افغان امن اور شتر مرغ
تمام پیچیدہ صورتحال میں پاکستان کی اشرافیہ کو طالبان کے کسی بھی دھڑے کی حمایت سے دور رکھنا ہوگا۔
افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے بعد افغانستان کی داخلی اور بیرونی اثرات سے ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے ہم ایک ایسے خطے کے واسی ہیں کہ جس کے ملک پاکستان کے حکمران ممکنہ خطرات سے بے خبر شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ دیے بیٹھے ہیں اور اب تک اپنی خارجہ پالیسی کا روشن خیال اور حقیقت پسندانہ بیانیہ دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
افغانستان کی تازہ صورتحال پر دنیا کی نظریں مرکوز ہیں،جس میں ہماری ریاست کا بیانیہ اور کردار اہم ہے،مگر حالات کے تناظر میں نظر آرہا ہے کہ ہم دوبارہ سے چند ہزار ڈالر یا پاؤنڈ کے عوض افغان امن کی بانسری سابق پالیسی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بجانے پر ڈٹے ہوئے ہیں اور کسی بھی طرح عوام،ملک اور اپنی سیاسی و معاشی آزادی کے ہدف کی جانب نہیں جانا چاہتے،اس ساری صورتحال کو جاننے کے لیے ہمیں آمر ضیا کے دور پر نظر رکھنی ہوگی۔
ذرا ماضی میں جائیں کہ جب انیس سو نواسی کا دور دورہ تھا،امریکی نواز افغان صدر داؤد کے کہنے پر پاکستان میں لایا جانے والا گلبدین حکمت یار سلطنت عثمانیہ کے دور کو لانے کی جستجو میں ریاستی پشت پناہی میں دہشت و وحشت کے پیراہن میں لپٹ کر تنگ نظر ''جہادی'' کلچر کو جنرل ضیاء کی سوچ کے تحت پروان چڑھا کر ''طفیلی''بننے پر دندناتا پھر رہا تھا جب کہ افغان جہادی گلبدین حکمت یار کو نجات دہندہ کے روپ میں پیش کرکے اپنے پڑوسی ملک افغانستان کو ''اسلامی جہاد''سے لہو لہان اور بے امنی کی سرزمین بنانے کا کام زور شور سے جاری رکھے ہوئے تھے۔
دوسری جانب ان کی ریاستی کمان ایسے ہاتھ میں تھی جو افغان سر زمین کو ''اسلامی نشاۃ ثانیہ'' بنانے کے خواب دکھا کر جوق در جوق دیگر مدارس سے '''جہادی'' پیدا کرکے جنرل ضیا کی تنگ نظر ''ڈالری''سوچ کو پروان چڑھا رہا تھا،اس مقصد کی تکمیل میں بعض شخصیات کو تربیت کے لیے دیا گیا جو اب تک اپنے معنوی استاد جہادی ضیا اور مشرف کے امریکی جہادی ایجنڈے کو انجام تک پہنچانے میں افغان طالبان کی حمایت اور مدد جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ یہ خطہ اقتصادی اور سیاسی طور پر مستحکم نہ ہو سکے۔
تاریخی اور ریاستی فیصلوں کی روشنی میں یہ بات ایک طویل عرصے سے کہی جارہی ہے کہ سیٹو اور سینٹو میں جانے کے بعد ہمارا ملک برٹش کالونی کا اب تک ایک کالونیل ملک ہے جس کے فیصلوں کے پیچھے کام کرنے والی قوت برطانیہ کی رائل اکیڈمی کے تابع ہی کام کرتی ہے جس کا سرخیل امریکی سامراج کو بنا کر نہایت ہوشیاری سے برطانوی نو آبادیات ہونے کے تاثر کو زائل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں مگر کہیں نہ کہیں ہماری ریاست کی وزارت خارجہ اور داخلی معاملات کے کرتا دھرتا برطانوی استعمار کے اردلی ہونے کا بتا ہی دیتے ہیں،اس کی تازہ مثال افغانستان کی موجودہ صورتحال پر برطانیہ کی وزارت خارجہ کا یہ بیان کہ''اگر طالبان افغانستان میں حکومت بنا لیں گے توبرطانیہ اس حکومت کو تسلیم کر لے گا۔''
برطانیہ کا مذکورہ بیان دراصل پاکستانی ریاست کی خارجہ پالیسی کو ترتیب دینے کی وہ واضح دلیل ہے، جس کی تصدیق پاکستانی وزارت خارجہ کی ابہام پر مبنی افغان پالیسی اور شتر مرغ کی مانند خطے کے مستقبل کے اندشوں سے بے خبر حکومت کا بیانیہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان سے امن کا ثالث بننے کی درخواست کیا افغان حکومت نے کی ہے یا کسی بیرونی طاقت نے؟یہ وہ سوال ہے جس کو واضح کرنے کے بجائے ہمارے ریاستی حکمران حالات سے نظریں چراتے ہوئے شتر مرغ مانند دوبارہ سے اس خطے کو معاشی،سیاسی اور سماجی بحران کی جانب دھکیل رہے ہیں،جس کا آخری نتیجہ بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور معاشی ابتری کے علاوہ انسانی نفرتوں کا وہ بڑھتا ہوا سیلاب ہوگا جس کو روکنا نہ برطانیہ اور نہ ہی امریکا کے بس میں ہوگا۔
ہم اس وقت جہاں ملک کی معاشی و سیاسی ابتری کو درست نہیں کر پائے ہیں،وہیں ہمارے پڑوسی ملک چین نے داسو پروجیکٹ پر 9 چینیوں کی ہلاکت پر پاکستان کی وزارت خارجہ کے حادثے والے موقف کو رد کرتے ہوئے چین کی تحقیقاتی ٹیم پاکستان بھیج دی ہے جو داسو منصوبے والے واقعہ کی تحقیقات خود کرے گی جب کہ چینی وزارت خارجہ کے شدید رد عمل کے تین روز بعد ہماری حکومت نے چینی ہم منصب سے فون پر بات کرتے ہوئے واقعہ کی تحقیقات میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔
اسی طرح ازبکستان میں افغان امن کی مالا جھپتے ہوئے افغانی صدر کو اپنے غیر جانبدارانہ کردار کی یقین دہانی کروائی گئی ہے جس کے لیے فوری طور پر افغان امن کانفرنس کی بازگشت تیز کر دی گئی اور افغانستان کے تمام فریقین کو اس کے دعوت نامے بھیج دیے گئے...مگر ... دوسری جانب افغان طالبان کے فریق ثانی نے پاکستانی امن کانفرنس کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دوہا میں سہہ فریقی اجلاس میں جانے کو ترجیح دی اور ہماری حکومتی ناکامی کا پول پوری دنیا کے سامنے رکھ دیا۔
افغانستان پر گزشتہ روز پاکستان نے مغربی میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے افغان امن عمل میں گومگو کی پالیسی اختیار رکھی،جس نے اس خیال کو تقویت دی کہ ریاستی قوتیں افغانستان میں اپنے طالبان حمایتہ گروہ کے تسلط کے لیے کوشاں ہیں جب کہ مغربی قوتیں ہمیں مستقبل کے افغانستان میں مکمل کھیل کودنے کا موقع نہیں دینا چاہتیں اسی وجہ سے فوری طور دوہا اجلاس کا انعقاد ہوا جب کہ دوسری جانب تاشقند کانفرنس میں افغان صدر اشرف غنی نے واضح طور پر دس ہزار جنگجوؤں کی پاکستان سے آمد کو کانفرنس میں رکھا،جس کی تردید پاکستان کو فوری طور سے کرنی پڑی۔
افغانستان کے مستقبل پر جہاں بیرونی قوتیں متحرک ہیں ،وہیں چین روس اور ایران بھی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں،جب کہ افغانستان کے مستقبل پر قابو پانے کی امریکا اور اس کے اتحادی برطانیہ کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح افغانستان میں امن کی صورتحال یکسر بہتر نہ ہو سکے تاکہ عالمی قوتیں چین کے خطے میں اقتصادی استحکام کو لگام دے سکیں وہیں وہ ایران اور روس کے ممکنہ اتحاد کو بھی روک سکیں،جب کہ بھارت کے معاشی مفادات کا تحفظ بھی عالمی قوتوں کا اہم ہدف ہوگا۔
اس تمام پیچیدہ صورتحال میں پاکستان کی اشرافیہ کو طالبان کے کسی بھی دھڑے کی حمایت سے دور رکھنا ہوگا وگرنہ پاکستان کے عوام شدید معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوکر روزمرہ کے پرتشدد واقعات کی ضیا والی وہ تصویر ہو جائیں گے جس پر انتہا پسندی اور ضیا کی دی ہوئی مذہبی تنگ نظری غالب آجائے گی اور ہم ایک مرتبہ پھر دھندلکوں کی نذر ہو جائیں گے۔