خواب دیکھنا کافی نہیں

بڑے خواب دیکھنا اور ان کی تکمیل کے لیے کوشاں ہونے میں ہی زندگی کا مزہ ہے۔


Abid Mehmood Azam 1 July 16, 2021

انسانی زندگی آرزوئوں اور خواہشات کا مجموعہ ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک چاہت و خواہش انسان کی زندگی کا حصہ ہے اور ہر روز اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ انسان کا خواہش کے ساتھ تعلق تب سے ہے، جب اس نے دنیا میں قدم رکھا اور یہ سلسلہ اس کے دنیا سے کوچ کر جانے تک چلتا رہتا ہے۔

خواہشیں زندگی کے ہر دور میں ہمارے دلوں میں جنم لیتی اور پھلتی پھولتی ہیں۔ خواہش اور خواب زندگی کے بے رنگ خاکے میں رنگوں کی دھنک اور جینے کی امنگ بھرتے ہیں۔ بڑے خواب دیکھنا اور ان کی تکمیل کے لیے کوشاں ہونے میں ہی زندگی کا مزہ ہے، اس کے بغیر زندگی بدمزہ اور بالکل پھیکی سی ہوتی ہے۔

زندگی میں بڑے خواب نہ دیکھنا نفسیاتی خود کشی کے مترادف ہے۔ بڑے خواب دیکھنے کے لیے کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ سے گریز کریں اور ایسے کسی شخص کو اپنی زندگی میں مداخلت کی اجازت نہ دیں جو آپ کو خواب دیکھنے سے باز رہنے کا مشورہ دے۔ جو لوگ زندگی میں بڑے خواب نہیں دیکھتے، وہ لوگ بڑی منازل بھی طے نہیں کرتے۔ بڑے مقاصد حاصل کرنے کے لیے بڑے خواب دیکھنا ضروری ہے۔

اپنی اچھی خواہشوں کے حصول اور اپنے خوابوں کی تکمیل میں کامیابی حاصل کرنا ہر انسان کے لیے ضروری ہے، لیکن صرف خواب دیکھنا اور خواہشات پال لینا کافی نہیں ہے ،بلکہ ان خواہشات کے حصول اور خوابوں کی تکمیل کے لیے اپنے سامنے موجود رکاوٹوں کو بڑے حوصلے، استقامت اور ہمت سے پھلانگنا پڑتا ہے۔ اس پرعزم سفر کے لیے مرحلہ وار کوششوں کا ایک سلسلہ طے کرکے ہی انسان کامیابی کی منزل پر پہنچ پاتا ہے ، جو شخص کوشش کرنے سے گھبراتا ہے، وہ کامیابی کی منزل پر بھی نہیں پہنچ سکتا۔

کامیابی کسی لگی بندھی چیز کا نام نہیں ہے اور نہ ہی ایسا ہے کہ کامیابی زندگی میں صرف ایک بار ملتی ہے، بلکہ کامیابی کے مواقع زندگی میں بار بار اور قدم قدم پر ملتے ہیں۔ ہر شخص کا نظریہ کامیابی کے حوالے سے مختلف ہے۔ کہیں دولت کا حصول کامیابی ہے، تو کہیں شہرت اور عزت حاصل کرنا کامیابی ہے۔ کہیں اچھی ملازمت اور بڑے عہدے کا حصول کامیابی ہے تو کہیں اقتدار حاصل کرلینا کامیابی کہلاتا ہے۔ طالب علم کے لیے بڑی ڈگری حاصل کرنا کامیابی ہے تو سائنسدان کے لیے کوئی چیز ایجاد کرنا کامیابی ہے۔

کسی امیر شخص کے لیے بڑے بڑے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اور ہزاروں لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرنا کامیابی ہے تو کسی غریب کے لیے اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا ، قرض کی ادائیگی کردینا اور اپنے بچوں کی شادی کے فرض کو پورا کر لینا کامیابی ہے۔ ہر شخص کی سوچ اور حالات مختلف ہیں، اس لیے ہر شخص کے لیے کامیابی کا پیمانہ بھی مختلف ہے۔ کامیابی دراصل خواہشات کی لامحدود سیڑھی کا نام ہے۔ ایک قدم ایک خواہش کی غمازی کرتا ہے۔ ایک خواہش دوسری خواہش سے متصل ہے۔

ایک خواہش کی تکمیل کامیابی ہی ہے، مگر اس کے بعد اگلی خواہش کے حصول کے لیے قدم بے تاب ہو جاتا ہے اور پھر اس کے حصول تک بے تاب رہتا ہے۔ اگلی خواہش کا حصول پھر ایک کامیابی ہے اور اب تیسری خواہش مدنظر ہوتی ہے اور انسان کا پورا وجود کوشاں ہو جاتا ہے کہ قدم اٹھے اور اس خواہش کے حصول کی کامیابی سے ہمکنار ہو۔اگر کسی ایک مقصد یا منزل میں کامیابی نہیں ملتی ہے تو نا اْمید نہیں ہوناچاہیے ، اگر ایک منزل چھوٹتی ہے تو کوئی بات نہیں، انسان ہمت کرے تو اس سے اگلی منزل پر کامیابی اس کا انتظار کررہی ہے۔

برطانوی رہنما ونسٹن چرچل کا قول ہے، '' کامیابی حتمی نہیں ہے ، اسی طرح ناکامی بھی ہمیشہ نہیں ہوتی ، یوں سمجھ لیا جائے کہ کسی بھی شخص کے لیے جرات و ہمت کے ساتھ آگے بڑھنے کا نام کامیابی ہے'' دراصل حوصلہ قائم رہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ کامیابی کے لیے ذہنی اور فکری صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ غیر متزلزل یقین، مصمم ارادہ خود احتسابی اور آگے بڑھنے کی صلاحیت و خواہش بہت ضروری ہوتی ہے۔

کامیاب لوگ اپنا احتساب کرتے ہیں اور ناکامی کو کامیابی کی کنجی بناتے ہیں۔ ناکامی بہت بری اور تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے، لیکن اگر اس سے سیکھا جائے تو یہی ناکامی انسان کو کامیابی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔ ناکامی وہ کچھ سکھا سکتی ہے، جو ہم زندگی میں موجود دوسری چیزوں سے کبھی نہیں سیکھ پاتے۔ لہٰذا ناکامیوں سے گھبرانے کے بجائے ان سے سیکھنا شروع کریں۔ واٹس ایپ کے موجدین '' جین کوم '' اور'' برائن ایکٹن '' نے بہت سے انٹرویوز دیے، لیکن حصول ملازمت میں ناکام رہے ، انھوں نے فیس بک میں ملازمت کے لیے درخواست بھیجی جس کو قبول نہیں کیا گیا۔ انھوں نے حوصلہ اور ہمت نہ ہارتے ہوئے

''واٹس ایپ '' ایجاد کیا جو آج ساری دنیا کے لیے کارآمد ہے ۔

جب ٹامس ایڈیسن نے بلب ایجاد کیا تو اس نے کئی بار ناکامی کا سامنا کیا، لیکن بالآخر کامیاب ہوگیا۔ فرینکلن ڈی روزویلٹ 39برس کی عمر میں پولیو سے مفلوج ہوگیا تھا، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری، اپنا حوصلہ جوان رکھا اور پھر وہ چار مرتبہ امریکا کا صدر بنا۔

بہت سے لوگ دوسروں کی کامیابی اور ترقی پر حسد کی آگ میں جلنے کڑھنے میں ہی زندگی گزار دیتے ہیں، مگر بہت سے افراد جاننا چاہتے ہیں کہ اپنی خواہشات اور خوابوں کے مطابق کامیاب زندگی کے حصول کو کیسے یقینی بنائیں۔کامیابی یہی لوگ حاصل کرتے ہیں۔کامیاب لوگ مثبت سوچ کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ آس پاس کے افراد میں خامیاں تلاش کرنے ، ان کی کامیابیوں پر جلنے کڑھنے اور چیزوں کے منفی پہلوئوں پر توجہ دینے کے بجائے تعمیری سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔

ایسے افراد اپنے اہداف متعین کرتے ہیں اور پھر ان کے حصول میں دل و جان سے کوشاں ہوجاتے ہیں۔ وہ مشکلات سے گھبرا کر ہمت نہیں ہارتے ، بلکہ ثابت قدمی سے اپنے اہداف کی جانب بڑھتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے اہداف لوگوں کی باتوں سے گھبرا کر اور ان خواہشات کے مطابق متعین نہیں کرتے، بلکہ اپنی سوچ اور اپنے شوق کو سامنے رکھ کر متعین کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ لوگ کیا کہیں گے، بلکہ وہ مزید اور بہتر کی طلب اور تلاش میں رہتے ہیں۔

اپنی مرضی کے فیصلے لے کر انھیں دوسروں پر زبردستی مسلط نہیں کرتے ، بلکہ صلاح مشورے سے کام لیتے ہیں۔ دوسروں کے لیے بھی معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ دوسروں کو کامیاب دیکھ کر بھی انھیں خوشی ملتی ہے۔ وہ ہمیشہ عاجزی انکساری سے پیش آتے ہیں۔ غرور اور گھمنڈ سے کام نہیں لیتے ۔ ہر کام وقت پر کرتے ہیں اور اپنے قیمتی وقت کو لایعنی اور غیر ضروری کاموں میں ضایع نہیں کرتے۔ وہ کبھی ہمت نہیں ہارتے۔

بہت سے لوگ جب کامیابی کے قریب پہنچتے ہیں تو ہمت ہار جاتے ہیں اور اپنا کام ادھورا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے کبھی ہمت نہ ہاریں اور اپنے مقصد کے حصول میں مسلسل لگے رہیں۔ اس بات پر پورا یقین رکھیں کہ کامیابی ضرور حاصل ہوگی، اگر سوچ مثبت ہوگی تو ناکامی کا خوف نہیں ہوگا، اگر ناکامی کا سامنا ہوجائے تو بھی ہمت نہیں ہاریں گے اور جب تک اپنے مقصد میں کامیابی نہیں مل جاتی ، تب تک کوشش کرتے رہیںگے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر بارکامیابی ملے، لیکن جدوجہد تو بہرحال ہر بارکرنی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں