لگا دیا گیا،بہتری آئے گی۔ ماہرین کے مطابق زمین تقریباََ 10 ارب لوگوں کا بوجھ اٹھا سکتی ہے لہٰذا آبادی کے بڑھنے کی رفتار دنیا کے لیے الارمنگ ہے۔

انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز جامعہ پنجاب کی ڈائریکٹر ڈاکٹر روبینہ ذاکر نے کہا کہ آبادی کے حوالے سے اقدامات میں اگرچہ پہلے کی نسبت بہتری آئی ہے تاہم ابھی بھی بہت سارا کام باقی ہے، فیملی پلاننگ پروگرام میں بہت زیادہ فنڈنگ کی گئی مگر دیکھنا یہ ہے کہ تاحال یہ اس سے خاطر خواہ فائدہ کیوں نہیں ہورہا۔ صنفی برابری کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو 154 ممالک میں سے پاکستان 151 ویں نمبر پر ہے جو الارمنگ ہے،فیملی پلاننگ آگاہی دینے کیلیے لیڈی ہیلتھ ورکرز بھرتی کی گئی مگر بعدازاں انہیں اصل کام سے ہٹا کر پولیو، ڈینی و دیگر کاموں پر لگا دیا، انہیں ریفریشر کورسز کرواکر واپس فیملی پلاننگ کی ذمہ داریاں دی جائیں۔

نمائندہ سول سوسائٹی آئمہ محمود نے کہا کہ آبادی کے لحاظ سے اس وقت پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں 189 ممالک میں سے پاکستان 154ویں نمبر پر ہے جو تشویشناک ہے۔ انھوں نے کہا کمزور سوشل سیکٹر میں یہ سوچ کہ زیادہ ہاتھ، زیادہ کمائی لہٰذا والدین چھوٹے بچوں کو گھروں میں ملازم رکھوا دیتے ہیں۔

انھوں نے تجویز دی کہ آبادی کنٹرول کرنے کیلیے 3 بچوں سے کم والے گھرانے کو مراعات دی جائیں جن میں مفت معیاری تعلیم، دودھ، روزگار کی ضمانت و دیگر شامل ہوں، اس سے فائدہ ہوگا۔ والدین مناسب وقفہ رکھیں تو اس مسئلے سے بچا جاسکتا ہے، تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے آگے بڑھنا ہوگا اور ایک سنجیدہ اور ہنگامی ایکشن پلان بنانا ہوگا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔