گھریلو تشدد کا قانون اور ترقی
گھریلو تشدد کے خلاف آگہی کا عمل گزشتہ صدی کے آخری عشرہ سے اجاگر ہونا شروع ہوا
گھریلو تشدد ایک ایسا جرم ہے جس کے نفسیاتی، سماجی اور اقتصادی نتائج سامنے آتے ہیں۔ عمومی طور پر گھریلو تشددکی یہ تعریف کی جاتی ہے کہ خواتین پر ان کے قریبی عزیزوں کا تشدد، عمومی طور پر شوہر، بیویوں پر، باپ اپنی بیٹیوں پر تشددکرتے ہیں۔ باپ ماں پر تشدد کرتا ہے اور بھائی، بہنوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔گھریلو تشدد میں زبانی اور جسمانی تشدد شامل ہے۔
گھریلو تشدد صرف خاندانوں کو توڑتا نہیں ہے بلکہ اس کے کئی نسلوں پر اثرات برآمد ہوتے ہیں۔ معروف ادیب اور صحافی منو بھائی اپنے زندگی کے واقعات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کے والد نے بچپن میں ان کے سامنے، ان کی ماں پر ہاتھ اٹھایا تھا تو وہ اتنے خوفزدہ ہوئے کہ زبان میں لکنت رہی۔
پنجاب کے ایک معروف ادیب شبیر شاہ نے اپنے ناول جھوک سیال جس میں 40 ء اور 50ء کی دہائی کے پنجاب کے دیہی ماحول کی عکاسی کی تھی، اس ناول میں دیہات کا ایک کردار چیخ کرکہتا ہے کہ گاؤں میں کسی گھر سے عورتوں کے پٹنے کی آوازیں نہ آئیں تو وہ لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اس گھرکا مرد نامرد ہوگیا ہے، مگر گھریلو تشدد کا مسئلہ صرف دیہاتوں کا نہیں ہے بلکہ شہروں میں بھی تعلیم یافتہ خواتین اپنے قریبی عزیزوں کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ پھر یہ گھریلو تشدد پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یورپ اور امریکا میں بھی خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔
ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق دنیا بھر میںتین میں سے ایک عورت گھریلو تشدد کی اذیت برداشت کرتی ہے۔ پاکستان کے انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز نے 2017 میں ایک سروے رپورٹ جاری کی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں 15 سال سے 40 سال کی عمرکی خواتین میں سے 24.5 فیصد خواتین کو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
گھریلو تشدد کے خلاف آگہی کا عمل گزشتہ صدی کے آخری عشرہ سے اجاگر ہونا شروع ہوا۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں اور خواتین کی معاشرہ میں برابری کی جدوجہد کا شعور پھیلانے والی غیر سرکاری تنظیموں کے اہلکاروں نے اس موضوع پر سروے کیے اور رپورٹیں مرتب کرکے ورکشاپ، سیمینار اور کانفرنسوں کے انعقاد اور ذرایع ابلاغ پر آگہی کی مہم کے ذریعہ رائے عامہ کو ہموارکیا۔ اس مہم کے کئی حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں اہم کردار ادا کرنے والی خواتین نے ذرایع ابلاغ کے سامنے اس حقیقت کا اقرارکیا کہ بچپن میں وہ اپنے قریبی عزیزوں کے ہاتھوں صرف ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ ہی نہیں بنیں بلکہ بعض قریبی عزیزوں کی جنسی ہوس کا شکار بھی ہوئیں۔
این جی اوز کی آگہی کی مہم کا دائرہ کار سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں، صحافیوں، وکلاء، ڈاکٹروں، ججوں اور پارلیمنٹ کے اراکین تک وسیع ہوگیا۔ اس آگہی کی مہم اور خواتین کے تشدد کا شکار ہونے کے واقعات کے انکشافات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ گھریلو تشدد کرنے والے قریبی عزیزوں کے خلاف کارروائی کا کوئی قانون نہیں ہے۔ عمومی طور پر عزت اور غیرت کے نام پر بیویوں، بیٹیوں اور بہنوں کو قتل کرنے والے باپ، بھائی اور شوہر کو اپنے قریبی عزیزوں کی جانب سے معاف کرنے کی بناء پر بغیر سزا پائے رہا ہوجاتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کی تیسری حکومت 2008 میں قائم ہوئی۔ آصف علی زرداری صدر اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے۔ پیپلز پارٹی نے سندھ اور بلوچستان اور اس کی اتحادی عوامی نیشنل پارٹی نے خیبر پختون خوا میں اور مسلم لیگ ن نے پنجاب میں حکومتیں قائم کیں۔ پیپلز پارٹی میں اس وقت روشن خیال خواتین اور مردوں کی اکثریت تھی اور ان میں سے بیشتر صوبائی اسمبلیوں کے علاوہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی رکنیت حاصل کرچکی تھیں۔ پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اپنے اپنے منشور میں خواتین کے حالات کار بہتر بنانے کے لیے قانون سازی کے وعدے کیے تھے، یوں پیپلز پارٹی نے وفاق اور صوبہ سندھ میں خواتین کی بہبود سے متعلق کئی قوانین منظورکیے۔
سندھ میں پہلی دفعہ گھریلو تشدد کے خاتمہ کا قانون نافذ ہوا۔ اس قانون کے تحت بیوی کو یہ اختیار حاصل ہوا کہ تشدد کرنے کے ذمے دار شوہرکو جیل بھجوانے کے لیے مقدمہ درج کرسکتی ہے۔ 2013میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت پنجاب کے علاوہ وفاق میں قائم ہوئی تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے خواتین کے تشدد پر تدارک کے لیے جامع قانون نافذ کیا۔ اس قانون کے تحت تشدد کرنے والے مردوں کو قید و جرمانہ کی سزا کے علاوہ پہلے مرحلہ پر ہمیشہ کے لیے مرد کی کلائی پر ایک قسم کا کڑا باندھنے کی شق شامل ہوئی۔ اس کڑے کے ذریعہ پولیس کو ملزم کی نگرانی کا اختیار مل جاتا ہے۔ ملزم کو کڑا باندھنے کی سزا یورپ میں عام طور پر دی جاتی ہے۔ اگر مرد پھر بھی تشدد کا ارتکاب کرے تو اس کو باقی سزا کے لیے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ حکومت پنجاب نے گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کی بہبود کے لیے ملتان اور لاہور میں سینٹر قائم کیے۔
تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میں گھریلو تشدد کے خاتمہ کے لیے قانون سازی کا وعدہ کیا۔ 2018 میں تحریک انصاف برسر اقتدار آئی۔ ڈاکٹر شیریں مزاری انسانی حقوق کی وزیر کے عہدے پر فائز ہوئیں۔ انھوں نے مسلسل کوشش کرکے گھریلو تشدد کو جرم قرار دینے کے قانون کا مسودہ تیارکیا۔ وفاقی کابینہ نے اس مسودے کی منظوری دی۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے یہ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جہاں اس کو اکثریتی ووٹوں سے منظورکیا گیا۔ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی اور شیری رحمن نے ترامیم پیش کیں جن کو ایوان نے منظور کیا۔
اب قواعد کے تحت یہ بل صدر پاکستان کے پاس جانا تھا جن کے دستخطوں سے یہ قانون بن جاتا مگر تحریک انصاف متضاد نظریات رکھنے والے لوگوں کا ہجوم ہے۔ ان میں کچھ رجعت پسند ہیں اورکچھ روشن خیال۔ بعض وزراء نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی منظوری کے بعد اس بل میں نقائص نکالنے شروع کیے۔ یہ صورتحال پارلیمانی تاریخ کی انوکھی مثال تھی کہ تمام قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد کسی بل پر اعتراض کیے جائیں اور رجعت پسند عناصرکے دباؤ پر اس قانون کا نفاذ روک دیا جائے، یوں اب منتخب اداروں کا منظورکردہ قانون غیر منتخب ادارے کے حوالے کیا گیا۔ یہ بل اگر مسخ شدہ حالت میں قانون بنا تو یہ قانون بے اثر ثابت ہوگا۔
گھریلو تشدد کا تعلق خواتین کی ذہنی اور جسمانی صحت سے ہے، جب خواتین کی اکثریت کی صحت متاثر ہوگی تو لازماً ان کی صلاحیتوں پر فرق پڑے گا اور ترقی کا عمل متاثر ہوگا۔ پاکستان گھریلو تشدد کے حوالے سے تیارکردہ Global Gender Gap Indexمیں 153 ممالک میں 150 ویں نمبرپرہے۔ گھریلو تشدد نہ رکا تو پاکستان اس بین الاقوامی انڈیکس میں آخری نمبر پر آجائے گا۔