عید مبارک لیکن احتیاط لازم ہے

گوشت کا زیادہ استعمال پیٹ کی بیماریوں، یورک ایسڈ اور جوڑوں کے درد کا باعث بھی بن سکتا ہے


عید مبارک لیکن گوشت کی بسیار خوری اور بچا کر فریج میں رکھنے سے گریز کیجئے۔ (فوٹو: فائل)

''ڈاکٹر بتارہا تھا کہ پہلے دن تو کم مریض آئے مگر دوسرے دن بہت زیادہ رش رہا۔'' بھائی نے جیسے ہی جملہ مکمل کیا ہم سب بے اختیار قہقہہ لگانے لگے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر سال عید قرباں کے پرمسرت موقع پر لوگوں کی بڑی تعداد ڈاکٹروں کا رخ کرتی ہے اور ایسے مواقع پر اتائی قسم کے ڈاکٹروں کی بھی چاندی ہوجاتی ہے۔ اکثر ڈسپنسر قسم کے معالج بھی عید کے موقع پر بالخصوص اور عام دنوں میں بالعموم مستند ڈاکٹروں سے زیادہ مصروف ہوتے ہیں۔ اگر آپ بھی عید کے پرمسرت موقع پر ڈاکٹرز کے دربار پر حاضری سے بچنا چاہتے ہیں تو عید پر گوشت کھائیں ضرور، مگر بچائیں نہیں۔

عام طور پر ہماری کوشش ہوتی ہے کہ عید کے دن زیادہ سے زیادہ گوشت خوری کی جائے اور جو بچ جائے وہ آنے والے وقت کےلیے بچا لیا جائے۔ میں نے لوگوں کو علما سے یہ بات معلوم کرتے دیکھا ہے کہ اگر قربانی کا گوشت مکمل طور پر اپنے گھر رکھ لیں تو جائز ہے یا نہیں؟ جب علما کرام فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں تو وہ ایسے خوش ہورہے ہوتے ہیں جیسے بہت بڑی مشقت سے بچ گئے ہوں۔ لیکن عام مشاہدے کی بات ہے کہ شریعت کی چھوٹ کا فائدہ اٹھا کر بہت سے لوگ اسپتال کا رخ کرتے ہیں۔

مستند ڈاکٹر حضرات ایک دن میں 250 گرام سے زائد سرخ گوشت کھانے سے منع کرتے ہیں اور اس کےلیے بھی ضروری ہے کہ گوشت کے ساتھ سلاد، دہی اور لیموں ضرور استعمال کریں۔ اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ 5000 گرام نہ سہی تو 2500 گرام تو کھا ہی لیا جائے اور باقی محفوظ کرلیا جائے۔ جبکہ ماہرین صحت کا یہ کہنا ہے کہ قربانی کے گوشت کو ایک ماہ سے زائد محفوظ نہ کریں، کیونکہ پرانا گوشت نہ صرف سرطان کا باعث بن سکتا ہے بلکہ اس کا کم سے کم نقصان یہ ہے کہ آپ کے مسوڑھوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

طبی ماہرین اس بات پر بھی متفق نظر آتے ہیں کہ گوشت کا زیادہ استعمال پیٹ کی بیماریوں، یورک ایسڈ اور جوڑوں کے درد کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ایک معروف ماہر امراض حلق، ناک اور کان نے اخباری انٹرویو میں بتایا کہ قربانی کے گوشت کو خوب پکا کر اور چبا کر کھانا بے حد ضروری ہے، بصورت دیگر ایسا ممکن ہے کہ ہڈی آپ کے گلے میں پھنس جائے اور پھر یہ ہڈی آپ کو بے ہوش کرکے نکالنی پڑے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی مشورہ دیا کہ قربانی کا گوشت وقت پر کھا لیا جائے کیونکہ یہ دیر سے ہضم ہوتا ہے۔

اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ قربانی کے دن چند اہم امور کا لازمی طور پر خیال کیا جائے:

قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کیا جائے، اور کوشش کی جائے کہ اپنے حصے کا گوشت وقت پر اور طبی حدود کے اندر رہتے ہوئے کھا لیا جائے، وگرنہ ایک طرف پیسے بچا کر دوسری طرف خرچ کرنا پڑیں گے، یعنی اسپتالوں کا رخ کرنا پڑے گا۔

قربانی کے جانور کو نمائش کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ عام طور پر ہماری خواتین کا پسندیدہ موضوع کپڑے ہوتے ہیں، لیکن عید کے قریب آتے ہی گفتگو کا موضوع بکرا بن جاتا ہے۔ اور گویا آج کل تو ہم نے بکرے کو دولت کی نمائش کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ یاد رکھیے بکرے، بیل کی نمائش سے آپ وقتی طور پر تو واہ واہ سمیٹ لیں گے لیکن آخرت میں جو اجر و ثواب کا وعدہ ہے اس سے محرومی ہوجائے گی۔ اور ویسے بھی ایک ایسا ملک جہاں پر لوگ بھوک سے مررہے ہوں، ایک کروڑ سے زائد لوگ بیروزگار ہوں، غربت، بھوک، افلاس میں حکومت کی خواہش کے باوجود کمی نہ ہورہی ہو، تو یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ ایک مذہبی تہوار کو چند لوگ ایک بڑے طبقے کےلیے مشقت کا ذریعہ بنالیں۔

قربانی کے ضروری مسائل علما سے معلوم کرلیے جائیں، بصورت دیگر کہیں ایسا نہ ہو کہ 'نیکی برباد گناہ لازم' کی مثال صادق آجائے۔ مثال کے طور پر بعض لوگ قصاب سے ذبح کرواتے وقت ابتدا میں خود بھی چھری پر ہاتھ رکھ لیا کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کےلیے یہ ضروری ہے کہ قصاب اور قربانی کرنے والا دونوں مستقل طور پر تکبیر پڑھیں۔ اگر دونوں میں سے ایک نے نہ پڑھی تو قربانی صحیح نہ ہوگی۔ (شامی،ج:۶)

آخری بات یہ کہ کوشش کی جائے ہمارے کسی عمل سے قربانی کا تہوار متنازع نہ بنے۔ غیر مستند پوسٹیں، بغیر تحقیق کے مسائل، وڈیوز، آڈیوز پھیلانا شرعی طور پر گناہ جاریہ کا باعث بن سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک بزرگ ساتھی نے ایک معروف عالمہ کی قربانی کے حوالے سے آڈیو بھیجی، جس میں احادیث کے حوالے سے قربانی کے مسائل بیان کیے گئے تھے۔ میں نے حسب عادت ایک عالم کو وہ آڈیو تصدیق کےلیے بھیجی تو معلوم ہوا کہ وہ مکمل طور پر غلط اور جہالت پر مشتمل تھی۔ اس لیے احتیاط لازم ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں