تیسرے درجے کی موت
قرض کی زندگی جیتے عوام کا نوحہ لکھتے سمے ایک پُر تاثیر نظم کے چند مصرعے ذہن کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔۔۔
عجیب منظر تھا وہ۔ سرد ہوائیں سرپٹ دوڑ رہی تھیں۔ سڑکیں خالی تھیں، بس اسٹاپس پر ہجوم تھا۔ درجنوں تھکے ہارے انسان یاس کی تصویر بنے سڑک کنارے کھڑے تھے۔ آنکھوں میں موہوم سی امید؛ شاید کوئی سواری چلی آئے، اور وہ اپنی منزلوں کو روانہ ہوں۔اور پھر منظر میں کچھ کھٹ پٹ ہوئی۔ وہ ایک لبالب بھری بس تھی۔ کیا چھت کیا پائیدان، ہر سمت انسان ہی انسان۔ اکتائے ہوئے انسان۔ تِل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ گنجایش سے تین گنا افراد بس میں ٹُھنسے، اپنے ہونے پر ماتم کناں تھے۔ بس کی آمد سے ہجوم میں بجلی دوڑ گئی۔ ایک لمحہ بھی ضایع نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لوگ برق رفتاری سے آگے بڑھے۔ وہ ایک دوسرے کو دھکے دے رہے تھے۔ بڑبڑا رہے تھے۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے تھے۔ بس، جو پہلے ہی منہ تک بھری تھی، اس میں جگہ بنانے کے لیے وہ اپنا آپ کھو چکے تھے۔ بھول چکے تھے کہ وہ کون ہیں، کیا ہیں؟ ان کے منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکل رہی تھیں۔ حالت قابل رحم تھی۔بھری بس مزید بھر گئی۔ چند چڑھ گئے۔ بہت سے رہ گئے۔ اور دونوں ہی اذیت میں تھے۔ نہ یہاں راحت، نہ وہاں سکون۔ کھٹارا بس۔۔۔ روتی، سسکتی آگے بڑھ گئی۔ وہ خوف ناک حد تک انسانوں سے لدی تھی۔ بہ آسانی کسی حادثے کا شکار ہو سکتی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ خود ایک ''حادثہ'' تھی۔بس چلی گئی۔ اور پیچھے چھوڑ گئی، یاسیت، کرب!
وہ ایک انتظار گاہ تھی، جہاں درجنوں تھکے ہارے افراد تاحال یاس کی تصویر بنے کھڑے تھے۔پیشۂ صحافت نے کیا کچھ نہیں دِکھایا۔ بھوک کے سوداگروں سے سامنا ہوا۔ جسموں پر ''برائے فروخت'' لکھا دیکھا۔ انسان کو پل پل مرتے، چیتھڑوں میں بدلتے دیکھا۔ جھوٹ کے پائوں بھی دیکھ لیے۔ پہلے لاشیں دیکھیں، پھر لاشوں پر ہوتی سیاست کا تجربہ کیا۔ کیا کچھ نہیں دِکھایا اس پیشے نے۔ مگر وہ منظر۔۔۔ عجیب تھا۔ جب کبھی ذہن کے پردے پر گھومتا ہے، دل بھنچ سا جاتا ہے۔ آنکھیں جلنے لگتی ہیں۔یہ منظر انوکھا نہیں۔ اُجالوں کے شہر میں عام ہے۔ اسی منظر کی جادوگری ہے کہ ڈیڑھ کروڑ نفوس پر مشتمل شہر یک دم اداس اور کھنڈر معلوم ہونے لگتا ہے۔ ہر سو ویرانی چھا جاتی ہے۔ کبھی سیاسی اور مذہبی جماعتیں یوم سوگ کی کال دے کر اس تکلیف دہ صورت حال کا موجب بنتی ہیں۔ کبھی ٹرانسپورٹرز کے بے جا مطالبات اسے جنم دیتے ہیں۔
گیس کی بندش سے جُڑے المیوں پر بات کرنے کے لیے تو الگ دفتر درکار ہے۔ یہ منظر ''اجتماعی بے چارگی'' کا عکاس ہے۔ یہ اعلان کرتا ہے کہ ہم حقوق سے محروم ایک بے بس قوم ہیں، جو اپنی بدبختی پر گریے کا بھی حق نہیں رکھتی۔ گریے کے لیے بھی ہمیں اس گروہ کی اجازت درکار ہے، جسے کبھی تو ہم ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں، اور کبھی وہ منتخب کردہ افراد کو ہٹا کر خود برسراقتدا ر آ جاتا ہے۔یہ منظر ہم پر ہماری حیثیت منکشف کرتا ہے۔ ہمیں ہماری قیمت بتاتا ہے۔ ہم پر قہقہے لگاتا ہے۔ کہتا ہے؛ تم تیسرے درجے کے ارزاں لوگ ہو، جن کے حقوق ضبط کر لیے گئے، جن کی تقدیر میں تیسرے درجے کا جیون لکھ دیا گیا۔یہ بے چارگی کوئی آج کی بات نہیں۔ یہ تو گزشہ چھے عشروں سے ہمارے ساتھ چل رہی ہے کہ گزشتہ چھے عشروں سے ہم جھوٹے سپنوں میں جی رہے ہیں۔ ہمیں التباسی خواب دکھائے جا رہے ہیں۔ دھوکے میں رکھا جا رہا ہے۔ ہم سے وہ وعدے کیے گئے، جنھیں ساتھ لیے پوری ایک نسل خوشی خوشی زندہ درگور ہو گئی۔ زندہ نظمیں تخلیق کرنیوالے فیضؔ کے بقول:
ہم سادہ ہی ایسے تھے، کی یوں ہی پزیرائی
جس بار خزاں آئی، سمجھے کہ بہار آئی
کسی نے اس ملک کو اسلامی قلعہ بنانے کا دعویٰ کیا، کسی نے ایشین ٹائیگر بنانے کا وعدہ۔ کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کیا، کسی نے ''سب سے پہلے پاکستان'' کا شوشہ چھوڑا۔ کسی نے تبدیلی کو اپنا نشان بتایا، کسی نے نئے صوبوں کا نغمہ گایا۔ مگر عوام کو کیا ملا، ماسوائے ایک خستہ حال زندگی کے، جسے زندگی کہتے دل ساتھ نہیں دیتا۔ قلم لڑکھڑا جاتا ہے۔ ''پاکستان کھپے''؛ اچھا جناب، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔''قرض اتارو ملک سنوارو''؛ بالکل دُرست، یہ لیجیے، میرے بیٹے کی پاکٹ منی۔ کیا کہا، کمال اتاترک آپ کے آئیڈیل ہیں؛ قدم بڑھائیں، ہم تو ازل سے روشن خیال ہیں۔ اچھا جناب، تو آپ اسلامی نظام چاہتے ہیں؛ لیجیے، ہم کیمونزم سے لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ ہاں، ہم تیار ہیں، برسوں بیت جانے کے باوجود۔ بس اتنا بتا دیجیے کہ ہمیں مزید کتنے عشروں تک فاقے کرنے ہوں گے؟ کب تک بنیادی سہولیات کے بغیر زندگی گزارنی ہوگی؟ کب تک عدم تحفظ کا شکار رہنا پڑے گا؟ کب تک تعلیم سے محرومی کا کب سہنا ہو گا؟ اور کتنی ذلت ہمارے حصے میں ہے؟ یہ رات آخر کتنی طویل ہے؟ ہم، حقوق سے محروم عوام، وہ بدنصیب ہیں، جو ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ نہ تو ہم نے امریکا سے ڈالر لے کر سوویت یونین سے جنگ لڑی، نہ ہی افغان مہاجرین کو پناہ دی۔ نہ تو ہم نے انتہا پسند جنگ جُو تشکیل دیے، نہ ہی اُنھیں مستحکم کیا۔ سانحۂ نو گیارہ کے بعد بھی تمام فیصلے آپ نے کیے۔ ہندوستان سے جنگ کرنے اور تجارتی معاہدے کرنے کا اختیار بھی آپ ہی کے پاس۔ فرقہ ورانہ تنظیموں سے بھی آپ ہی معاملہ کرتے ہیں۔ دشمنیاں آپ کی، دوستیاں آپ کی۔ تو پھر سزا ہم کیوں بھگتیں؟
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا۔
قرض کی زندگی جیتے عوام کا نوحہ لکھتے سمے ایک پُر تاثیر نظم کے چند مصرعے ذہن کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔ استاد محترم، جناب احفاظ الرحمان نے اِس ریاست کے بدنصیب باسیوں کی، حقوق سے محرومی کی غیر مختتم بپتا کو ایک درد مند کے دل اور پُرقوت قلم کے ساتھ الفاظ کا ملبوس پہنایا۔ یوں تو اُن کے مجموعۂ کلام ''زندہ ہے زندگی'' میں شامل ہر نظم جبر اور استحصال کے شکار اِس معاشرے کی عکاس ہے، مگر ''تیسرا درجہ'' کا تذکرہ لازم ہے، جسے فہمیدہ ریاض نے یادگار نظم ٹھہرایا۔ نظم کا ایک بند پیش خدمت ہیں:
''تیسرے درجے کا شہری
تیسرے درجے میں کرتا ہے سفر
زندگی کے
تیسرے درجے میں کرتا ہے سفر
ٹوٹی پھوٹی چپلیں، میلا کچیلا پیرہن
تیسرے درجے کی روٹی، تیسرے درجے کا پیٹ
آنسو پیتے، کانٹے کھاتے زر درُو بچوں کا ساتھ
تیسرے درجے کا جیون، تیسرے درجے کی موت''
ہاں، تیسرے درجے کی موت۔ شاید یہی ہمارا مقدر ہے کہ بے بسی کا عفریت ہمیں چاٹ رہا ہے۔ عزت مآب حکمرانوں سے شکایت کرنا عبث ہے۔ وہ زیادہ تر بیرونی دوروں پر رہتے ہیں۔ کم ہی سامنا ہوتا ہے۔ ویسے ابھی وقت پڑا ہے۔ چار سال اور ہیں۔ شاید اُنھیں تیسرے درجے کا خیال آ جائے۔