اظہار تشکر  Gratitude

تعریف اور تشکر کے معاملے میں ہم اتنے کنجوس کیوں ہوتے ہیں، خواہ وہ کسی انسان کا ہو یا اللہ تعالی کا!


Shirin Hyder July 11, 2021
[email protected]

لاہور: '' ذائقے کو کتنے نمبر دوں ؟ '' سوال کیا گیا۔

'' دس میں سے چار... '' ایک جوابی آواز آئی تھی۔

'' چار تو بہت زیادہ ہیں... تین، بلکہ یوں کر کہ دو لکھ دے!'' ہنس کر ایک اور آواز نے کہا تھا۔

'' ماحول کے میں دو نمبر لکھنے لگا ہوں ! '' پہلے والے نے خود ہی فیصلہ سنا دیا، ''کیونکہ اتنے گرم موسم میں ان کے اے سی ہی ٹھیک کام نہیں کر رہے''

'' اور نہیں تو کیا، یہاں ہم کھانا کھانے آتے ہیں، گرمی کھانے تو نہیں! '' ایک آواز نے اس فیصلے کی تائید کی تھی۔

'' سروس کے کتنے نمبر دوں ؟ '' سوال کیا گیا۔

'' ویٹر کا نام لکھا ہے تم نے؟ ''

'' میں نے اس کا نام نہیں دیکھا۔

'' اس کانام یونس ہے... '' جواب آیا تھا، '' اس کو تو ایک یا دو نمبر ہی دو!''

'' سروس تو اچھی ہی تھی اس بے چارے کی... '' ایک سفارش آئی تھی۔

'' فالتو نمبر نہیں ہیں ہمارے پاس جو مفت میں بانٹتے پھریں... کوئی مفت میں تو نہیں سروس کر رہا تھا وہ، تنخواہ کے علاوہ ٹپ بھی ملتی ہے ان کو!!''

وہ چھ لڑکوں کا گروپ تھا، ہماری میز کے بالکل قریب کی میز تھی ان کی۔ میں نے انھیں دیکھا تھا ... کھانا انھوںنے خوب دبا کر کھایا تھا۔ جس طرح وہ پہلی بار نہیں تو، اس طرح ضرور کھا رہے تھے کہ شاید اس روز وہ ان کا آخری کھانا تھا۔ اندرکا درجۂ حرارت بھی معقول تھا، باہر سورج آگ برسا رہا تھا اور اندر سکون محسوس ہو رہا تھا۔ ویٹر بے چارے کو بھی انھوں نے مسلسل تنگ کیے رکھا تھا اور اسے یوں بار بار بلا رہے تھے جیسے کہ وہ ان کے گھر کا ذاتی ملازم ہو۔ آٹھ ہزار کے بل پر انھوں نے ویٹر کو دو سو روپیہ ٹپ دی تھی اور میں ان کی اس واضح اور باآواز بلند گفتگو کو سن کر سوچ رہی تھی کہ واقعی اللہ تعالی نے ہمارے نصیب، رزق، زندگی، موت، عزت اورذلت کو اپنے ہاتھ میں رکھ کر کتنا اچھا کیا ہے، ہم انسانوں کے ہاتھ میں ہوتا تو ہمارے کہاں اتنے ظرف کہ ہم کسی کو کچھ دیتے۔ ہم کسی کو تشکر کے طور پر اس کی خدمات کو سراہنے میں اتنی کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اگر ہمیں کسی کو ان میںسے کوئی نعمتیں دینا پڑ جاتیں تو ہم کبھی نہ دیتے ۔

کھانا اچھے ماحول میں بھی کھایا تھا، پیٹ بھر کر کھایا تھا، گپ شپ بھی کی تھی اور ویٹر سے بھر پور خدمت بھی لی تھی تو آخر میں ایک کمنٹ کارڈ آپ کو دیا گیا ہے، اس پر آپ اپنی سچی رائے دے دیں۔ کسی کو بے عزت کرنے یا اسے گھٹیا سمجھنے کا ٹھیکا تو نہیں دیا گیا ہے آپ کو!! یہ کمنٹ کارڈ عموماً ہمیں ہوٹلوں میں اپنے کھانے کے بعد دیے جاتے ہیں کہ ان کی روشنی میں ہوٹل اور ریستوران اپنی کارکردگی کو بہتر بنا سکیں، لیکن ہم اپنی اچھی رائے تک دینے کے معاملے میں بھی اتنے خود غرض کیوں ہو جاتے ہیں؟ ہمیں کیا علم کہ ان کے اس کارڈ کی رائے کی روشنی میں وہاں سے اس ویٹر، ان کے خانساماں یا ان کے مینیجر کی نوکری کا دارومدار ہو!! اگر آپ انھیں برے نمبر دیں گے تو مالکان اپنے ادارے یا ریستوران کی ساکھ کے لیے انھیں اس ملازمت سے فارغ کر دیں گے۔

تعریف اور تشکر کے معاملے میں ہم اتنے کنجوس کیوں ہوتے ہیں، خواہ وہ کسی انسان کا ہو یا اللہ تعالی کا!! آپ کسی سے کچھ مانگیں اور وہ آپ کو انکار کردے تو ہم عمر بھر اس کے نام کے ساتھ اس انکار کی دم کو یاد رکھتے ہیں اور جب کوئی ہم پر احسان کرے تو ہم اسے یوں قبول کرتے ہیں جیسے کہ وہ اس کا فرض اور ہمارا حق ہو۔ یہی معاملہ ہم خاص طور پر اللہ تعالی کے ساتھ بھی روا رکھتے ہیں ۔ اس نے ہمیں کتنا نواز رکھا ہے، اس کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ مثلا کورونا کے دوران ہمیں اندازہ ہوا کہ سانس کی نارمل آمدورفت ہی کتنی بڑی نعمت ہے اور ہمیں اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے، ہمارے اردگرد موجود آکسیجن کتنی بڑی نعمت ہے جو اللہ تعالی نے ہمیں مفت میں فراہم کررکھی ہے۔ حقیقت میں ہمارے جسمانی نظام میں موجود وہ تمام صلاحیتیں ایسی ہیں کہ جنھیں ہم اس وقت تک محسوس نہیں کرتے جب تک کہ ہمیں ان میں تکلیف نہ ہو۔

اللہ نے ہمیں دو ہاتھ اور دوپاؤں دیے ہیں اور ان کا مکمل اور تندرست ہونا کتنی بڑی نعمت ہے، دو آنکھیں، دو کان، ناک، دانت، منہ، زبان، دل دماغ اور جانے کیا کیا ... ان کی موجودگی سے ہم اس وقت بے خبر رہتے ہیں جب تک کہ ہمیں ان میں درد نہ ہو، چوٹ لگے اور تکلیف ہو تو ہمیں یاد آتا ہے کہ ہمارے پاس جو اعضاء ہیں ان کا صحت یاب ہونا بھی ایک نعمت ہے۔ تب بھی زبان پر فوراً شکوہ ہی آتا ہے کہ ہم تکلیف میں مبتلا ہو گئے ہیں، اس وقت بھی Gratitude کے الفاظ منہ سے نہیں نکلتے کہ چلو ایک عضو زخمی ہوا، اس سے بڑا نقصان بھی ہو سکتا تھا یا اس کے علاوہ بھی اور کتنے ہی صحت مند اعضاء ہیں ۔

چھوٹی عمرسے ہم اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں اور یہی ہمیں بھی سکھایا گیا تھا کہ جب کوئی مدد کرے، حمایت کرے یا احسان کرے تو فوراً اظہار تشکر کریں۔ اس وقت تک اس پر عمل ہوتا بھی ہے جب تک اپنے ارد گرد کی چکا چوند آنکھوں کو خیرہ کرنا نہیں شروع کرتی۔ جونہی ہم ذرا سے سمجھدار ہوتے ہیں، اس وقت ہم زیادہ ناسمجھ ہوجاتے ہیں اور ہر اس چیز میں کیڑے نکالنا شروع کر دیتے ہیں جو کہ ہمارے پاس ہوتی ہے... ہمیں ہر وہ چیز اچھی لگنے لگتی ہے جو نہ ہمارے پاس ہوتی ہے نہ ہمارے نصیب میں۔ والدین اپنے پیٹ کاٹ کر اور اپنی خواہشات کو سولی چڑھا کر ہمیں پروان چڑھاتے ہیں... ہم ان کے مرنے تک بھی ان کے سامنے ان کی ان قربانیوں اور محنت پر اظہار تشکر نہیں کرتے، انھیں کہتے ہی نہیں کہ وہ نہ ہوتے تو ہم اس مقام تک نہ پہنچتے۔

ہم مختلف محکموں میں شکایات درج کرواتے ہیں، گیس، بجلی، پانی، کیبل، ٹیلی فون یا بینک وغیرہ۔ جب تک مسئلہ حل نہیں ہوتا ہم دن رات کالیں کر کر کے رنج اور غصے کا اظہار کرتے ہیں، سست روی کا گلہ کرتے ہیں۔ سوچیں ، بھی ایسا ہوا کہ آپ کی شکایت کا ازالہ کیا گیا ہو اور اس کے بعد پلٹ کر آپ نے اسی محکمے میںایک کال کر کے شکریہ ادا کیا ہو؟؟ نہیں نا!! کیونکہ ہم وہی ہیں جو اظہار تشکر کو مشکل کام سمجھ کر اس سے اجتناب کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی ہم سب کو توفیق دے کہ ہم ایسی چھوٹی چھوٹی مثبت باتوں سے اپنے ارد گرد کو خوبصورت بنائیں ۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔