شہری مسائل اور اداروں کی کارکردگی
شہرمیں کوئی ایساگوشہ نہیں ہے جہاں موٹرسائیکلوں اور رکشوں کارش اوربے ہنگم شورسے کسی جلسہ کی ریلی کے منظرکا گمان ہوتاہے۔
گزشتہ دنوں ایک مقامی اخبار میں ٹریفک پولیس کے اعلیٰ حکام کی جانب سے بیان جاری ہوا کہ ''بد ترین ٹریفک جام ہونے کی سب سے بڑی وجہ کراچی شہر کی اہم شاہراہوں اور سڑکوں کا ٹو ٹ پھوٹ کا شکار ہونا ہے''۔
ہم اس بات سے اکتفا نہیں کریں گے کیونکہ ہم اپنے پچھلے کالموں میں اس امر کی نشاندہی واضح طور پر کرتے چلے آ ئے ہیں کہ کراچی کی ٹریفک کے پس منظر کے حوالے سے عوام کی قسمت کا فیصلہ شہریوں کی بنیادی ضروریات زندگی کی بلا شرکت غیرے انسانی زندگی کی بنیادی اور اہم ضروریات بجلی، پانی ، گیس، نکاسی آب کے بلا امتیاز فراہمی کے اداروں کی صوابدید پر ہے۔
سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ ایسے ہی اداروں کی طرف سے کی جاتی ہے وہ کیوں؟ وہ اس لیے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے نکاسی آب کا سارا نظام زیر زمین ہی تو بچھایا گیا ہے۔ اسی طرح شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی کا سلسلہ بھی زیر زمین دھاتی یا سیمنٹ اور سریے سے تیار کردہ پائیپس کے ذریعے قائم ہے۔
وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ اور تیزی سے آبادی میں اضافے کے سبب ان بچھائی گئی پائپ لائنوں کی میعاد ختم ہونے کی وجہ سے لائنیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں جو عوام تک پانی کی فراہمی میں سب بڑی رکاوٹ کا سبب بن جاتی ہیں اور کچھ یہی حال زیر زمین سیوریج نظام کا ہے جو وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ناقابل استعمال اور فرسودہ حال ہو چکی ہیں۔
یہ لائنیں کسی میدان یا باغوں میں سے نہیں گزرتی بلکہ یہ سڑکوں ، بڑی بڑی شاہراہوں کے دائیں یا بائیں جانب یا کہیں کہیں سڑک کے عین وسط میں بچھائی جاتی ہیں اور ان کی مناسب نگہداشت کے لیے کچھ کچھ فاصلوں پر مین ہولز بنائے جاتے ہیں جن کو عام زبان میں سلیمانی گڑ یا آبادی کم کرنے کا ایک جبری اور آزمودہ ذریعہ جس میں ذی شعور افراد گم ہو کر حشرات الارض کا تر نوالہ بن جاتے ہیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان لائنوں سے پانی رس رس کر سڑک پر جما ہوتا رہتا ہے اور یوں پانی کے کھڑا رہنے کی وجہ سے اچھی خاصی بنی ہوئی سڑکیں تباہ ہوتی رہتی ہیں۔ لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان میں پروجیکٹ تو بنا دیے جاتے ہیں ان کی دیکھ بھال نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے چیزیں جلد خراب ہونے لگتی ہیں۔ ''کم خرچ بالا نشین'' کے تحت ان چیزوں کی بروقت مرمت و نگہداشت ہوجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان سڑکوں پر پانی کھڑا رہے، اکثر ان سڑکوں کے عین وسط میں بنے ہوئے مین ہولز (گٹر) کے ڈھکن ہی غائب ہوتے ہیں۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ڈھکن شہر میں نشہ کرنے والے افراد چوری کرتے ہیں اور ان کو آگے فروخت کر دیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کون سے عناصر ہیں جو ان لوگوں سے یہ ڈھکن خریدتے ہیں۔ تحقیقات تو ہونی چاہیے۔ ہماری رائے ہے کہ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ان افراد کو بجائے کھلے عام سڑکوں پر کھانا کھلانے کے اس سرمائے سے معقول علاج و معالجہ کے لیے اسپتال بنوا دیں ، تاکہ وہ بھی صحت مند ہوکر عام انسانوں کی طرح معزز شہری کی طرح زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں۔
بد انتظامی کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ سڑکوں پرکھدائی کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ یا دیگر ادارے کریں اور ان سڑکوں کی مرمت یا بھرائی کراچی میٹرو پولیٹن کرے ، آخر کیوں ؟ یہ ادارے سڑکوں کو کھودنے سے پہلے کراچی میٹرو پولیٹن سے اجازت کیوں نہیں طلب کرتے اورکام مکمل ہونے تک ان سڑکوں کی از سرنو بھرائی یا پیوندکاری کے کاموں میں آنیوالے اخراجات کی ذمے داری قبول کیوں نہیں کرتے؟ کراچی میٹرو پولیٹن کوئی قارون کا خزانہ ہے؟
دوسری جانب ان سڑکوں اور شاہراہوں پر شب و روز ہر قسم کی تجارتی اور پرائیویٹ گاڑیوں کا گزر رہتا ہے۔ سڑکوں پر رواں دواں ہر قسم کی گاڑیاں بھی تو ایک لحاظ سے کراچی میٹرو پولیٹن کی ملکیت ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان گاڑیوں کی ٹیکس کی مد میں ہونے والی آمدنی صوبائی حکومت کیوں وصول کرتی ہے اس کی وصولی کا حق صرف اور صرف کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کو ہونا چاہیے۔
صوبائی حکومت کے زیر انتظام سفید وردی میں ملبوس ٹریفک پولیس کراچی میٹرو پولیٹن کی ملکیتی سڑکوں پر ڈیوٹی پر معمور ہوکر رشوت کی مد میں اربوں روپے لوگوں سے بٹورتی ہے جس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ کمائے کوئی کھائے کوئی۔
دوسری قابل غور بات یہ ہے حکومت سندھ کے زیر انتظام ان اداروں کے درمیان کو آرڈینیشن کا فقدان ہے، سڑکوں پر کھدائی سے قبل بلدیاتی اداروں سے اجازت نہیں لی جاتی کیونکہ ان ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی دوبارہ مرمت و تعمیر ان ہی بلدیاتی اداروں کی ذمے داری بن جاتا ہے۔ ان سڑکوں کی دوبارہ مرمت کے سلسلہ میں بلدیاتی اداروں کے ذرایع کا شکوہ ہے کہ ترقیاتی کاموں کی تکمیل کجا ادارے کو اپنے ملازمین کو ماہانہ تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے فنڈز کی قلت کا سامنا ہے۔ یوں یہ سڑکیں فنڈز کی قلت کی وجہ سے ایک طویل عرصے تک مخدوش حالت میں ہی رہتی ہیں۔
اس ضمن میں ہماری رائے ہے کہ موٹر وہیکل ٹیکس سندھ حکومت کے بجائے براہ راست بلدیاتی اداروں کو ملنا چاہیے تاکہ زیر التوا ترقیاتی کاموں کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مدد مل سکے۔ یہ تمام سڑکیں کے ایم سی، ڈی ایم سی اور دیگر متعلقہ اتھارٹی کی ملکیت ہیں۔
شہری مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ٹریفک کے بہائو کو کم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا جاتا رہا ہے جس کا واحد اور جامع طریقہ صرف اور صرف یہ ہے کہ شہر میں آمدورفت کی سہولیات کو آسان بنانے اور ٹرانسپورٹیشن نظام کو فعال کرنے کے لیے شہر میں آرام دہ، مقررہ وقت کے شیڈول کیمطابق سرکاری اور نجی سطح پر بسوں کا جال بچھانے کی اشد ضرورت ہے۔
شہر میں کوئی ایسا گوشہ نہیں ہے جہاں موٹر سائیکلوں اور رکشوں کا رش اور بے ہنگم شور سے کسی جلسہ کی ریلی کے منظر کا گمان ہوتا ہے۔ حالیہ شماریاتی تجزیے کے مطابق موٹر سائیکلوں اور رکشوں کے حادثات کا تناسب شہر میں سب سے زیادہ ہے۔ سندھ حکومت کا خود مختار اور تعمیراتی ادارہ ''سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی '' جس کی سرپرستی میںبلندوبالا عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری وساری ہے۔
بلڈرزکے تعمیراتی منصوبہ کی دلکش انداز میں محدود رقبوں کے پلاٹس پر بلند و بالا رہائشی اورکمرشل پلازے پارکنگ کی سہولیات کے بغیر بنائے جا رہے ہیں۔ رہائشی علاقہ جات کمرشل و تجارتی علاقوں میں بہت تیزی سے ضم ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ شہری آبادی میں روز بروز تیزی سے اضافے کے با وجود شہر میں شہری سہولتوں کی فراہمی کی مد میں حکومت کے پالیسی سازوں کی جانب سے مستقبل قریب کے لیے کوئی منصوبہ بندی یا جامع پالیسی نظر نہیں آتی۔