اندھیرا چھٹنے والا ہے
شمالی کوریا تو ایک چھوٹی طاقت ہے مگر چین حربی اور معاشی طور پر امریکا کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے تمام شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ شہری پرائیویٹ ہوائی اڈوں ، فوجی تنصیبات اور اسٹیٹ سیکریٹریٹ کمپلیکس کی حد سے تین کلومیٹر کے فاصلے کے اندر کسی بھی قسم کے ڈرون کا استعمال کرنا یا رکھنا جرم کے دائرے میں شامل ہوگا۔
نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس ڈرون یا ڈرون کیمرہ موجود ہے تو وہ فوری طور پر اپنے علاقے کے تھانے میں جمع کرا دے۔ حکومتی اداروں کے پاس موجود ڈرونز کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ان کے استعمال سے پہلے مقامی تھانے کو اطلاع کریں اور تحریری اجازت حاصل کریں۔ خلاف ورزی کرنے پر سخت سزا دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔
یہ نوٹیفکیشن جموں فوجی ہوائی اڈے پر دو ڈرونز حملوں کے بعد جاری کیا گیا ہے ، اگر ڈرون حملہ پاکستان کی جانب سے کیا گیا تھا تو پھر اپنے ہی شہریوں کو ڈرونز کے استعمال اور رکھنے پر پابندی لگانے کی کیا ضرورت تھی۔ دراصل جموں فوجی ہوائی اڈے میں گرنے والے ڈرونز معمولی نوعیت کے تھے ، ہو سکتا ہے انھیں کسی شہری نے ہی چھوڑا ہو مگر اس واقعے کو بڑھا چڑھا کر ذرایع ابلاغ میں اسے پاکستانی حملہ قرار دے دیا گیا اور ان میں بارودی مواد بھرے ہونے کا بھی انکشاف کردیا گیا۔
ویسے تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس ڈرون حملے کا اہتمام خود بھارتی حکومت نے کیا ہو کیونکہ وہ پاکستان کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے پہلے بھی ایسے ڈرامے رچاتی رہی ہے۔ تاہم اس وقت پاکستان پر دہشت گردی کا فوری الزام لگانا ضروری ہوگیا تھا کیونکہ لاہور میں حافظ سعید کے گھر کے قریب ہونے والے کار دھماکے میں ملوث تمام بھارتی ایجنٹس کو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے تلاش کرلیا ہے اور پنجاب پولیس نے انھیں گرفتار کرلیا ہے چنانچہ بھارتی حملہ سازوں کو ڈر تھا کہ گرفتارشدگان تمام راز نہ کھول دیں اور پاکستان کی جانب سے ٹھوس ثبوت کے ساتھ بھارت پر دھماکے کا الزام عائد کردیا جائے جس سے نہ صرف بھارت کی سبکی ہو بلکہ پاکستان یہ معاملہ فیٹف کو بھی ریفر کرسکتا ہے جس سے بھارت فیٹف کی گرفت میں آسکتا ہے۔
چنانچہ شہری ڈرونز کے فوجی اڈے کے احاطے میں گرنے کے واقعے کو سازشی رنگ دیتے ہوئے اسے پاکستانی حملہ قرار دے دیا گیا حالانکہ یہ ویسے بھی تکنیکی طور پر بھی غلط تھا ،کیونکہ یہ عام سے ڈرون تھے جو زیادہ سے زیادہ پانچ کلو میٹر تک پرواز کر سکتے ہیں جب کہ جموں فوجی ہوائی اڈے سے پاکستانی بارڈر کا فاصلہ پندرہ کلومیٹر سے کم نہیں ہے مگرگھبراہٹ اور جلد بازی میں یہ سب کچھ نہیں دیکھا گیا۔
چنانچہ ان ڈرونز حملے کو پاکستانی قرار دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر مزید دباؤ ڈالنے کے لیے بھارتی فوج کے سربراہ بپن راوت جو براہ راست مودی سے ہدایات لیتے ہیں نے ایک بیان میں پاکستان کو براہ راست دھمکی دی کہ اس نے جموں ہوائی اڈے پر جو حملہ کیا ہے ، اس کا اس سے بدلہ لیا جائے گا اور یہاں تک کہہ دیا کہ وقت اور جگہ کا تعین بھارت خود کرے گا۔
قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے پریس کانفرنس میں بھی یہی بات کہی ہے کہ ڈرونز حملے کا پاکستان پر الزام لاہور دھماکے کے بعد لگایا گیا ہے۔ جس کا واضح مقصد لاہورکے دھماکے سے دنیا کی توجہ ہٹانا ہے۔ یہ پریس کانفرنس انتہائی موثر ثابت ہوئی ہے جس نے یقینا بھارت کو ہلا کر رکھ دیا ہوگا ساتھ ہی اس کے سرپرستوں پر بھی یہ پریس کانفرنس کافی بھاری ثابت ہوئی ہوگی۔ معید یوسف نے فیٹف پر بھی واضح کردیا ہے کہ اس کا دہرا معیار کسی طرح بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ وہ بھارت کی ٹیررز فنانسنگ پر بھی نظر کرے اور اسے بھی کٹہرے میں لائے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی فیٹف پر واضح کردیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ سراسر زیادتی کر رہا ہے اور اس کی ناک کے نیچے بھارت ایک زمانے سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کو سپورٹ کرنے میں لگا ہوا ہے مگر اسے مکمل طور پر استثنیٰ دیا ہوا ہے اس لیے کہ مغربی بڑے ممالک بھارت کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ وہ بھارت سے وابستہ اپنے مفادات کے سبب حق انصاف کو بھول بیٹھے ہیں مگر اس طرح وہ دنیا کو بد امنی کی دلدل میں گرانے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہی ممالک پاکستان سے اس لیے ناراض ہیں کہ پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات روز بروز مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کا یہ سوال بڑا معنی خیز ہے کہ آخر چین سے امریکا کی دشمنی کی وجہ کیا ہے؟ دوسری جنگ عظیم کی کامیابی کا سہرا اپنے سر سجانے کے بعد امریکا خود کو سپر پاور سمجھنے لگا ہے وہ کسی بھی ملک کو معاشی اور حربی طور پر اپنے سے آگے نکلتا نہیں دیکھ سکتا۔
سرد جنگ کے زمانے میں روس کی ترقی امریکا کے لیے ایک چیلنج بن گئی تھی مگر ترقی سے زیادہ وہ اس کے کمیونزم کے فلسفے کا دشمن ہے کیونکہ وہ خود ایک سرمایہ دار ملک ہے اور کمیونزم سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہے۔ امریکا نے روس کو خوف زدہ کرنے کے لیے نیٹو بنائی جس میں اس نے تمام یورپی ممالک کو جو اس وقت اس کے زیر اثر تھے انھیں نیٹو میں شامل کیا۔
نیٹو سینٹو اور سیٹو کی طرح ایک فوجی گٹھ جوڑ ہے جس کی مشترکہ فوجی طاقت کافی متاثر کن ہے مگر روس اس سے نہ کبھی پہلے نہ آج مرعوب ہے۔ افغان جنگ ہارنے کے بعد روس میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں جہاں انھوں نے سوویت یونین میں شامل کئی مسلم ریاستوں کو فیڈریشن سے علیحدہ کردیا وہاں کمیونزم طرز حکومت کو بھی ترک کرکے جمہوریت کو اپنالیا ہے چنانچہ روس اب امریکا کا پہلے جیسا دشمن نہیں رہا۔ اب اس وقت صرف چین اور شمالی کوریا کمیونزم کے علم بردار ہیں۔
شمالی کوریا تو ایک چھوٹی طاقت ہے مگر چین حربی اور معاشی طور پر امریکا کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے۔ اس کی معاشی ترقی سے پوری دنیا مستفید ہو رہی ہے اس طرح چین کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے امریکا کو ڈر ہے کہ آنے والے وقت میں چین دنیا پر نہ چھا جائے۔ کیونکہ اس وقت خود اس کی اپنی پوری دنیا میں ایک جارح اور غاصب ملک کی پہچان بن چکی ہے چنانچہ چین اس کی سپرپاور کی حیثیت کو نہ ختم کردے ۔ اس ڈر سے امریکا چین کو اپنے سے آگے نکلنے سے روکنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرتا رہتا ہے۔ وہ اسے تو اپنا دشمن سمجھتا ہی ہے اس کے دوستوں کو بھی اپنا دشمن خیال کرتا ہے مگر پاکستان کو چین کی دوستی پر فخر ہے۔