پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اچانک مزید اضافہ

حکومت نے عوام پر 15 جولائی کی شب ایسا پٹرول بم گرایا ہے کہ یکایک پٹرول 5.40 روپے فی لیٹر مہنگا کردیا



اوپیک نے 1973 کے اواخر میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا تھا جس کے باعث ترقی پذیر ملکوں میں یہ شعور بیدار ہوا کہ اپنی تیل کی ضروریات کی طرف نئے سرے سے توجہ دی جائے۔ جب تک تیل سستا رہا ان کی اقتصادی ترقی کی رفتار سست رہی۔ لہٰذا انھوں نے تیل کی آیندہ ضروریات پر دھیان نہ دیا تھا۔

تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ترقی پذیر ملکوں کے درمیان ایک ہلچل سی پیدا ہوئی اور انھوں نے باہمی اقتصادی تعاون کی طرف توجہ دینا شروع کردی۔ اگرچہ امیر صنعتی ممالک اور غریب ترقی پذیر ممالک کے درمیان فرق پہلے ہی تھا، لیکن اب بعض معاملات میں کھل کر اختلافات سامنے آنے لگے۔

تیل کی قیمتوں میں اچانک اضافے کے سبب غریب ملکوں کا بجٹ شدید متاثر ہوا۔ ان کو سخت مالی امداد کی ضرورت تھی تاکہ ترقی کا پہیہ رواں دواں رکھا جاسکے۔ 70کی دہائی کے بعد بہت سے ترقی پذیر ممالک کو اس بات کا احساس ہوا کہ ان کی تجارت و صنعت کو زبردست ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ کئی ممالک ایسے تھے جو ستر کی دہائی سے قبل ترقی کی منزلیں طے کر رہے تھے، ان میں پاکستان نمایاں تھا۔ جس نے اپنی آزادی کے چند سال بعد ہی زبردست قسم کے منصوبے طے کیے تھے۔ تعمیرات صنعتوں کے قیام تجارت سے متعلق زبردست منصوبہ بندی کی گئی۔ کرپشن برائے نام تھی۔

روایتی سرخ فیتہ ابھی بیدار نہیں ہوا تھا۔ حکومتی پالیسی ایسی تھی کہ ملکی صنعتکاروں کو فوری سہولیات مہیا کردی جائیں تاکہ وہ کارخانے، ملیں، فیکٹریاں وغیرہ لگا سکیں۔ چنانچہ 1973 کے اواخر میں تیل کی قیمت میں اضافے اور اس سے قبل کی دہائی میں بھی کئی ملکوں نے پاکستان کو رول ماڈل کے طور پر لیا۔ اب ان میں سے کئی ممالک ایسے ہیں جو اس وقت دنیا کے امیر صنعتی ملکوں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

1970کی دہائی کے وسط سے قبل ہی پاکستان کی صنعتی ترقی انتہائی ماند ہو چکی تھی۔ ساتھ ساتھ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافے نے پاکستان کی درآمدات کے بل کو بڑھانا شروع کردیا تھا جو ہنوز جاری ہے۔ 1973 میں تیل کی عالمی قیمت میں اضافے کے بعد امیر صنعتی ممالک نے اپنی مصنوعات مشینریوں، وہیکلز، ادویات اور بہت سی اشیا و مصنوعات جس کے طلب گار ترقی پذیر ممالک تھے ان کی قیمتوں میں نمایاں اضافے سے غریب ملک شدید متاثر ہوتے رہے ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔

1970 سے اب تک یعنی 5 دہائیاں ہوگئی ہیں پاکستان کے صنعت کار سے لے کر ایک عام آدمی تک عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافے سے شدید متاثر ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کارخانہ دار صنعت کار سے زیادہ ایک موٹر سائیکل والا، ایک سوزوکی والا، ٹرک والا، بس والا، کار والا ان سب کے دل اس وقت دہل جاتے ہیں جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ البتہ کچھ صارفین ایسے ہیں جو ایک دو روپے کے اضافے کو ملکی خزانے میں اضافہ کرنے کی خاطر برداشت کرلیتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ عین قربانی کے موقع پر جب ہر صاحب استطاعت قربانی کا جانور خریدنے یا خریدنے کے بعد کے معاملات پر غور و فکر میں سر کھپا رہا تھا۔

یعنی قصائی کا انتظام پھر اکثریت موسمی قصائی ان کے بڑھتے ہوئے بلکہ آسمان سے باتیں کرتی ہوئی معاوضہ کی رقوم اور جنھوں نے قربانی کا جانور خریدنے جانا ہے اپنی جیب کو بھر لیں کیونکہ اب ٹرانسپورٹرز کے مطالبات ان کے کرایہ جات ادا کرنے کے لیے کافی رقوم کی ضرورت ہوگی۔ حکومت نے عوام پر 15 جولائی کی شب ایسا پٹرول بم گرایا ہے کہ یکایک پٹرول 5.40 روپے فی لیٹر مہنگا کردیا۔ ڈیزل 2.54 روپے لیٹر مہنگا کردیا۔ ایل پی جی پر 5 روپے فی کلو اضافہ کردیا گیا ہے۔

اگر حکومت کا یہ خیال ہے کہ عوام عید قربان کے معاملات میں الجھے ہونے کے باعث اس بات کو بھول جائیں گے تو یہ خام خیالی ہے ایسے موقع پر عوام کو خوب یاد رہے گا کیونکہ عموماً مہینے کی آخری تاریخ کو آدھی شب گزرنے کے بعد معمولی اضافہ کردیا جاتا ہے۔ لیکن اس مرتبہ بے روزگاری زبردست ہے، آمدن نہایت ہی کم ہو رہی ہے، اخراجات کا لامتناہی سلسلہ ہے، صحت کے بے شمار مسائل ہیں۔ ڈاکٹروں کی بھاری فیس ادا کرنے کی سکت نہیں ہے لہٰذا میڈیکل اسٹور والے سے ہی مرض بتا کر دوا خرید لی جاتی ہے اور یوں مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ ایسے میں حکومت کی طرف سے اس غیر معمولی اضافے کو پٹرول بم گرانے کے مترادف لیا جائے گا۔

بات 1973 سے شروع کی تھی جب تیل کی قیمت میں زبردست اضافہ ہوا۔ اس وقت اور بمشکل ایک دہائی تک ترقی پذیر ملکوں میں سرمایہ کار، کارخانہ دار، مل اونرز ہی بڑھتی تیل کی قیمت پر سخت ناگواری کا اظہار کرتے تھے، لیکن اب دنیا بھر میں خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں بھی امیر صنعتی ممالک نے ہی قیمتی کاریں، گاڑیاں، بھاری بھرکم بسیں، موٹر سائیکل اور بہت سی اقسام کی موٹر وہیکلز پہنچا دی ہیں۔ یعنی ترقی پذیر ملکوں نے درآمد کرلی ہیں اور امیر صنعتی ممالک نے اپنی ٹرانسپورٹ مصنوعات برآمد کرکے خوب دولت جمع کی۔

ترقی پذیر ملکوں کو مہنگے داموں فروخت کیں۔ صرف پاکستان ہر سال کھربوں روپے کی مصنوعات ٹرانسپورٹ گروپ کی مد میں خرچ کرتا ہے۔ درآمدی بل بڑھنے کا یہ اہم شعبہ بھی ہے۔ یعنی اب ترقی پذیر ملکوں کے عوام کا تقریباً ہر شخص عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھنے اور پھر اس کے اپنے ملک میں تیل کی قیمت کے بڑھ جانے سے براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔ پاکستان میں معاملہ مزید خراب اس لیے کہ گاڑی ہو یا موٹرسائیکل والا یا بس ڈرائیور جیسے ہی شہروں یا دیہاتوں کی سڑکوں پر نکلتے ہیں تو سڑکیں ٹوٹی پھوٹی، کہیں بارش کے پانی میں ڈوبی ہوئی۔ کہیں بڑے بڑے گڑھے پڑے ہوئے۔ کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں بارش کا سماں شروع ہوجائے تو ٹریفک جام، روڈ بلاک، سڑکیں تالاب تو نہیں البتہ دریا بن کر رہ جاتی ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ایک طرف پٹرول مہنگا ساتھ ہی گاڑیوں، کاروں، موٹرسائیکل کے اسپیئرپارٹس بھی مہنگے۔ اب عوام جائیں تو کدھر جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں