جدوجہد ’’میرا سینگار‘‘
وہ شخص کس طرح سماج کی جمہوری قدروں کا پالنہار ہو سکتا ہے جو ’’کھونے‘‘ کا ہنر نہ جانتا ہو۔
عوامی حقوق کی پاداش میں مقتل کی جانب سفر میں جب ہمارا ہار سینگار محکوم طبقات کے حقوق کی جدوجہد ٹھہرتا ہے تو پھر ہماری جان آنی جانی شے بن جاتی ہے، پھر ہم کمیونسٹ نظریئے کے دھنی بغاوتوں کے علم بلند کرتے ہوئے مقتل کی سج دھج بن جاتے ہیں،فیض کو بھی کہنا پڑ جاتا ہے کہ
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
گر بازی عشق کی بازی ہے ، جو چاہو لگا دو ، ڈر کیسا
گرجیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
بالادست اور طاقتور طبقات اکثر طاقت کے نشے میں بھول جاتے ہیں کہ عوامی ہلچل اور بالا دست طبقات کے جور و ستم سے پیدا ہونے والی جدو جہد آخری نتائج میں پیغام بیداری کا وہ موڑ ہوتی ہے، جس کا مقابلہ طاقتورچاہتے ہوئے بھی نہیں کرسکتے۔
لاڑکانہ ضلع نصیر آباد کے سپوت سینگار نانوروی اور اس کے جدوجہد کی ساتھی فوزیہ نوناروی کا ذکر کیوں نہ ہو جنھوں نے اپنی روشن خیال سوچ کے تحت انسانی حقوق کے تقدس اور بقا میں اپنا گھر بار قربان کر دیا ہو،میں اپنے نظریاتی اور سیاسی کامریڈ لطیف لغاری کو کیسے نہ یاد رکھوں جو اپنے کنبے اور ساتھیوں کے ساتھ ''سینگار نو ناروی'' اور اس کی شریک سفر فوزیہ کے شانہ بشانہ استقامت سے کھڑا بخشل تھلو اور عالیہ تھلو سمیت منظور تھہیم کے ترقی پسند آدرشوں پر چلتے ہوئے سینگار کی عوامی حقوق کی قربانیوں کو منظر عام پر لانے میں جتا ہوا ہے۔
میں اس مرحلے پر سندھ کے شہرکراچی کی اس جمہوری جدوجہد کو کس طرح بھلادوں جس نے سندھ پر دور ایوبی میں ''ون یونٹ'' کو مسلط کرنے کی بھرپور مزاحمت کی ہو،میں چاہتے ہوئے بھی کراچی کے ایوبی آمریت کے خلاف طلبہ تحریک اور ان کے حقوق کی جنگ میں شہر بدر ہونے اور ایوبی مارشل لا کا مقابلہ کرنے کو کس طرح فراموش کردوں کہ جس کراچی کے بہادر طلبہ نے ملکی طلبہ کے حقوق کی جنگ کو لڑا ہو،میں کیوں کر اپنے سندھو ماتا کے ان کراچی سپوت علی مختار رضوی،معراج محمد خان اور ڈاکٹر رشید حسن کے قیدو بند کی صعوبتوں کو نظر انداز کردوں جو انھوں نے ترقی پسند نظریئے اور روشن خیالی کی سچائی کے تحت لڑیں۔
عوام کے لیے اپنی زندگی تج کردینے کا ہنر صرف اس پانے والے میں کس طرح آسکتا ہے جو اپنے مفادات کے لیے حرص و لالچ کی غلاظت میں لپٹا ہوا ہو،وہ شخص کس طرح سماج کی جمہوری قدروں کا پالنہار ہو سکتا ہے جو ''کھونے'' کا ہنر نہ جانتا ہو،کھونے کے ارادوں کے لوگ ہی سماجی تاریخ کا وہ سرمایہ ٹہرے ہیں جنھیں سماج نے نہ صرف ہمیشہ قبول کیا ہے بلکہ سماج نے ان کے کردار سچائی اور نظریئے کو اپنا آدرش بنایا ہے۔
بس آجکل یہی تو میرے سندھو کے ایک چھوٹے سے شہر نصیر آباد کے رہواسی صبح و شام حوصلوں کے علم اٹھائے فوزیہ سینگار کے ہم رکاب ہوکر سینگار نوناروی پر ریاستی یلغار کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں،فوزیہ سینگار نظریئے کی بھٹی کے الاؤ سے ہمتوں کی چادر میں لپیٹے معصوم ننھے سینگار کو پالنے سے اٹھا کر اور جدوجہد کا ساتھی بنا کر نصیر آباد کی ہر گلی اور کوچے میں سینگار نوناروی کی عوامی جدوجہد کی تاریخ رقم کرارہی ہے اور مجال کہ نصیر آباد کی مہلاؤں کے سنگ وہاں کے جوان بوڑھے نہ ہوں،یہ روزمرہ کے مظاہرے اور احتجاج جہاں ریاستی جبر کی طاقت کو اپنی ہمتوں سے طمانچے مار رہے ہیں،وہیں نصیر آباد کی صداقتوں کے یہ علم اہل نظر و فکر کو یہ بھی بتا رہے ہیں کہ جہاں سینگار نوناروی ایسا نظریاتی مرد آہن ہوتا ہے وہاں کے مکیں خود بخود ہمتوں کا وہ جوالا بن جاتے ہیں جہاں طاقت ٹھس ہو جایا کرتی ہے۔
آج نصیر آباد کی ہر ماں،بہن بیٹی،نوجوان اور بوڑھا سیگار نوناروی کی ماں کے اس نظریاتی تربیت پر سر اٹھا کر چل رہا ہے جو اس نے سینگار کو دی اور اس سینگار کے نظریاتی شعور کی ساتھی اس کی بہنیں اور فوزیہ بنیں،یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ شاہ لطیف کے سر اور لے کا دھنی ''جاکھوڑی'' نہ ہو،جدوجہد کا علم نہ اٹھائے،اپنے شہر میں تعلیم کو عام کرنے کے لیے بیقرار نہ ہو،عورتوں کے حقوق اور ان کی تعلیم کا ساتھاری نہ ہو،مزدوروں کا استحصال ہوتا ہوا دیکھے اور اس پر مزدوروں کو منظم نہ کرے،یہ کیسے ممکن ہے کہ سرد رات کی''مچ کچھری''کی چنگاری نصیر آباد کے رہواسیوں میں سینگار کی یاد کے سر نہ بکھیرتی ہو۔
لے اور لطیفی سر کا یہ نظریاتی ملنگ کیسے دہشت اور وحشت کا ''ریاستی مجرم''ہو سکتا ہے،یہ از خود ریاست کا وہ شکست خوردہ بیانیہ ہے جو گل سڑ کر سماج کے سیاسی شعور میں تعفن پھیلا رہا ہے۔دھن کے متوالی جانتے ہیں کہ لطیفی لات تو امن شانت اور جدوجہد کا وہ عنوان ہیں جس کے مدھر سر نظریاتی کمیونسٹ کو عوامی محبت میں مدہوش کر دیتے ہیں،اور یہی عوامی محبت اور عوام کے حقوق دلانے کی جدوجہد کا استعارہ سینگا نوناروی طاقتوروں کو کھٹکتا ہے،تو سمجھ لیجیے کہ ریاست کے مربیوں کے پیروں تلے زمیں نکل چکی ہے جس میں سینگار نوناروی کی بازیابی والی فوزیہ سمیت پارٹی اور سندھ واسیوں کی جدوجہدوہ معرکہ ہوگی جو شاید کمیون سماج کی جانب بڑھتے قدموں کی وہ پکار ہو جو سندھ کی حقیقی قوم پرست جدوجہد سمیت دیس میں عوام کے سیاسی شعور کا حوصلہ مند قدم ہو اور عوام ظلم و جبر سے مشترکہ جدوجہد ذریعے چھٹکارہ پائیں۔