غدار کون

اب تو یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے کہ یحییٰ خان پر ملک کے توڑنے کا جو الزام لگایا جاتا ہے وہ بھی نا سمجھی ہے۔


عثمان دموہی July 25, 2021
[email protected]

بعض سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے قائدین کو غدار قرار دے رہی ہیں۔

ہمارے ملک کے معاشرے پرگہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ ہمارے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والا کوئی بھی رہنما ملک کا غدار تھا ، ہاں ان کی کارکردگی ضرور اوپر نیچے ہوتی رہی ہے مگر وہ بہر صورت ملک کے مفاد میں ہی کام کرتے رہے ہیں، پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے لے کر عمران خان تک ،کسی پر ملک کے مفاد سے ہٹ کرکام کرنے کا الزام نہیں لگا سکتا۔

ہمارے سیاسی ہی نہیں غیر سیاسی حکمرانوں نے بھی تندہی سے ملک کے مفاد میں کام کیا اور اپنے طور پر ملک کی خدمت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ جہاں تک ملک میں مہنگائی کی عفریت کا معاملہ ہے تو یہ ہر حکومت میں بے قابو رہا ، مگر انھوں نے اسے اپنے طور پر قابو میں رکھنے کی پوری کوشش کی۔ اس وقت خاص طور پر ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کے ادوارکو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور بعض لوگ انھیں غدار بھی کہہ رہے ہیں مگر ہرگز ایسا نہیں ہے۔

ہمارا ہر شہری محب وطن ہے اور ملک کی خاطر جان دینے کے لیے ہر وقت تیار ہے تو جب ایک عام پاکستانی میں حب الوطنی کے جذبے کا یہ حال ہے تو وہ قائد جو عوام کے ووٹ لے کر ملک کے مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہوتا ہے وہ بھلا کیسے غدار ہو سکتا ہے۔ جہاں تک ذوالفقار علی بھٹو کا تعلق ہے انھیں ملک کے ٹوٹنے کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے کہ انھوں نے کہا تھا کہ ''ادھر تم اور ادھر ہم''۔ بھٹو سے منسوب یہ بات بالکل غلط ہے۔

اب تو یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے کہ یحییٰ خان پر ملک کے توڑنے کا جو الزام لگایا جاتا ہے وہ بھی نا سمجھی ہے۔ یہ وہ شخص تھا جس نے ون یونٹ توڑا پھر سے صوبوں کو بحال کیا اور ملک میں پہلے عام انتخابات کرائے جنھیں آج بھی صاف و شفاف کہا جاتا ہے جن میں دھاندلی کا شائبہ تک نہیں تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کو بھی کسی حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہ پاکستان کا سپوت تھا جس کا یہ کہا آج بھی ہر پاکستانیوں کے کانوں میں گونجتا رہتا ہے کہ ''ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنا کر رہیں گے'' بھٹو نے یہ بیان صرف اپنی سیاست چمکانے یا عوام کو خوش کرنے کے لیے نہیں دیا تھا ، انھوں نے اسی دن سے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا کام شروع کردیا تھا۔

پاکستان کے ایٹم بم بنانے کی ابتدا بھٹو نے کی اور اس کی انتہا یعنی اس کا تجربہ نواز شریف نے کرایا۔ بھٹو کے ایٹمی پروگرام شروع کرنے کی وجہ سے ہی مغربی ممالک ان کے خلاف ہوگئے تھے اور آخر انھیں پھانسی کے پھندے پر چڑھا کر دم لیا تھا۔ امریکا دراصل ان کے ایٹمی پروگرام کو شروع کرنے اور روس سے تعلقات استوار کرنے پر ان سے سخت برہم تھا مگر وہ اپنی ملکی مفاد کی پالیسی پرگامزن رہے۔ 1971 میں ملک دولخت ہو گیا ملک کا مشرقی بازو مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بن گیا۔ اس سارے کھیل میں بھارت کا پاکستان مخالف اہم کردار تھا۔

مجیب الرحمن کے گھناؤنے کردار کو بھی کسی طرح فراموش نہیں کیا جاسکتا وہ بھارت سے ساز باز کرکے بہت پہلے ہی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھ چکا تھا۔ ہمارے ہاں اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ اگر مجیب الرحمن کو اقتدار دے دیا جاتا تو ملک دولخت ہونے سے بچ جاتا مگر ایسا نہیں ہے وہ ہر حال میں بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کرتا اس لیے کہ اس کی مرضی کے مطابق بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے ہی بھارت کے مالی تعاون سے بنگلہ دیش کے کرنسی نوٹ اور ڈاک ٹکٹ برطانیہ میں چھپ چکے تھے اور بنگلہ دیش کا جھنڈا بھی بن چکا تھا۔

بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بھارت ایک فاتح ملک اور پاکستان ایک شکست خوردہ ملک بن گیا تھا۔ اصل مسئلہ پاکستان کے 73 ہزار جنگی قیدیوں کا تھا کہ انھیں کس طرح ملک واپس لایا جائے اور بھارت کے زیر قبضہ پانچ ہزار مربع میل پاکستانی علاقے کو واپس لیا جائے۔ پاکستانی حکومت نے اس سلسلے میں بھارت سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر اندرا گاندھی جو پاکستان کو توڑنے کی خوشی سے سرشار تھیں پاکستان سے کسی بھی معاہدے کو کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔

ذوالفقار علی بھٹو جو اس وقت اقتدار سنبھال چکے تھے نے اس سلسلے میں اپنی کوششیں شروع کیں۔ سب سے پہلے انھوں نے اس سلسلے میں روسی حکومت سے رابطہ کیا خوش قسمتی سے بھٹو اس وقت تک روس سے تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ اس وقت روسی حکومت کے بھارت سے خصوصی تعلقات قائم تھے انھوں نے پاکستانی فوجوں اور قابض زمین کی واپسی کے لیے رابطہ کیا مگر اندرا گاندھی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد بھٹو نے پاکستان کے کچھ دوست ممالک سے بھی رابطہ کیا اور ان سے اندرا پر زور ڈلوایا بالآخر وہ پاکستان سے معاہدہ کرنے پر راضی ہوگئیں، پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والا یہ معاہدہ شملہ کہلاتا ہے۔

بھارتی سیاستدان، دانشور اور صحافی اس معاہدے کے سخت خلاف تھے ان کا موقف تھا کہ اگر معاہدہ کیا ہی جائے تو پاکستان کو اس معاہدے کے ذریعے مسئلہ کشمیر سے ہمیشہ کے لیے دستبردارکردیا جائے اور پاکستان کو ذلت آمیز شرائط پر اس کی فوج اور زمین واپس کی جائے۔ شملہ میں معاہدے کے لیے شروع ہونے والی گفتگو میں موجود ایک بھارتی اعلیٰ عہدیدار کے این بخشی نے 2007 میں ایک بیان میں کہا تھا کہ ''بات چیت شروع ہوئی تو جیت کے باوجود اندرا گاندھی پاکستان کو توڑنے پر شرمندہ نظر آئیں اور ایسا لگا کہ اندرا بھٹو کے آگے جھک رہی تھیں۔

ایک اور تجزیہ کار پروفیسر اودے بالا کرشن نے اندرا گاندھی کے جنم دن کے موقع پر 20 نومبر 2019 کو روزنامہ ہندو میں اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ شملہ معاہدہ اندرا گاندھی کی ایک بڑی غلطی تھی لیکن یہ غلطی کیوں کی گئی اس کی وجہ شاید بھارتی کبھی نہ جان سکیں۔ اندرا گاندھی نے ایک فاتح ملک ہوتے ہوئے بھی ہارے ہوئے پاکستان کے حکمران بھٹو کو وہ سب کچھ دے دیا تھا جو وہ چاہتے تھے۔ کے این بخشی کہتے ہیں کہ اس معاہدے کے وقت بھٹو کی سیاسی بصیرت اور ذہانت عروج پر تھی جس نے اندرا گاندھی کو زیرکردیا تھا۔

ان کے مطابق حالانکہ بھٹو پاکستان میں بھارت سے ہزار سال تک لڑنے کی بات کرچکے تھے مگر اس وقت ان کا رویہ ایسا دوستانہ اور میٹھا تھا کہ اندرا گاندھی ان کے خلاف جا ہی نہیں سکتی تھیں۔ روزنامہ مساوات کے اس وقت کے ایک سینئر صحافی احمد حسن علوی جو وفد میں شامل تھے نے بھی بھٹو کے شملہ معاہدے کے وقت کی ذہانت کی بے حد تعریف کی تھی ان کے مطابق وہ اس وقت ایک متحرک اور ذہین سیاستدان کا کردار ادا کر رہے تھے۔

بھٹو معاہدہ شملہ کرنے کے لیے پاکستان سے بڑی تیاری کے ساتھ گئے تھے وہ جو وفد وہاں لے کر گئے تھے اس کا انتخاب بھی انھوں نے بہت سوچ سمجھ کر کیا تھا اس میں پرانے سفارت کار سیاستدان دانشور شاعر اور ادیب شامل تھے جو بھارت میں بھی کافی اثر رکھتے تھے ان تمام نے بھی پاکستان کی برتری کے لیے راستہ ہموار کیا تھا۔ ہمارے ہاں معاہدہ شملہ پر اکثر نکتہ چینی کی جاتی ہے مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس معاہدے کو بھارتی کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں