غذائی ملاوٹ زہر قاتل
کچھ ایسی ملاوٹ جو سب کو پتا ہے،کچھ مشکوک ہوتی ہیں اور کچھ ملاوٹ کا پتا ہی نہیں چلتا۔
بلاشبہ سرمایہ دار دنیا کے کچھ ممالک میں غذائی ملاوٹ نہیں ہوتی، مگر بیشتر پسماندہ ملکوں میں ملاوٹ کی بھرمار ہے۔ ہم پاکستان کی بات کریں گے، یہاں تو کالی مرچ اور چائے کی پتی سے لے کر آٹا، دال اور مسالہ تک میں ملاوٹ ہوتی ہے، مگر سب سے زیادہ ملاوٹ خوردنی تیل، دودھ، پانی اور گھی کی مصنوعات میں ہوتی ہے۔
کچھ ایسی ملاوٹ جو سب کو پتا ہے،کچھ مشکوک ہوتی ہیں اور کچھ ملاوٹ کا پتا ہی نہیں چلتا۔ مثال کے طور پر پپیتے کے بیج کو سکھا کر کالی مرچ میں ملایا جاتا ہے۔ چائے کی پتی میں استعمال شدہ پتی ، چنے کا چھلکا اور مخصوص پودے کے پتے اور رنگ کی ملاوٹ ہوتی ہے۔ بیسن چنے کی دال کے بجائے مٹرکی دال سے بنایا جاتا ہے۔ پسی ہوئی ہلدی اور سرخ مرچ میں ملاوٹ۔
راقم الحروف کراچی میں شیر شاہ سے بس میں کھوکھرا پار ملیر جا رہا تھا کہ ایک مزدور ساتھ والی نشست پر بیٹھا ، تو میں پوچھا ،کہاں کام کرتے ہو۔ اس نے بتایا '' مسالہ جات کی فیکٹری میں۔ ''وہاں کیا بنتا ہے؟'' اس نے بتایا کہ ہلدی، سرخ مرچ کو پاؤڈر بنا کر پیک کرکے برآمد کوالٹی کی چیزکے طور پرغیر ممالک کو ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔
اس نے سوال کرنے پر بتایا کہ ہلدی اور سرخ مرچ میں کیسے ملاوٹ کی جاتی ہے۔ پرانے چاول یا گندم کے آٹے سے سویاں بنائی جاتی ہیں ، پھر انھیں سکھایا جاتا ہے، اس کے بعد پاؤڈر بنا کر ہلدی اور سرخ مرچ میں ملایا جاتا ہے، جس دن کام زیادہ ہوتا ہے، اس دن ہم مزدوروں کو ایک ایک ہزار روپے انعام کے طور پر دیا جاتا ہے۔ پیکٹ پر ایکسپورٹ کوالٹی کا ٹھپہ بھی ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ '' تم جہاں کام کرتے ہو اس کے حوالے سے اگر میں تمہارے نام کے ساتھ اخبار میں خبر دوں تو اپنا حوالہ دینا پسند کرو گے؟'' اس نے جواباً کہا کہ ''اس سے زیادہ تنخواہ پرکہیں نوکری لگوا دیں تو میں بتا سکتا ہوں۔'' اس جواب پر میں خاموش ہو گیا۔
جہاں تک بیسن کی بات ہے تو راقم نے کئی دکانداروں سے پوچھا کہ بیسن کس چیز سے بنتا ہے، اس لیے بھی پوچھا کہ چنا مہنگا ہے اور بیسن سستا۔ پیسنے میں خرچ تو ہوتا ہے پھر چنے سے قیمت زیادہ ہونی چاہیے۔ جس پر دکاندار نے جواب دیا کہ بیسن تو کسی اور چیز سے بنتا ہے۔ درحقیقت مٹر چنے سے سستا ہوتا ہے اس لیے مٹر سے بیسن بنایا جاتا ہے۔ زیرے میں سونف ملانا عام بات ہے۔ چکی کے آٹے میں باسی ٹکڑے کی روٹی کی ملاوٹ بھی حسب معمول ہے۔ اب رہا تیل اور گھی۔ یہ تو ہر آدمی کے استعمال میں آتا ہے۔ جن تیلوں میں کولیسٹرول کم ہوتا ہے اس کی قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے۔
غریب آدمی تو خرید ہی نہیں سکتا اور سستے تیلوں میں کولیسٹرول کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ جیساکہ زیتون کا تیل مہنگا ہے اور پام آئل سستا ہوتا ہے۔ ملک کی اکثریت پام آئل اور سویا بین ہی استعمال کرتی ہے۔ متوسط طبقے کے لوگ بھٹہ اور سورج مکھی کا تیل استعمال کرتے ہیں۔ یہ تو رہی طبقاتی تناظر کی بات۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ بیجوں کے تیل کے بجائے ہمارے ہاں روزانہ لاکھوں کروڑوں ٹن جانوروں کی چربیوں سے تیل بنایا جاتا ہے۔
نجی ٹی وی چینل پر تفصیل دکھائی گئی کہ کراچی میں کئی ایسی فیکٹریاں ہیں جہاں جانوروں کی چربی، اوجھڑی، ہڈی اور سری پائے سے تیل بنایا جاتا ہے۔ یہ تیل ٹھیلے والوں سے لے کر اعلیٰ درجے کے ہوٹلوں تک ترسیل کیا جاتا ہے۔ پولٹری فیڈز میں تو ملاوٹ کی انتہا ہوتی ہے۔
پانی کی ملاوٹ ذرا ہٹ کے ہے۔ کراچی میں بڑے پیمانے پر بورنگ کا پانی استعمال ہوتا ہے۔ اس میں نمکیات سمیت 8 اقسام کی مضر صحت خرابیاں ہوتی ہیں ، جو پانی ہم بازار سے خرید کر پیتے ہیں، اس میں بیشتر پلانٹ والے نمکیات نکال کر ترسیل کرتے ہیں لیکن اس میں منرلز نہیں ہوتے۔ اب تیسرا سرکاری پانی جو کچھ علاقوں میں وقفے اور ناغوں سے آتا ہے اور بیشتر علاقوں میں آتا ہی نہیں۔ جہاں آتا ہے وہاں اس پانی میں کچھ منرلز تو ہوتے ہیں لیکن جراثیم بھی ہوتے ہیں۔ اب بتائیے کہ عام آدمی کون سا پانی استعمال کرے۔ اب رہا دودھ۔ پاکستان میں روزانہ 20 کروڑ لیٹر دودھ عوام اور بچے استعمال کرتے ہیں، دودھ میں طرح طرح کی ملاوٹ ہوتی ہے۔ جیساکہ درآمد شدہ خشک کو پانی سے تیار کرکے فروخت کیا جاتا ہے۔
دودھ میں پانی کی ملاوٹ تو عام ہے، پیکٹوں میں بند دودھ میں کیا کیا ہے، اس کے بارے میں تحقیقات کو کبھی منظر عام پر نہیں آنے دیا جاتا۔ اب ذرا غورکریں کہ غذائی ملاوٹ پر پابندی ہے، جرم ہے اور سزا بھی ہے۔ غذا کی ملاوٹوں کی انسپکشن کے لیے ادارے موجود ہیں۔ جنھیں لاکھوں کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں ، مگر وہ پیسے بٹورنے میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔ ملاوٹ کو روکنا آج کے حکمرانوں کا اولین فریضہ ہے۔ اس سے بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں اور ادویات کا استعمال بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ ساتھ ساتھ حکومت کو یہ بھی چاہیے کہ ادویات جنرک ناموں سے فروخت کی جائیں۔
یہی ادویات بھارت اور بنگلہ دیش میں بہت سستی ملتی ہیں اس لیے کہ وہاں دوائیں جنرک ناموں سے فروخت ہوتی ہیں۔ بازار میں دو نمبر کی دواؤں کی بھرمار ہے، اس لیے اکثر ڈاکٹرز ایسے نسخے لکھتے ہیں کہ وہ مخصوص اسٹورز سے ملتے ہیں۔ چونکہ دوا ایک نمبرکی نہیں ہوتی اس لیے وہ مریضوں کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتی۔ اگر ادویات خالص ملیں تو آدھی بیماری ویسے ہی کم ہو جائے گی اور اچھی کمپنی کی دوائیں ملتی ہیں ان کی قیمتیں اتنی ہوتی ہیں کہ غریب آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوتی ہے۔
اکثر لوگ نجی اسپتالوں کی تعریفیں کرتے سنائی دیتے ہیں مگر ایسا مزدور جس کی تنخواہ 15 تا 25 یا 30 ہزار روپے ہو وہ تو ان میں قدم بھی نہیں رکھ سکتا، علاج کرانا تو دورکی بات ہے۔ ایک محنت کش کو اگر بھوک لگے اور وہ کہیں کسی دکان سے کچھ خرید کر کھانا چاہے تو کھانا بھی اس کے لیے ایک عذاب بن جاتا ہے۔ جس تیل میں پکوڑے یا سموسے تلے جاتے ہیں وہ ہفتوں سے چلایا جا رہا ہے۔ کراچی میں تو سبزیاں بھی فیکٹری کے زہر آلودہ پانی میں اگائی جاتی ہیں جو انتہائی مضر صحت ہے۔ یہ لانڈھی کورنگی کراچی میں کھلے عام کاشت کی جاتی ہیں۔
الیکٹرانک میڈیا میں دکھایا بھی گیا ہے لیکن اس کا کوئی تدارک نہیں ہوا یعنی حکومت کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ ان تمام برائیوں کی بنیاد طبقاتی نظام ہے۔ منافع خوری اور دولت مند بننے کی خاطر یہ ساری ملاوٹیں کی جاتی ہیں۔ جس میں مال بٹورا جاسکے، جب یہ طبقاتی نظام کا خاتمہ ہوگا۔