ایک گزارش…
اسلام نے تو ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔۔۔
گزشتہ ہفتے جمعہ کی شام کراچی ایکسپریس نیوز کی گاڑی پر حملہ کر کے تین کارکنان کو شہید کر دیا گیا۔ اس حملے سے قبل بھی ایکسپریس کے دفاتر پر دو بار حملہ کیا جا چکا ہے۔ اس سانحے کی تمام تفصیلات اب تک آپ کے علم میں آ چکی ہیں۔ اس معاملے میں کچھ باتیں یقینا غور طلب ہیں، وہ یہ کہ یہ تمام ٹارگٹڈ کلنگ، بم دھماکے اور وارداتیں محض ملک میں اسلامی اسلام کے قیام کے لیے ہو رہی ہیں اور جو ان کوششوں کو سبوتاژ کرتا ہے یا اس کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے وہ اس کو اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے یہ سب کرتے ہیں وگرنہ انھیں کسی سے ذاتی پرخاش نہیں۔ ہم یہاں چند بنیادی نکات پر گفتگو کریں گے۔ دراصل ہمیں اپنے طرز فکر میں تبدیلی لانے کی بے حد ضرورت ہے مگر یہ کسی فرد واحد کا نہیں بلکہ ہر شخص کا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے۔ ضرورت صرف احساس ذمے داری پیدا کرنے کی ہے اور اس کے لیے نرم خوئی، حسن سلوک، پیار محبت اور رواداری کو اپنانا زیادہ مفید ہو سکتا ہے۔ بالخصوص نئی نسل کو متحرک کرنے کے لیے زبردستی کی روش اختیار کرنا منفی ردعمل کو جنم دے سکتا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلام آج سے 1435 برس قبل نافذ ہو چکا ہے۔ اب اگر کوئی اس پر عمل نہیں کر رہا (مکمل طور پر) تو یہ اس کا اور اس کے اللہ کا معاملہ ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید کی کئی سورتوں بالخصوص سورۃ انبیا اور سورۃ القصص میں اللہ رب العزت نے انبیا، رسولوں اور پیغمبروں علیہ السلام سے بار بار ارشاد فرمایا ہے کہ ''تمہارا کام احکامات کو اپنی قوم تک پہنچانا ہے اگر یہ تمہاری بات تسلیم نہیں کرتے تو تم پر اس کی کوئی ذمے داری نہیں، ہم نے ان کے لیے دنیا اور آخرت کا دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے'' (قرآن پاک میں کتنی ہی نافرمان قوموں کی تباہی اور عذاب کے واقعات موجود ہیں) اس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے نبیوں، رسولوں اور پیغمبروں کے ذریعے اپنا دین (احکامات) بنی نوع انسان تک پہنچانے کا فرض عاید کیا ہے ان پر زبردستی عملدرآمد کرانا ان کے فرائض میں شامل نہ تھا۔ اب آتے ہیں خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے تکمیل دین کی طرف۔
تاریخ اسلام کے سنہری ابواب سب کی نظر میں ہیں میں تو صرف بے حد مختصراً بیان کرنے کی جسارت کر رہی ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے حبیبؐ کو کسی بھی صورت (ظلم زبردستی اور جبراً) سے نفاذ اسلام کا حکم فرماتے تو حضور ختمی مرتبؐ کے لیے بے حد آسان تھا کہ آپؐ نے جب کوہ صفا پر کھڑے ہو کر اہل مکہ کو اپنی طرف رجوع کیا تو آپ کی آواز پر تمام افراد مکہ (مرد اور عورت) آپؐ کے سامنے جمع ہو گئے اس وقت آپ نے سب سے پہلے اپنے صادق ہونے کی گواہی پورے مجمع سے چاہی اس کے بعد آپؐ نے فرمایا کہ ''اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے عقب میں ایک لشکر تم پر حملہ کرنے کے لیے تیار کھڑا ہے تو کیا تم یقین کروگے؟'' سب نے بیک آواز کہا ''بے شک اے محمدؐ! آپ نے آج تک کبھی جھوٹ نہیں فرمایا''۔ اس گواہی کے بعد آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ''میں تمہیں آگاہ کرتا ہوں کہ اللہ واحد و لاشریک ہے اور میں اس کا رسول ہوں''۔ جو لوگ کچھ دیر قبل آپ کی صداقت کی گواہی دے رہے تھے وہ یہ بات ماننے کو تیار نہ ہوئے اور منہ پھیر کر واپس چل دیے بلکہ ابو لہب نے تو یہ تک کہا کہ (معاذ اللہ) اے محمدؐ! کیا صبح ہی صبح تم نے ہمیں یہ بتانے کے لیے بلایا تھا؟
اس صورت حال کا سامنا کرنے کے بجائے کتنا آسان تھا کہ حضورؐ کفار مکہ کے کسی سردار کو اپنے پاس طلب فرماتے جب وہ پہاڑ پر آتا تو آپؐ اس سے کلمہ طیبہ ادا کرنے پر اصرار فرماتے اور انکار کی صورت میں اپنی تلوار سے اس کا سر قلم کر دیتے۔ تمام اہل مکہ یہ منظر دیکھ رہے ہوتے۔ اس کے بعد دوسرے سردار کو طلب فرما کر یہی عمل دہراتے تو تیسرے کی نوبت ہی نہ آتی اور پورا مجمع باآواز بلند کہتا اے محمدؐ! ہم تمہارے خدا پر ایمان لائے۔ مگر آپؐ نے اس آسان راستے کو چھوڑ کر وہ راستہ اختیار کیا جس میں آپؐ کے جسد اطہر پر پتھروں کی بارش ہوئی، راہ میں کانٹے بچھائے گئے، شعب ابو طالب کی سختیاں برداشت کرنا پڑیں، بالآخر ہجرت اختیار کی مگر کسی کی گردن پر تلوار رکھ کر جبراً کلمہ نہ پڑھوایا۔
ہجرت کے بعد مدینے میں بھی چین سے نہ رہنے دیا گیا بار بار لشکر کشی کی گئی۔ پھر تاریخ اسلام صلح حدیبیہ کا منظر پیش کرتی ہے۔ تمام تر غلبہ، طاقت، جانثاروں اور ہتھیاروں کی سہولت کے باوجود آپؐ نے ایسی صلح کو ترجیح دی جس کی بظاہر تمام شرائط مسلمانوں کے خلاف تھیں بعض اصحاب نے اس پر حیرت اور افسوس کا اظہار بھی کیا اور کئی ایک جوش شجاعت میں بضد تھے کہ اسی وقت مکہ پر حملہ کر دیا جائے مگر حضورؐ نے صلح کو زیادہ بہتر سمجھا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس صلح کو فتح مبین قرار دیا۔ اس صلح کے کچھ ہی عرصے بعد حضور ختمی مرتبتؐ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مکہ میں داخل ہو رہے تھے مگر کس شان سے کہ آج کوئی آپؐ کے مقابلے پر آنے کی جرأت تک نہ کر سکا۔ آپ رحمۃ اللعالمین کا کرم ملاحظہ ہو کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا ''آج کے دن سب کو امان ہے جو شخص ابو سفیان (جو اس وقت تک ایمان نہ لائے تھے) کے گھر میں پناہ لے گا اس کو بھی امان جو خانہ کعبہ میں آ جائے اس کو بھی امان اور جو اپنے گھر کا دروازہ بند رکھے اس کو بھی امان ہے اور یوں آپؐ فاتحانہ انداز میں مکہ میں بلامداخلت داخل ہوئے نہ جنگ ہوئی نہ کوئی قتل ہوا اور نہ کوئی گھر نذر آتش کیا گیا۔
وہی اہل مکہ جو آپؐ اور آپؐ کے خاندان کی ایذا رسانی کے مرتکب ہوئے تھے حیرت اور انبساط کے عالم میں کہہ رہے تھے اے محمدؐ! تم واقعی رحیم ابن رحیم ہو۔ اس کے علاوہ بھی تاریخ اسلام میں کتنے ہی واقعات موجود ہیں کہ لوگ آپ کے حسن سلوک اور رحم سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ ان سب واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ کی رواداری اور کردار کے باعث لوگ جوق در جوق اسلام اختیار کرتے چلے گئے۔۔۔۔اسلحے کے زور پر بات منوائی تو جا سکتی ہے مگر اس کا اثر تادیر قائم نہیں رہ سکتا حالات بدلتے ہی دل بدل جاتے ہیں البتہ کردار کی طاقت سے جو بات منوائی جاتی ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ دلوں میں جگہ پاتی ہے اس کا اثر چند روزہ نہیں ہوتا بلکہ جان و مال، والدین، اولاد، قبیلہ اور اقتدار تک کی قربانی دے کر بھی اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
ان تاریخی حقائق کی روشنی میں ہماری یہ گزارش ہے کہ اگر نبی کریمؐ کی پیروی کرتے ہوئے اپنے رویے کردار اور انکساری سے اسلام کی ترویج و اشاعت کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ سب ساتھ نہ دیں بلکہ میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان کے عوام ان قوتوں کے ساتھ کھڑے ہونے میں فخر محسوس کریں گے آپ کو اپنی طاقت اور اسلحے کا بلاوجہ استعمال نہ کرنا پڑے گا۔ جہاں تک مخالفین کو راستے سے ہٹانے کی بات ہے تو اس کی مثالیں بھی حیات طیبہ اور تاریخ اسلام کے صفحات پر بکھری ہوئی ہیں (ممکن ہے کہ تاریخ اسلام پر آپ کی نظر ہم سے زیادہ ہو)۔ مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد وہاں موجود یہودی قبائل سے معاہدہ امن حضور اکرمؐ کی سیاسی بصیرت کا بین ثبوت ہے۔ یہودیوں کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی پر بھی ان کو قتل کیا گیا نہ ان کے گھر نذرآتش کیے گئے بلکہ ان کو صرف مدینہ بدر کردیا گیا۔ فتح مکہ کے بعد آپؐ اور اسلامی لشکر اس پوزیشن میں تھا کہ ان کے تمام مظالم کا بدلہ لے سکیں مگر سب کو معاف فرما کر جو نتائج حاصل ہوئے وہ بھی انتقام لینے سے حاصل نہ ہوتے یہ حقیقت ہے کہ:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
غرض یہ کہ اپنے عمل، رویے اور مثبت کردار سے دشمن کو دوست اور مخالف کو حمایتی بنایا جا سکتا ہے۔ اسلام نے تو ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ بسم اللہ! حضورؐ کا اتباع کرتے ہوئے اسلام کی ترویج کا آغاز کیجیے ہم سب شانہ بہ شانہ اس کار خیر میں شامل ہوں گے۔