تحریکِ آزادی کشمیرکیسے آگے بڑھے
میڈیکل سائنس کی ترقی سے صرف 10 فیصد دولت مند عوام ہی فائدہ اٹھا رہے ہیں باقی لوگ اس سے محروم ہیں
5 اگست 2019کو بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت نے ایک صدارتی حکم 272 کے تحت آئین میں ترمیم کر کے ریاستِ مقبوضہ جموں و کشمیر کی وہ خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی جو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کے تحت اسے حاصل تھی۔یہ آرٹیکل 1949میں لایا گیا تھا۔ 5اگست 2019کا بھارتی صدارتی حکم تین دستاویزات پر مبنی ہے۔پہلی دستاویز خود صدارتی حکم نامہ ہے جس سے دوسری دو دستاویزات کو اتھارٹی ملتی ہے۔
دوسری دستاویز کے ذریعے آرٹیکل 370 کو یکسر ختم کیے بغیر اس کے اندر اتنی اور ایسی ترامیم کر دی گئی ہیں کہ یہ آرٹیکل ہی بے اثر ہو کر رہ گیا ہے۔ تیسری دستاویز ریاستِ مقبوضہ جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔یہ لداخ کو مقبوضہ کشمیر سے الگ کر کے اسمبلی کے بغیرایک یونین علاقہ بناتی ہے جب کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کو یہ دستاویز ایک ایسی ریاست بنا دیتی ہے جس کی اپنی اسمبلی تو ہو گی لیکن جس کی کوئی خصوصی حیثیت نہیں ہو گی۔ایسی ریاست جہاں بھارت سے آ کر کوئی بھی زمین خرید کر ریاست کا شہری بن سکتا ہے۔
اس سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں باہر سے آ کر کوئی زمین نہیں خرید سکتا تھا اور نہ شہری بن سکتا تھا۔اس ایک شق کے ذریعے ریاست کی ڈیموگرافی تبدیل کر نے کی داغ بیل ڈال دی گئی ہے۔اسی تیسری دستاویز میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 367 میں ایک کلاز اور چار سب کلازز بڑھائی گئی ہیں۔ چوتھی سب کلاز یہ کہتی ہے کہ آئین میں جہاں جہاں آئین ساز اسمبلی ریاستِ جموں و کشمیر لکھا ہے اسے اب اسمبلی ریاستِ جموں و کشمیر پڑھا جائے گا۔اس سب کلاز کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ آرٹیکل 370 بنیادی طور پر بھارتی آئین کو کشمیر پر لاگو ہونے سے مانع ہے۔
اس آرٹیکل کے 70(1) (d) 3 میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ بھار تی آئین اور بھارتی قانون کی کسی بھی شق کو مقبوضہ کشمیر پر اس وقت تک لاگو نہیں کیا جا سکتا جب تک مقبوضہ کشمیر کی حکومت اس کے نفاذ کی اجازت نہ دے دے۔آرٹیکل 370(3) میں مزید قرار دیا گیا ہے کہ بھارتی صدرر کو اس آرٹیکل کے تحت صرف اس وقت اختیار ہے جب ریاستی آئین ساز اسمبلی اس کی منظوری دے چکی ہو۔ ریاستی آئین ساز اسمبلی 1957میں توڑ دی گئی تھی اس لیے مقبوضہ کشمیر ہائیکورٹ نے 2015 میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ آئین ساز اسمبلی کے 1957میں ختم ہو جانے کی وجہ سے آرٹیکل 370ہمیشگیFinalityاختیار کر چکا ہے،اس لیے بھارتی صدر اب مقبوضہ کشمیر کے سلسلے میں کوئی اختیار نہیں رکھتا۔
یہ تفصیلات،قارئینِ کرام،محض یادداشت تازہ کرنے کے لیے ہیں ورنہ اصلی بات تو یہ ہے کہ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے۔ہر غاصب قوت ایسے ہی اقدامات سے اپنے ناجائز اور غیر قانونی قبضے کو جواز فراہم کرتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی رُو سے یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ جس کا حل ابھی ہونا ہے۔
بھارت نے خود ہی اقوامِ متحدہ میں جا کر اس مسئلے میں کشمیریوں کو استصوابِ رائے کے ذریعے حقِ خود ارادیت دینے کا وعدہ کیا تھا۔اس لیے یہ تو طے ہے کہ غاصب قوت بھارت کے5اگست کے اقدامات غیر قانونی ہیں اور ان کی اس وقت تک کوئی حیثیت نہیں جب تک اس مسئلے کے دوسرے فریق یعنی پاکستان اور کشمیری عوام اس کو تسلیم نہیں کرتے۔ہمیں اس وقت اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ کہیں ان اقدامات سے تحریکِ آزادی کشمیر اور کشمیریوں کی جدوجہد کو خدا نخواستہ کوئی نقصان تو نہیں پہنچ رہا۔
اس سوال کا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ ان بھارتی اقدامات سے تو تحریک اور کشمیری جدو جہد کو کوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ بھارتی اقدامات سے کشمیر کا مسئلہ جو خوابیدہ ہو چلا تھا،جو بین الاقوامی اسٹیج سے اوجھل ہو چلا تھا،جو بین الاقوامی فورمزپر زیرِبحث نہیں آ رہا تھا،ان بھارتی اقدامات کے نتیجے میں ایک بار پھر اجاگر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ورلڈ جینو سائڈ واچ کشمیر پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے غیر رسمی ہی سہی لیکن دو دفعہ اس پر غور کیا ہے۔
تحریکِ آزادیٔ کشمیر کو کامیاب ہونے میں جو مسائل درپیش ہیں ان میں سے اکثر کشمیر کے اندر کشمیریوں سے متعلق ہیں۔ اور چند ایک کا تعلق پاکستان اور اقومِ متحدہ کے ممبر ممالک خاص کر اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے ممبر ممالک سے ہے۔ کشمیر کے اندر گیپکر گینگ اپنے ہم وطنوں سے بے وفائی کر کے مجرمانہ فعل کا مرتکب ہو رہا ہے۔
یہ گینگ ابتدا سے ہی مفاد پرست رہا ہے اور ہر وقت دہلی کی طرف للچائی نظروں سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اسی گینگ نے 1947میں کشمیر کا سودا کر کے انھیں دہلی کا غلام بنایا۔ حال ہی میں نریندر مودی نے کشمیر پر بات کرنے کے لیے انھیں دہلی بلایا تو یہ سارے با ادب حاضر ہو گئے اور بھول گئے کہ کشمیر میں بھارت نے پچھلے دو سال میں کتنا ظلم ڈھایا ہے۔میری رائے میں تحریکِ آزادیء کشمیر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ ایک لیڈر لیسLeader less تحریک بن گئی ہے۔
یہ تحریک ایک ایسے رہنما سے محروم ہے جس کی سب عزت کرتے ہوں،جس کی سب سنتے ہوں،جس کے چشمِ ابرو کے ایک اشارے پر سب قدم اُٹھائیں اور جس کے ہاتھ بلند ہونے پر رک جائیں۔جو بکنے اور جھکنے والا نہ ہو،جو سب کے لیے قابلِ اعتماد ہو۔ ہم سب اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ حریت کانفرنس جو کشمیریوں کی نمایندہ تنظیم ہے اس کے کئی دھڑے ہیں۔تنظیمیں دھڑوں میں بٹ کر افادیت کھو دیتی ہیں۔یہی کچھ یہاں بھی ہوا ہے۔
حریت کانفرنس کے علاوہ شیخ۔بخشی،مفتی وغیرہ صرف اپنے اپنے مفادات کے لیے سر گرم ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسا لیڈر ہو جو سب کو ایک لڑی میں پرو کر تحریک کو آگے بڑھائے۔ساتھ ہی یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ تحریک بظاہر کسی پلان پر عمل نہیں کر پا رہی۔ قابض فوج اور استبدادی قوت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے عمومی طور پر تین مراحل پر مبنی پلان پر عمل پیرا ہونا کامیابی کی نوید لاتا ہے۔پہلے مرحلے میں تحریک کو لوگوں میں مقبول بنا کر ایک ماس موومنٹ Mass Movement کی شکل دی جاتی ہے۔
دوسرے مرحلے میں استبدادی قوت کے کیمونیکیشن نیٹ ورک کو اس حد تک تباہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ بوکھلا جائے۔ جب ماس موومنٹ کے نتیجے میں جان نثاروں کا ایک بڑا گروہ تیار ہو جائے اور دشمن کے کیمونیکیشن نیٹ ورک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا دیا جائے تو تیسرے اور آخری مرحلے میں مسلح جدو جہد کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔
تحریکِ کشمیر کو ماس موومنٹ بنے ایک عرصہ ہو گیا ہے لیکن سب کو اکٹھا رکھنے والا دور اندیش اور قابلِ اعتماد رہنماء نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے مرحلے میں داخل ہوئے بغیر تیسرے مرحلے کی جانب بغیر سوچے سمجھے قدم بڑھا دیے گئے ہیں۔
اس طرح تحریک اپنے کامیابی کے اہداف سے کوسوں دور چلی گئی ہے۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ یہ تحریک اب مقامی Indigenous تحریک ہے جو لوگوں کے دلوں میں گھر کر چکی ہے لیکن جو ایک مضبوط لیڈر کے بغیر ہے،جس کے پاس بظاہر کوئی پلان نہیں جو ایک میڈیا لیسmedia lessتحریک بھی ہے اور آج کل سرگرم میڈیا کے بغیر کامیابی تقریباً نا ممکن ہے،بہت کمزور معیشت کی وجہ سے پاکستان بھی خاطر خواہ مدد دینے سے قاصر ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام کشمیری رہنما اپنے مفادات سے ہٹ کر اور اختلافات کو بھلا کر ساری تحریک پر نظر دوڑائیں اور کمزوریاں دور کر کے ازسرِ نو مردِ کوہستانی کی طرح سر پر کفن باندھ کر میدانِ عمل میں اتریں۔ خدا کرے ایسا ہو جائے۔اسی میں کامیابی ہے۔
پاکستان میں کورونا وبا کی نئی لہر نے کراچی میں تباہی پھیلائی ہوئی ہے۔اسپتال بھر گئے ہیں۔اگر اس لہر نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو بہت مشکل ہو جائے گی۔خدا را ماسک کا استعمال ضروری بنائیں۔مساجد اپنا کردار ادا کریں۔ہم ایس او پی پر عمل کر کے ہی اس وبا کو بے قابو ہونے سے روک سکتے ہیں۔