کورونا ویکسین نہ لگوانے والوں کے بچے بھی کووِڈ 19 سے متاثر ہوسکتے ہیں ماہرین

امریکا میں کورونا وائرس 40 لاکھ سے زائد بچوں کو متاثر کرچکا ہے جن میں سے 10,628 بچوں کی موت واقع ہوچکی ہے


ویب ڈیسک July 25, 2021
کورونا وائرس بچوں کے پھیپھڑوں اور گردوں کے علاوہ دل، دماغ، کھال، آنکھوں اور نظامِ ہاضمہ تک کو متاثر کرسکتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

LONDON: امریکی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر بڑوں نے کورونا ویکسین نہ لگوائی تو ان کے بچے بھی کورونا وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں جبکہ ان کی تعداد میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔

نیو اورلینز، لیوزیانا میں ٹیولین یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کے ڈاکٹر شیفلین اور ان کے ساتھیوں امریکا میں کووِڈ 19 عالمی وبا سے متعلق اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے کے بعد انکشاف کیا ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے بچوں کی نمایاں تعداد کا تعلق ان گھرانوں سے ہے جہاں خاندان کے بڑوں نے ویکسین نہیں لگوائی۔

واضح رہے کہ اب تک کورونا وائرس سے متاثرہ بچوں کی تعداد بہت کم رہی ہے لیکن حالیہ مہینوں کے دوران اس تعداد میں ہونے والے اضافے کو تشویشناک قرار دیا جارہا ہے۔

''امریکن کالج آف الرجی ایستھما اینڈ امیونولوجی کووِڈ 19 ویکسین ٹاسک فورس'' کے سربراہ ڈاکٹر نیرج پٹیل کے مطابق، امریکا میں کووِڈ 19 وبا کے آغاز سے اب تک 40 لاکھ، 87 ہزار 916 بچے کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 10,628 بچوں کی موت واقع ہوچکی ہے۔

ڈاکٹر پٹیل نے خبردار کیا ہے کہ بچوں میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی شرح بتدریج بڑھ رہی ہے، البتہ یہ علامات بڑوں کے مقابلے میں خاصی مختلف اور پیچیدہ بھی ہوسکتی ہیں۔

بچوں کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی علامات کو مجموعی طور پر ''ملٹی سسٹم انفلیمیٹری سنڈروم اِن چلڈرن'' (MIS-C) بھی کہا جاتا ہے۔

''ایم آئی ایس سی'' میں مختلف جسمانی اعضاء کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد تکلیف میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

ان میں پھیپھڑوں اور گردوں کے علاوہ دل، دماغ، کھال، آنکھیں اور نظامِ ہاضمہ تک شامل ہوسکتے ہیں؛ جبکہ ''ایم آئی ایس سی'' شدید ہونے پر بچے کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

کورونا ویکسین دستیاب ہونے کے باوجود، دنیا بھر میں ویکسین نہ لگوانے والوں کی اکثریت ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے کورونا ویکسین لگوانے سے انکاری ہیں۔

نوٹ: اس خبر کی معلومات طبّی ویب سائٹ ''ہیلتھ لائن'' پر شائع شدہ ایک حالیہ رپورٹ سے لی گئی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔