نئی تفتیش کی اجازت ایک پنڈورا بکس کھولے گی
پاکستان میں پولیس کلچر تب تک ٹھیک نہیں ہو سکتا جب تک تفتیش کا عمل ٹھیک نہیں ہوگا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد شان گل نے اپنے ایک حکم میں قرار دیا ہے کہ کسی بھی مقدمہ کا چالان پیش ہونے کے بعد بھی پولیس نئی تفتیش کا حکم دے سکتی ہے۔
عدالت کے مطابق اگر نئے شواہد سامنے آجائیں یا یہ سامنے آجائے کہ گزشتہ تفتیش میں کوئی حقائق نظر انداز ہو گئے ہیں تو نئی تفتیش کا کسی بھی وقت حکم دیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں عدالت میں چالان پیش ہو جانا یا ملزم پر فرد جرم عائد ہوجانا کوئی ایسے عذر نہیں ہیں کہ جن کی بنیاد پر نئی تفتیش کو روکا جا سکے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر انصاف کے بنیاد ی تقاضوں کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ حکم درست لگتا ہے لیکن اگر پاکستان کے معروضی حالات کو سامنے رکھاجائے تو پھر نئی تفتیش کا ایک نیا پنڈوار بکس کھل جائے گا۔ یہ درست ہے کہ جس مقدمہ میں یہ حکم دیا گیا ہے، اس کے حالات نئی تفتیش کے حق میں ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں پولیس کلچر میں تفتیش پر تفتیش کا کھیل پہلے ہی غلط استعمال ہو رہا ہے۔ مرضی کی تفتیش کے لیے تفتیش کی تبدیلی ایک کھیل بن چکا ہے۔
پولیس افسران سفارش پر سرنگوں ہوتے ہوئے طاقت ور کو راضی کرنے کے لیے آسانی سے تفتیش تبدیل کر دیتے ہیں۔ اس طرح کی مرضی کے افسر تک تفتیش پہنچانے کے لیے تفتیش کی تبدیلی کے قانون کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ایسے میں اب ٹرائل کے دوران بھی نئی تفتیش کا راستہ کھل گیا تو انصاف کے حصول کو مزید مشکل کر دے گا۔
پاکستان میں جھوٹے پرچے درج کرانا ایک معمول بن چکا ہے۔ لوگ آسانی سے اپنے مخالفین کے خلاف جھوٹے پرچے درج کرادیتے ہیں۔ پھر اس جھوٹے پرچے کے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے تفتیش پر تفتیش کا کھیل کھیلاجاتا ہے۔ اس طرح ایک جھوٹے پرچے کو لمبا چلایا جاتا ہے۔
کھیل عدالت میں جا کر ختم ہوتا ہے جہاں مدعی کو گواہی دینی ہوتی ہے اور پھر وہاں سے مدعی بھاگ جاتا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ نناوے فیصد مقدمات میں مدعی گواہی دینے کے لیے نہیں آتا ۔ کیونکہ مدعی کا بنیادی مقصد صرف اور صرف اپنے مخالف کوپولیس کے ذریعے ذلیل کرانا ہوتا ہے، سزا دلانا نہیں۔ عدالت سے انصاف تو تب مقصد ہو جب مدعی انصاف کا طا لب ہو۔
اسی لیے مدعی کی پہلی خواہش ہوتی ہے کہ تفتیش کا عمل شروع ہی ملزم کی گرفتاری سے کیا جائے۔ اگر تفتیشی افسر ملزم کو گرفتار نہیں کر رہا ہے تو مدعی کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ تفتیش تبدیل کرائی جائے۔ تفتیش کی تبدیلی کے لیے دلیل بھی یہی دی جاتی ہے کہ تفتیشی افسر ملزمان کے ساتھ مل گیا ہے۔ اس نے ابھی تک ملزم کو گرفتار ہی نہیں کیا ہے۔ ملزم کی عد م گرفتاری بھی تفتیش کی تبدیلی کی مضبوط بنیاد سمجھی جاتی ہے۔ اسی لیے جونہی ملزم گرفتار ہو جائے مدعی سمجھتا ہے کہ اسے انصاف مل گیا ہے۔
اس کے بعد ضمانت کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے اور جب ملزم کی ضمانت ہو جائے تو مدعی کی نظر میں مقدمہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس کی مقدمہ میں دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ وہ کہتا نظر آتا ہے کہ اس ملک میں انصاف ہی نہیں ہے، دیکھیں ملزم کی ضمانت ہو گئی۔ اسے کوئی سمجھا نہیں سکتا کہ گرفتاری ہی صرف انا کی تسکین کی وجہ سے ہوئی ورنہ تفتیش کے درمیان گرفتاری کا کوئی جواز نہیں ہے۔ جب ملزم تفتیش میں تعاون کر رہا ہے تو گرفتاری کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔
میں سمجھتا ہوں تفتیش پر تفتیش کا پنڈورا بکس ہمارے پولیس کلچر میں ناجائز استعمال ہوگا۔ مشاہدے کی بات ہے، جب پولیس کسی بھی پرچے کو جھوٹا قرار دے کر اخراج کے لیے عدالت کو بھیجتی ہے تو اس کو روکنے کے لیے بھی نئی تفتیش کا ہی سہارا لیا جاتا ہے۔ اخراج کو روکنے کے لیے عدالت کے سامنے نئی تفتیش کے احکامات لائے جاتے ہیں اور اخراج پر کارروائی روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عدالت نے اب چالان عدالت میں پیش ہونے اور ملزم پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد بھی نئی تفتیش کرنے کی فیصلہ دیا ہے۔ اس طرح عدالت میں ٹرائل روکنے کا ایک نیا راستہ نکل آئے گا، پہلے ہی عدالت میں ملزم کی ہر پیشی پر حاضری لازمی ہے جب کہ مدعی کا پیش ہونا لازمی نہیں ہے۔
لوگ ٹرائل بھی لمبا اسی لیے چلاتے ہیں کہ چلیں ملزم کو ہر پیشی پر عدالت میں پیش ہونے کی زحمت سے تو گزرنا پڑتا ہے۔ وہ ہر پیشی پر اپنے کام سے چھٹی کر کے آتا ہے۔ اس طرح اس کا روزگار بھی خراب ہوتا ہے اور پیسہ بھی خرچ ہوتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ٹرائل پہلے ہی لمبا کرنے کے ہزاروں طریقے موجود ہیں، ان میں اب نئی تفتیش کا ایک نئے طریقہ کا اضافہ ہو جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ جب لوگ نامزد ایف آئی آر درج کراتے ہیں تو استغاثہ کیوں نہیں دائر کرتے۔ اگر کسی مدعی کے پاس ملزم کے خلاف ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ جن کی بنیاد پر وہ اسے ایف آئی آر میں نامزد کرنا چاہتا ہے تواسے ان ثبوتوں کی بنیاد پر استغاثہ دائر کرناچاہیے۔ اسی طرح اگر مدعی کے پاس کوئی ایسے ثبوت آگئے ہیں جس کی بنیاد پر وہ نئی تفتیش چاہتا ہے تو اسے وہ نئے ثبوت بھی عدالت کے سامنے اپنی گواہی میں لانا چاہیے۔ نئی تفتیش ملزم کو پریشان کرنے کا ایک نیا طریقہ ہوگا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے معروضی حالات اورپولیس کلچر کو سامنے رکھتے ہوئے تفتیشی افسر کو بھی محاسبے میں لایا جائے۔
سوال یہ بھی ہے کہ نئی تفتیش کب ہونی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں جب پہلی تفتیش میں کوئی واضح نقص نظر آجائے تب ہی نئی تفتیش ہو سکتی ہے اور اگر نئی تفتیش کے نتائج پہلی تفتیش سے مختلف آجائیں توتفتیشی افسر کی نوکری ختم ہونی چاہیے، ناقص تفتیش کی سزا نوکری سے برخواستگی سے کم نہیں ہو نی چاہیے۔ اسی طرح اگر عدالت میں پولیس کا چالان غلط ثابت ہو جائے، ٹرائل میں تفتیش غلط ثابت ہو جائے تو تفتیشی افسر کی نوکری ختم ہونی چاہیے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ناقص تفتیش کی کوئی سزا ہی نہیں ہے۔
روزانہ پولیس کے گناہگار لکھے ہوئے ملزمان عدالت سے بری ہوتے ہیں لیکن اس تفتیشی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ صرف تبدیلی تفتیش کی اجازت کافی نہیں۔ اگر پہلی تفتیش ناقص ہوئی ہے تواس پربھی کارروائی ہونی چاہیے۔ ناقص تفتیش کے بعد تفتیشی کا نوکری پر رہنا ممکن نہیں ہونا چاہیے۔ یہ جرم ناقابل معافی ہونا چاہیے لیکن ابھی اس کی کوئی سزا نہیں۔
یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ قانون میں ناقص تفتیش پر تفتیشی افسر کے خلاف مقدمہ درج ہوسکتا ہے، اس کی دفعات موجود ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دودھ کی رکھوالی بلی کی مصداق پولیس والے کی تفتیش اور پراسیکیوشن پولیس کو ہی دینے سے یہ سارا عمل ناقابل عمل ہو گیا ہے۔ آج تک کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی ہے۔ یہ عمل ناکام ہو گیا ہے۔
اس لیے اب یہ کام عدالت کو کرنا چاہیے۔جب ٹرائل میں مقدمہ کا فیصلہ ہوتا ہے، وہاں غلط تفتیش کا بھی فیصلہ ہونا چاہیے۔ جھوٹی گواہی کا بھی فیصلہ ہونا چاہیے۔ جھوٹی ایف آئی آر کا بھی فیصلہ ہونا چاہیے۔ ابھی ان تمام کے لیے الگ الگ مقدمات دائر کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ لوگ پہلے ہی مقدمہ سے اتنا ڈر اور تھک جاتے ہیں کہ نیا مقدمہ کرنے کا حوصلہ اور ہمت ہی نہیں ہوتی۔
پاکستان میں پولیس کلچر تب تک ٹھیک نہیں ہو سکتا جب تک تفتیش کا عمل ٹھیک نہیں ہوگا۔ بار بار تفتیش بھی پولیس کلچر کو ٹھیک کرنے کے بجائے اسے مزید آلودہ ہی کرے گا۔ ایسے راستے تلاش کرنے چاہیے کہ ایک ہی تفتیش ٹھیک ہو سکے۔ بار بار کی تفتیش مرضی کے نتائج کی خواہش کی تکمیل کے راستے کھولتی ہے۔ یہ کوئی درست عمل نہیں ہے۔ اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔