عورتوں کا لباس…غیر ملکی خواتین کی رائے آخری قسط
پاکستانی میڈیا اپنی کمرشل ضروریات کا قیدی ہے اور ہماری نام نہاد اشرافیہ صدیوں سے احساسِ کمتری کا شکار۔
کسی پرائیویٹ کالج کی لیکچرر یہ جرأت نہیں کر سکتی کہ ادارے کے سربراہ کے احکامات کی معمولی سی بھی خلاف ورزی کرے،کوئی ٹی وی اینکر چینل منیجمنٹ کی ہدایات سے روگردانی نہیں کرتا، چاہے اُسے جانبداری کے طعنے ہی کیوں نہ سننا پڑیں۔ مگر کائناتوں کے مالک کے احکامات کی ہم کتنی آسانی اور دیدہ دلیری کے ساتھ خلاف ورزی کرتے رہتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے ہمیںکوئی guilt محسوس ہوتا ہے اور نہ خوف۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے ذہنوں میں خالقِ کائنات کے عجیب قسم کے تصورات پال رکھے ہیں۔
بہت سوں نے خالق و مالک کے غیر واضح تصور کے لیے ''اوپر والا '' جیسے الفاظ تراش لیے ہیں۔ ہم مسلمان کہلانے والوں کی اچھی خاصی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ ''بڑے پیر صاحب'' قسم کی کوئی شخصیت ہیں جو ہماری عید کی نماز، حج اور خیرات وغیرہ سے خوش ہوجاتے ہیں ورنہ انھیں ہمارے معاشرتی، تمدنی، سیاسی اور معاشی معاملات سے کوئی غرض نہیں،اس لیے ہمیں دنیاوی معاملات میں آسمانی ہدایت کی کوئی ضرورت نہیں۔ اﷲ کا تصور اور انسان کا اپنے خالق و مالک سے رشتہ، یہی وہ بنیادی نظریہ ہے جو ہماری سوچ اور طرز ِ عمل کی تشکیل کرتا ہے، اسی سے پوری تہذیب وجود میں آتی ہے اور اسی سے لبا س سمیت پورے کلچر کا تعین ہوتا ہے۔
ہم جیسے غلام ابنِ غلام، اور احساسِ کمتری کے مارے ہوئے کمزور ایمان والے پیدائشی مسلمان توبدیسی اقوام سے مرعوب رہتے ہیں اور ان کی نقّالی کرتے رہتے ہیں، لیکن وہ لوگ جو حق کی تلاش میں جدّو جہد کرتے ہیں اور جنھیں بڑی محنت اور ریاضت کے بعد سچّائی کی روشنی حاصل ہوتی ہے، وہ دل کی گہرائیوں سے مانتے ہیں کہ تمام کائناتوں کا مالک اور مختار اﷲ تعالیٰ ہے، اُس نے انسانوں کو ایک خاص مقصد (امتحان)کے لیے پیدا کیا ہے، ہماری موت کے بعد وہ ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا اور دنیا میں کیے گئے اعمال کے مطابق ہمیں جزا یا سزا دے گا۔ وہ جانتے ہیں کہ مسلمان ہونے کا مطلب complete submissionیعنی اپنے آپ کو اﷲ کے حوالے کرنا یا اس کی غلامی میں دے دینا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اﷲ کی خوشنودی ان کی ترجیحِ اوّل بن جاتی ہے۔ پھر ایسے مرد مالِ حرام اس لیے نہیں کماتے کہ وہ اﷲ سے ڈرتے ہیں۔ ایسی خواتین لباس کا انتخاب کرتے وقت یہ نہیں دیکھتیں کہ فیشن کا کیا تقاضا ہے یا ٹرینڈ کیا ہے بلکہ وہ یہ دیکھتی ہیں کہ یہ لباس پہننے سے میرا جسم نمایاں ہوگا جس سے میرے اﷲ نے منع فرمایا ہے، لہٰذا میں ایسا لباس پہنوں گی جس کے پہننے سے رب ذولجلال مجھ سے خوش ہوں۔ اﷲ کا ڈر اور اس کی خوشنودی کا حصول ان کی زندگی کا محور اور driving forceبن جاتاہے۔
پاکستانی میڈیا اپنی کمرشل ضروریات کا قیدی ہے اور ہماری نام نہاد اشرافیہ صدیوں سے احساسِ کمتری کا شکار۔ اس لیے پاکستانی خواتین ضرورت سے زیادہ ہی مرعوبیت کا شکار ہیں مگریورپ اور امریکا میں رہنے والی نو مسلم خواتین کسی قسم کےes Complexکا شکار نہیں ہوتیں اور اسلامی شعا ئر کا پورے اعتماد، جرأت اور مضبوط دلائل کے ساتھ دفاع کرتی ہیں۔ نو مسلم برطانوی صحافی ایوان ریڈلے کئی بار کہہ چکی ہیں کہ '' مغرب باحجاب اور پاکیزہ زندگی گزارنے والی خواتین سے خوفزدہ ہے، اسلام ہی انسانوں کو اور خصوصاً عورتوں کو سب سے زیادہ حقوق دیتا ہے۔''وہ اکثر کہتی ہیں کہ ''میرا حجاب میرا قلعہ اور میرا سائبان ہے۔ یہ عورت کا محافظ اور باڈی گارڈ ہے۔''
سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر کی بیگم کی سگی بہن لارن بوتھ کی وڈیوز قارئین نے دیکھی ہوںگی۔ ایک تقریب میں ان کی دونوں معصوم بیٹیاں ان کے ساتھ کھڑی ہیں اور وہ حاضرین کو بتارہی ہیں کہ ''جب کافی مطالعے کے بعد میں اسلام کی طرف راغب ہوئی تو میں نے اپنی بیٹیوں کو بتایا کہ اب میں مسلمان ہونے جارہی ہوں، اس پر انھوں نے مجھ سے کچھ سوال پوچھے، ایک سوال تھا، "Mom! will you open your chest to the public?" (ماما کیا آپ مسلمان ہونے کے بعد بھی سینہ نمایاں کرکے لوگوں میں پھریں گی ؟) میں نے کہا "Oh no I will cover my whole body" اس پر انھوں نے بڑے زور سے پُر مسرت نعرہ لگایا"۔ پھر وہ سامعین سے مخاطب ہوئیں ''میرا حجاب میرے مسلمان ہونے کاسمبل ہے، یہ میرے لیے شرف ا ور افتخار کا باعث ہے۔ مجھے حجاب سے اس لیے محبت ہے کہ میرے اﷲسبحانۂ تعالیٰ کی خوشی اور خوشنودی اِسمیں ہے''۔
دوسال پہلے وہ پاکستان تشریف لائیں تو ان سے ملاقات بھی ہوئی، ایک محفل میں وہ پاکستانی خواتین کو بار بار کہتی رہیں کہ '' پاکستانی لڑکیوں کو بتائیں کہ عریاں اور ٹرانسپیرنٹ لباس پہننا یا ٹائٹس پہن کر خود کو نمایاں کرنا ماڈرن ازم نہیں، بے حیائی ہے۔ انھیں بتائیں کہ شیطان کا پہلا حملہ عورت کے لباس پر ہوتا ہے۔
مسلم خواتین کو اپنی تہذیب اور اپنے کلچر پر فخر کرنا چاہیے، مغرب، اسلامی معاشروں سے حیاء کا سرمایہ چھین کر مسلمان لڑکیوں کو بے حیا بنانا چاہتاہے، وہ مسلمانوں کی حمیت ختم کرنے کے لیے حیاء کے قلعے کو مسمار کردینا چاہتا ہے''۔
جاپانی نو مسلمہ خولہ لکاتا حجاب کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں،'' میرا حجاب میرے لیے اپنے آپ کو اﷲکے سپرد کرنے کی یاد دہانی ہے۔ حجاب پہن کر مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں اﷲ کے زیادہ قریب ہوگئی ہوں۔ جس طرح پولیس اور فوج کا سپاہی وردی میں اپنے پیشے کے تقاضوں کا خیال رکھتا ہے اسی طرح حجاب بھی مجھ سے کچھ تقاضے کرتا ہے۔ اسلام عورتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ غیر مردوں سے اپنا جسم پوشیدہ رکھیں۔ اس کی حکمت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔ نیم عریاں یا ہیجان انگیز لباس کا مطلب ہوتا ہے 'اگر آپ کو میری ضرورت ہے تو میں تیار ہوں' جب کہ حجاب واضح طور پر بتاتا ہے ''میں آپ کے لیے ممنوع ہوں۔''
میرے لیے بڑی بہن کی طرح محترم لاہور کالج فارویمن کی سابق وائس چانسلر ڈاکٹر بشریٰ متین صاحبہ (اﷲ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائیں) سے اس موضوع پر بات ہوتی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ کہنے لگیں، ''مجھ سے کچھ طالبات حیاء کے بارے میں جب کہتی ہیں،''میڈم ! حیاء تو دل میں یا آنکھوں میں ہوتی ہے، اس کا لباس سے کیا تعلق ہے''تو میں انھیں بتاتی ہوں ''بیٹا ! کچھ لوگ بیہودہ لباس کے دفاع میں ایسی باتیں کرتے ہیں۔ حیاء کا لباس سے گہرا تعلق ہے۔ جو لڑکی اپنے جسم کے فیچرز اور اُبھار ڈھانپتی ہے وہ باحیاء ہے اور اگر کوئی لڑکی اپنے فیچرز اور خدوخال سرِ عام دکھانے میں شرم محسوس نہیں کرتی تووہ بے حیائی ہے''۔ انھوں نے بتایا کہ ''میری ایک بیٹی ڈاکٹر ہے۔
ایک دن اس نے مجھے خود کہا کہ امّی میں پورے بازوؤں والی قمیض پہن کر اسپتال جایا کروںگی کیونکہ میں یہ پسند نہیں کرتی کہ وار ڈ میں مریض میرے ننگے بازو دیکھتے رہیں''۔ ڈاکٹر صاحبہ نے مزید کہا ،'' نئی نسل کو بے حیائی سے بچانا ہمارا بہت بڑا چیلنج ہے۔ دہشت گردی سے بھی بڑا! اس کے لیے ماؤں اور ٹیچرزکو بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا، انھیں چاہیے کہ بے حیائی کے خلاف ڈٹ جائیں اور پوری جرأت سے اس کے خلاف نفرت کا اظہار کریں۔ انھوں نے اپنے فرائض سے کوتاہی برتی تو وہ مجرم ٹھہریں گی۔
تاریخ کے کٹہرے میں بھی اور اﷲ کی عدالت میں بھی''۔ اسلام کی اپنی تہذیب اتنی شاندار اور توانا ہے کہ اس کے پیروکار کسی اور تہذیب کی نقّالی کریں تو حیرت ہوتی ہے۔ ہماری بہنوں اور بیٹیوں کو چاہیے کہ اپنی مسلم تہذیب اور اقدار کے مطابق باحیا اور باوقار لباس پہنیںاور ہماری پبلک لائف کی معروف اور مقبول ترین خواتین مادرِملّت محترمہ فاطمہ جناح، محترمہ بینظیر بھٹو، اور بیگم کلثوم نوازوغیرہ کی پیروی کرتے ہوئے سر اور چَیسٹ کو Coverکیا کریں۔ انھیں اخلاق باختہ عورتوں کی پیروی ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔
یہ درست ہے کہ قائدِ اعظمؒ پاکستان کو theocratic stateنہیں بنانا چاہتے تھے مگر وہ ایسا پاکستان ہرگز نہیں چاہتے تھے جہاں برقی میڈیا پر اسلام سے بغض رکھنے والے عناصر کا قبضہ ہواور وہ پر دھان بن کر شعائرِ اسلام پر دیدہ دلیری سے حملے کریں۔ بانیانِ پاکستان سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کے پاکستان میں اﷲ اور رسولؐ کے واضح احکامات پر''مذہبی کارڈ'' کا لیبل لگا کران کی توہین کی جائے گی اور مسلمانوں کی علیحدہ شناخت ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
قیامت تک کے لیے انسانوں کے رہبر و رہنما حضرت محمدﷺ کا فرمان ہے کہ ''جس شخص میں حیاء نہیں پھر وہ جو چاہے کرے'' یعنی ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ تمام زمانوں کی مسلم خواتین کی رول ماڈل جنابہ فاطمۃالزھراؓ اعلیٰ ترین اوصاف کا مرقع تھیں اور ان کا سب سے درخشندہ وصف حیاء تھا، کون نہیں جانتا کہ خاتونِ اعظم کی وصیت تھی کہ ''میرا جنازہ رات کو اُٹھایا جائے تاکہ میری میّت پر بھی کسی غیر مرد کی نظرنہ پڑسکے''۔
میرا وجدان کہتا ہے کہ اﷲسبحانہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اس پاک سرزمین کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طالبات خود اٹھ کھڑی ہوںگی۔ وہ حیاء دشمن کلچر کو مسترد کرتے ہوئے اپنی تہذیبی اَقدار کا پرچم لے کر نکلیں گی اور بیہودگی کے طوفان کا رخ موڑ دیں گی اور حیاء کے قلعے پر ہونے والے حملے کو ناکام بنا دیں گی۔ مجھے یقین ہے کہ اس پاک سرزمین میں حیاء کا قلعہ کبھی مسمار نہیں ہوگا کیونکہ اس قلعے کی حفاظت کے لیے ہماری بیٹیاں اور بہنیں جب نبی اکرمؐ اور جنابہ فاطمۃؓ الزھرا کی دعاؤں کی چھاؤں میں نکلیںگی تو کائناتوں کے خالق ومالک کی نصرت بھی ان کے ساتھ ہوگی۔