سیاسی حدود طے کرلیجیے
پی ٹی آئی نے الزام تراشی کی سیاست کو نئے لیول پر متعارف کروا کر مخالفت برائے مخالفت میں تمام حدیں پھلانگنا شروع کردیں
پی ٹی آئی کےلیے سیاسی مخالفت اب ذاتی دشمنی میں بدل رہی ہے۔ (فوٹو: فائل)
پی ٹی آئی نسبتاً ایک نئی سیاسی جماعت ہے۔ یہ اپنے پہلے جنم میں مکمل طور پر ناکام پارٹی ہوا کرتی تھی بلکہ اُس وقت بھی تمام تر میڈیا مینجمنٹ کے بعد بھی بقول شیخ رشید اس پارٹی کے پاس تانگے جتنی سواریاں نہیں ہوتی تھیں۔ اس کا دوسرا جنم 2011 میں ہوا۔ باقی کی ساری کیوں، کیا، کب اور کیسے کی داستان ایک کھلا راز ہے۔
2012 تک یہ نظریاتی پارٹی مکس اچار کی شکل اختیار کرچکی تھی اور 2013 کے الیکشن کے بعد یہ پارلیمنٹ میں ایک توانا آواز بھی تھی۔ عمران خان اس سے قبل سلجھے ہوئے اور مہذب سیاستدان تصور کیے جاتے تھے۔ یہ ٹاک شوز میں اپنی باری پر بولتے تھے۔ یہ کسی کی بات کو نہیں کاٹتے تھے۔ یہ ٹو دی پوائنٹ بات کرتے تھے۔ اختلاف میں بھی یہ کوئی حد کراس نہیں کرتے تھے، لیکن اس کے بعد وہی عمران خان تھے جنہوں نے مسلم لیگ ن سے کسی کی دشمنی کو اپنی ذاتی دشمنی میں بدل دیا۔
یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کی دونوں بڑی پارٹیاں وقت کی مار کھا کر یہ سمجھ چکی تھیں کہ آپس کی لڑائی میں ایک کی چونچ اور ایک کی دُم نے گم ہونا ہے، لہٰذا وہ سیاسی لڑائیوں کو ایک خاص حد سے آگے جانے ہی نہیں دیتے تھے، بلکہ اگر کوئی رہنما زیادہ پھدکنے کی کوشش کرتا تھا تو پارٹی قیادت اس کو خاموش کروا دیتی تھی۔
پی ٹی آئی نے اس وقت الزام تراشی کی سیاست کو ایک نئے لیول پر متعارف کروایا۔ اس نے مخالفت برائے مخالفت میں تمام حدیں پھلانگنا شروع کردیں۔ اور آج معاملات بہت آگے جاچکے ہیں۔ پی ٹی آئی کےلیے سیاسی مخالفت اب ذاتی دشمنی میں بدل رہی ہے اور رہی سہی کسر وزیراعظم نے پوری کردی ہے۔
کشمیر میں الیکشن کا بازار گرم ہے۔ سب کچھ صحیح جارہا تھا، ریلیاں اور جلسے ہورہے تھے اور واضح طور پر ن لیگ کا پلڑا بھاری نظر آرہا تھا کہ وزیراعظم نے نوازشریف کے نواسے جنید صفدر کو نشانے پر لیا، جس کے جواب میں مریم نواز نے بھی جلسے میں ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ اس پر وزیراعظم کی سابقہ اہلیہ نے ٹویٹ کیا تو مریم نواز نے وہاں بھی سیدھا سیدھا جواب داغ دیا۔ دوسرا واقعہ لندن میں تب پیش آیا جب عابد شیر علی شریف فیملی کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے تو کسی نے اُن پر اخلاقیات سے گرا ہوا الزام دہرایا۔ اس کے جواب میں عابد شیر علی نے طیش میں آکر اُس فرد کو اس کی زبان میں ہی جواب دیا۔ یہ کیا ہے؟ یہ محض الزام تراشی کی سیاست اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خلیج کا اب دشمنی میں بدلنا ہے۔ یہ اسی کے نتائج ہیں۔ اس کا ہم تھوڑا سا تجزیہ کرتے ہیں۔
سب سے پہلی بات تو وہی ہے کہ سیاسی لڑائی کو کسی بھی صورت میں ذاتی لڑائی میں نہیں بدلنا چاہیے۔ یہ لڑائی جس لیول پر جارہی ہے، وہ انتہائی غلط ہے۔ فیملیز سب کی قابل عزت ہیں۔ سیاست میں ذاتیات کو نہیں گھسیٹنا چاہیے۔ پی ٹی آئی کی آج تک کی کُل سیاست محض الزام تراشیوں پر مبنی ہے۔ محض ان الزامات پر مبنی ہے جس کے نتیجے میں آنے والے متنازع فیصلے لندن کی عدالت میں ختم ہوجاتے ہیں لیکن ان فیصلوں کی وجہ سے براڈ شیٹ جیسوں کو ادائیگیاں کرنی پڑتی ہیں۔ سیاسی مخالفین پر لگنے والے الزامات ابھی ثابت ہونا باقی ہیں۔ احتساب کے نام پر انتقام کا سلسلہ نجانے کہاں جا کر رکے گا۔
جمائما گولڈ اسمتھ نے دعویٰ کیا تھا کہ جب وہ پاکستان میں تھیں تو ان کے گھر کے سامنے مظاہرے ہوتے تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے پاکستان کو الوداع کہا تھا۔ یہ بات غلط ہے۔ ان کے الوداع کی اصل وجہ کچھ بھی ہو لیکن یہ مظاہروں والی بات درست نہیں تھی۔ سینئر صحافی اس بات پر متفق ہیں کہ جس وقت کا جمائما ذکر کر رہی ہیں یہ وہ وقت تھا جب عمران خان پرویز مشرف کی گُڈ بکس میں تھے۔ یہ ان کے ساتھ لنچ اور ڈنر کیا کرتے تھے اور مستقبل کا لائحہ عمل بھی زیر بحث آتا تھا۔ یہ پرویز مشرف کی حمایت کیا کرتے تھے، یہ ان کے ریفرنڈم میں پولنگ ایجنٹ بھی بنے تھے۔ اگر ان کے گھر کے سامنے مظاہرے ہوتے تھے تو مقامی میڈیا میں رپورٹ تو ہوتے، ایسا تو کچھ بھی نہیں ہے۔ مقامی میں نہ سہی، انٹرنیشنل میڈیا میں رپورٹ ہوتے۔ وہاں بھی نہیں ہیں۔ یادش بخیر، جمائما نے تو ریحام خان پر اس کی کتاب کے شائع ہونے پر کیس کرنا تھا۔ انہوں نے اگر کوئی کیس کیا ہو تو مجھے بھی اطلاع دیجیے گا۔
مجھے مریم نواز کی بات سے اتفاق ہے کہ اگر جمائما گولڈ اسمتھ کا سابق شوہر دوسروں کی اولاد کو سیاسی تنازعات میں نہ گھسیٹے تو کوئی دوسرا بھی ان کی اولاد کی طرف انگلی نہیں اٹھائے گا۔ خاں صاحب تو ویسے بھی ٹھیک ٹھاک متنازع ماضی رکھتے ہیں۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ وہ کیسے شیشے کے گھر میں رہتے ہوئے سنگ باری کرسکتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ یہاں پر نہ رکا تو پھر صرف خان صاحب کی اولاد پر ہی سوال نہیں ہوں گے بلکہ پی ٹی آئی کے وزرا اور رہنماؤں کی اولاد بھی اسی زد میں آئیں گی۔ لہٰذا اس سلسلے کو یہی رک جانا چاہیے۔
دوسرا کیس بھی صرف الزام تراشی کی وجہ سے ہونے والی برین واشنگ کا نتیجہ ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے الزام ہے کہ شریف فیملی کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ قوم سے لوٹا ہوا ہے اور یہ حکومت تین سال کے عرصے میں پورا زور لگا کر بھی کچھ ریکور نہیں کرسکی۔ الٹا اس پر جو خرچ آ رہا ہے، وہ میرے اور آپ کے ٹیکس کے پیسوں سے آرہا ہے۔ خدا جانے اس عمل احتساب کا بھی کبھی احتساب ہوگا یا نہیں ہوگا۔ یہ الزام بہت سے پاکستانیو ں نے قبول بھی کیا ہے اور اس برین واشنگ کا نتیجہ ہے کہ فیملی کھانا کھا رہی ہے تو بھی اس پر فقرے بازی سے باز نہیں آیا گیا اور پھر عابد شیر علی نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔ میں یہاں عابد شیر علی کے طرز تخاطب کا دفاع نہیں کررہا۔ گالم گلوچ بالکل غلط ہے لیکن کسی کو اس حد تک اشتعال نہیں دلانا چاہیے کہ بات اس سطح تک آجائے۔ عابد شیر علی کو بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔ ان کو چاہیے تھا کہ وہ پولیس کو بلاتے۔ اس بندے کو پولیس کے حوالے کرتے اور سادہ سا موقف اپناتے کہ اس نے مجھے اور میرے عزیزوں کو ہراساں کیا ہے لہٰذا جو الزامات یہ لگا رہا ہے وہ یا تو ثابت کرے اور یا پھر ہرجانہ بھرے۔
پی ٹی آئی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ سیاسی لڑائیاں اگر ذاتی لڑائیوں میں بدل جائیں تو کسی کا بھی بھلا نہیں ہوتا۔ سیاست میں گھر کی خواتین اور بچوں کو گھسیٹنے کے نقصانات ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھی دودھ کی دھلی ہوئی نہیں ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کو رج کر گندا کیا تھا اور پھر وقت کے ساتھ وہ یہ سیکھ گئی تھیں کہ سیاست میں حد کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔
سیاست میں بھی اتنے ادب و آداب ہونے چاہئیں کہ اگر کل کو آمنا سامنا ہو تو مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوسکے۔ یہ کرسی کسی کی بھی سگی نہیں ہے۔ بہت سے حکمران جو خود کو طاقت کا سرچشمہ سمجھتے تھے وہ نشان عبرت بن چکے ہیں۔ ان میں سے کچھ قبروں میں ہیں اور کچھ دبئی میں گمنام زندگی گزار رہے ہیں۔ سب پارٹیوں کو چاہیے کہ آج بیٹھ کر ''چارٹر آف لِمٹ'' طے کرلیں۔ آج سیاسی حدود طے کرلیں کہ یہ حدود ہیں اور ان کو کوئی بھی کراس نہیں کرے گا۔ اگر کوئی کراس کرے گا تو تمام سیاسی پارٹیاں اس کا بائیکاٹ کریں گی جب تک کہ وہ پبلک میں شرمندگی سے معافی نہ مانگ لے۔
بالکل آخر میں عرض ہے کہ کیا پی ٹی آئی کے ٹائیگرز بانی ایم کیو ایم کی رہائش گاہ کے باہر کوئی مظاہرہ کر سکتے ہیں؟ اُن پر تو بہت کچھ ثابت ہوچکا ہے۔ ذرا وہاں کا بھی رخ کیجئے اور پلیز مظاہرے کی ویڈیو بنانا مت بھولیے گا، شیئر ضرور کیجیے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔